ColumnImtiaz Ahmad Shad

خود احتسابی ناگزیر

امتیاز احمد شاد
آج ہر شعبہ زندگی میں جو بحران نظر آرہا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے بلند اخلاقی اقدار سے منہ موڑ لیا ہے اور سب سے بڑھ کر المیہ یہ ہوا ہے کہ انسانوں نے اپنے مذاہب کے پاکیزہ اصولوں، خاص طور پر مسلمانوں نے اسلام کی روشن ہدایات سے روگردانی اختیار کر لی ہے، جس کی وجہ سے زندگی کے تمام شعبے بحران کا شکار ہیں، اور آپ کو ایک جگہ بھی ایسی نہیں ملے گی جہاں انگلی رکھ کر کہہ سکیں کہ یہاں کوئی برائی یا خرابی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی نگہبانی اور مہربانی سے جو ہمیشہ اس کی طرف سے اپنے بندوں پر ہوتی رہتی ہے کسی قوم کو محروم نہیں کرتا جب تک وہ اپنی روش اللہ تعالیٰ کے ساتھ نہ بدلے، اور جب کوئی قوم اپنی روش خود بدل لیتی ہے تو خدا کی طرف سے آفت آتی ہے پھر کسی کے ٹالے نہیں ٹلتی اور نہ کوئی مدد اس وقت کام آتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب تک مسلمان اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق چلتے رہے اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع کئے رکھا اس وقت تک دنیا میں مسلمانوں کا عروج تھا، مسلمان فاتح قوم کہلائے جاتے تھے، مشرق و مغرب میں ان کا سکہ چلتا تھا، دنیا کی سپر طاقتیں ان کے مقابلے میں زیرو کے درجہ میں تھیں، قیصر و کسریٰ کا دبدبہ جو چہاردانگ عالم میں گونج رہا تھا مسلمانوں کا نام سن کر ان کے تاج و تخت لرز اٹھے، انسان تو انسان جانور تک ان کی فرمانبرداری سے انحراف نہیں کرتے تھے، آخر ہم بھی تو مسلمان ہیں ہمارا بھی قرآن کا کلام الٰہی ہونے پر یقین ہے، ہم بھی اللہ اور رسولؐ کو مانتے ہیں، پھر کیا اسباب و عوامل ہیں کہ ہم ذلت و پستی کے غار میں چلے گئے؟ اور ہماری حیثیت سمندر کے جھاگ اور پانی کے بلبلوں کے مانند ہو کر رہ گئی اربوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود کوئی عزت و وقار نہیں، کوئی رعب و دبدبہ نہیں، کوئی آواز و حیثیت نہیں ۔ دور حاضر کا سب سے اہم اور بنیادی سوال یہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں مسلمان ہی پریشان کیوں ہے؟ مسلمانوں پر ہی ہر طرف سے مظالم کیوں ڈھائے جارہے ہیں، دنیا کے کسی کونے میں کوئی قوم پریشان ہے توا س کا نام مسلمان ہے، ایشیا، یورپ، افریقہ، امریکہ، یوگوسلاویہ کہیں بھی کوئی قوم پریشان ہے اس پر طرح طرح سے مظالم کئے جارہے ہیں پتہ چلے گا کہ اس کا نام مسلمان ہے، صومالیہ میں مسلمان خانہ جنگی کا شکار ہیں، فلسطین میں مسلمان اسرائیلی وحشت کا شکار ہیں جب کہ عرب و عجم کے بہت سارے طاقتور ممالک نہ صرف خاموش تماشائی ہیں بلکہ خود کو بچانے کے لئے ظالم کے ساتھ تعاون بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ تباہی اور بربادی کوئی ایک دن کا قصہ نہیں بلکہ صدیوں پر محیط ہماری بے حسی ، عیاشی اور بے بسی کا شاہکار ہے۔ یہ سارے مسائل جو پوری امت مسلمہ کو درپیش ہیں، ان کے سبب پر جب غور کرنے کی نوبت آتی ہے تو جن لوگوں کے دلوں میں ایمان کی ذرہ برابر بھی رمق ہے، وہ لوگ غور کرنے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ ان مصائب و آلام کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم دین کو چھوڑ بیٹھے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے، اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنی چھوڑدی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی اتباع کرنا چھوڑ دیا ہے، اور بد اعمالیوں میں مبتلا ہو گئے ہیں اس کے نتیجے میں یہ آفتیں ہمارے اوپر آرہی ہیں، اور یہ بات بالکل درست ہے اس لئے کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے:
وَ مَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍﭤ
ترجمہ:’’ اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور بہت کچھ تو معاف فرما دیتا ہے‘‘۔
لیکن بعض بد اعمال ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی سزا اس دنیا کے اندر ان مصیبتوں کی شکل میں دی جاتی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب ہم آپس میں بیٹھ کر امت مسلمہ کے ان مصائب کا تذکرہ کرتے ہیں اور ان کے اسباب کا جائزہ لیتے ہیں تو مشکل ہی سے شاید ہماری کوئی مجلس اس تذکرے سے خالی جاتی ہو گی کہ ہم سب بد اعمالیوں کا شکار ہیں، بد عنوانیوں کا شکار ہیں، گناہوں کے اندر مبتلا ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو چھوڑا ہوا ہے، یہ ساری مصیبتیں ان بد اعمالیوں کا نتیجہ ہیں، لیکن یہ سارا تذکرہ ہونے کے باوجود یہ نظر آتا ہے کہ پرنالہ وہیں گر رہا ہے اور حالات میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی۔ آج مسلم معاشرہ ہزار ہا برائیوں اور ہلاکت خیز بداعمالیوں کا شکار ہوکر گناہوں کے سمندر میں ڈوب گیا ہے اور غفلت کے شبستان میں خواب خرگوش کا لطف اٹھا رہا ہے برائی ایک ہو تو اس کا ذکر کیا جائے۔ آج تو ہر ذلیل کام کا سہرا ہمارے سر ہے، ہر رذیل حرکت کے موجد ہم ہیں، شراب نوشی ہمارا کام، رشوت خوری ہمارا فعل، جوا بازی ہمارا عمل، غلیظ ویڈیوز ہمارا شغف، فلم، ناچ گانا ہمارا شیوہ ، گالی گلوچ ہمارا خاصہ، غیبت و چغلی ہمارا نشان، ملاوٹ اور دو نمبری ہمارا طرہ امتیاز غرضیکہ جملہ برائیاں ہماری علامت و فطرت بن چکی ہیں۔ شاید انہیں وجوہ کی بنا پر مشہور مغربی مفکر جارج برنارڈ شا نے اپنی کتاب اسلام اور مسلمان میں لکھا کہ دنیا کا سب سے اچھا مذہب اسلام اور دنیا کی سب سے بدتر قوم مسلمان ہے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ آج ہم جس مصائب و مشکلات میں گرفتار ہیں یہ سب ہمارے ہی افعال و کردار کی سزا ہے، ماضی میں ہماری کیا حیثیت تھی اور آج ