ColumnTajamul Hussain Hashmi

کورنگی NA:232کے حلقہ میں ایسا کیا ؟

تجمل حسین ہاشمی
حکومت کی تشکیل میں صوبہ سندھ کی سیٹوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، ماضی کے آٹھوں الیکشن میں صوبہ سندھ کی جماعتوں کا کردار کافی دفعہ اہمیت اختیار کر چکا ہے، خاص کر ایم کیو ایم کی سیٹیں حکومت سازی میں ہر بار اہم رہیں۔ بڑی جماعتوں کو نائن زیرو کے چکر لگانا پڑتے تھے۔ اس دفعہ ایم کیو ایم پاکستان کو اپنے اندر سے ٹکٹوں کی تقسیم پر مخالف آوازوں کا سامنا رہا لیکن قیادت کے مطابق منتخب امیدوار قابل اعتماد ہیں۔ الیکشن کمشنر کے اعدادوشمار کو صحافی عبدل جبّار نے بہترین کمپل کیا ہے۔ الیکشن کمشنر کے مطابق اس وقت صوبائی و قومی اسمبلی سندھ کی سیٹوں کے لیے 4110امیدواروں نے اپنے کاغذات جمع کرائے ہیں، اعداد و شمار کے ڈیٹا کو جمع کرنے میں غلطی کو معاف کیا جائے۔ صوبہ سندھ سے قومی اسمبلی کی نشستوں کیلئے 1177اور صوبائی اسمبلی کے لیے 2933امیدواروں نے الیکشن 2024کے لیے فارم بھرے ہیں۔ قومی اسمبلی میں سندھ کی 61نشستوں کے لیے 43سیاسی جماعتوں اور صوبائی اسمبلی کی 130جنرل نشستوں کے لیے 47جماعتوں نے اپنے اپنے امیدواروں کو میدان میں اترا ہے۔ اگر ہم سندھ میں پارٹی کے امیدواروں کے حوالے سے بات کریں تو چند ماہ پہلے بننے والی جماعت استحکام پاکستان نے قومی اسمبلی سندھ سے 10مرد اور 2عورتوں کو ٹکٹ جاری کئے اور صوبائی اسمبلی کے لیے 27مردوں اور 1عورت کو ٹکٹ جاری کیا ، سندھ سے ٹوٹل 40ممبرز کو ٹکٹ جاری کئے ۔
پاکستان تحریک انصاف سے بلا واپس لینے کے بعد مختلف نشانات الاٹ ہونے کے بعد اس وقت صوبہ سندھ میں آزاد امیدواروں کی تعداد 2744ہے، جس میں قومی اسمبلی سندھ سے 686مرد اور 54عورتیں ہیں ان کی ٹوٹل تعداد 740ہے اور صوبائی اسمبلی کے لیے 1906مرد اور عورتیں 98ہیں، ٹوٹل تعداد 2004ہے۔ کل آزاد امیدواروں کی تعداد 2744ہے ۔
چوتھی بار وزارت عظمیٰ کی خواہاں پارٹی مسلم لیگ ن نے سندھ سے قومی اسمبلی کے لیے 23مرد اور 5عورتوں کو میدان میں اتارا ہے۔ صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کے لیے 43مرد اور 7عورتوں کو ٹکٹ جاری کئے ہیں ۔ ٹوٹل 78امیدواروں کو ٹکٹ جاری کئے ہیں۔ صوبہ سندھ سے صوبائی اور قومی اسمبلی کے حوالہ سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے امیدواروں کے حلقوں سے کہیں نا کہیں پارٹیوں میں ذہنی تعاون نظر آتا ہے۔ لیکن ایک دوسرے پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے ۔
ایک ایسا حلقہ NA۔ 232جہاں سے پاکستان تحریک انصاف کے سابقہ چیئرمین نے ضمنی انتخابات میں سیٹ نکالی تھی ۔ وہاں کے حالات کیسے ہیں۔ ایسے حلقے جہاں پارٹیوں کے قائدین جیت کر آتے ہیں وہاں ترقیاتی کاموں سے عوام کے حوالے سے عوام مایوس ہی رہی ہے۔ یہ حلقہ پہلے NA۔ 239تھا جو حلقہ بندیوں کی تبدیلی سے تبدیل ہو کر حلقہ NA۔232 ہو چکا ہے۔ اس حلقہ کے حوالہ سے عوامی رائے اور ماضی کے کامیاب امیدوار کون تھے۔ ان تمام امیدواروں کی علاقے کے حوالے سے خدمات نہ ہونے کے برابر رہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے ایم کیو ایم کی سیٹ پکی تھی۔ 2008اور 2013کے الیکشن میں ایم کیو ایم اس حلقہ سے وننگ رہی لیکن اس حلقہ کے کئی علاقوں میں تعمیراتی کام نہیں ہو سکا، کیوں کہ کراچی میں لسانیات کی ہوا چلی ہوئی تھی ۔ اس کے بعد 2018کے جنرل الیکشن اور 2022کے ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف وننگ تھی۔ اب اس حلقہ کی عوام کی رائے میں کافی تبدیلی آ چکی ہے۔ کیوں 9مئی کے واقعات کسی صورت قبول نہیں ہیں۔ سلامتی کے اداروں کے تقدس اور وقار میں قوم یک جان ہے۔ یہ پیغام بڑا لوڈ اینڈ کلیر ہے۔ اس وقت 232۔NAکی سیٹ پر سخت مقابلہ ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کی رہنما آسیہ اسحاق اور مولانا اویس نورانی کا ساتھ پکا ہے۔ جماعت اسلامی کے امید وار توفیق الدین صدیقی ان دونوں رہنماں میں سے زیادہ ایم کیو ایم پاکستان کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ مولانا اویس نورانی صاحب کو تین جماعتوں کی طرف سے بھرپور سپورٹ ہے اور اس حلقہ میں دیوبند مسلک سے زیادہ اہل سنت کے ووٹرز کی بڑی تعداد موجود ہے۔ مولانا اویس نورانی صاحب کو مذہبی اعتبار سے اچھا ووٹ ملنے کی امید ہے، لیکن ٹی ایل پی کی طرف سے مولانا کو دشواری کا سامنا ہو گا کیوں کہ ٹی ایل پی نے 2018کے الیکشن میں 30109ووٹ حاصل کر کے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ ان کا ووٹر بھی سنی مسلک سے ہے۔ جو مولانا کے ووٹ تقسیم کرے گا۔ اگر مولانا اویس نورانی ٹی ایل پی کو بھی اپنے حق میں دستبردار کر لیتے ہیں تو یقینا کامیابی کے قریب ہوں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی پہلے ہی دستبردار ہو چکی ہے اور مسلم لیگ ن نے اس حلقہ سے امید وار کو ٹکٹ جاری نہیں کیا۔ جمعیت علمائے پاکستان کے امیدوار مولانا اویس نورانی مضبوط امیدوار ہیں ان کو دو بڑی جماعتوں کی سپورٹ موجود ہے لیکن ان کی اپنی جماعت کا سٹرکچر اتنا مضبوط نہیں ہے جس کا نقصان ہو گا۔ ان کے مد مقابل ایم کیو ایم پاکستان کی رہنما آسیہ اسحاق ایک مضبوط سیاسی چہرہ ہے، جو کئی سال سے گرائونڈ لیول کی سیاست کر رہی ہیں، مہذب خاتون اور باکردار ہیں۔ ورکر کے ساتھ جڑ کر کام کرنے والی ہیں، ان کی جماعت کا سٹرکچر بہت مضبوط ہے۔ آسیہ اسحاق کے سامنے جماعت اسلامی ہے لیکن آسیہ اسحاق ایک مضبوط امیدوار ہیں اور آسیہ اسحاق کا گھر بھی اسی حلقہ میں موجود ہے۔ مقامی لوگوں کا تاثر بھی یہی ہے کہ وہ آرام سے میسر ہوں گی اور ہمارے قریبی ہیں، وہ ہمارے مسائل کو بھی ایڈریس کریں گی۔ سب سے بڑھ کر بی بی لسانی سوچ کی حامل نہیں ہے۔ جماعت اسلامی اور ٹی ایل پی نے ڈور ٹو ڈور الیکشن کمپین کا آغاز کر دیا ہے۔ جس کو اگنور نہیں کیا جا سکتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button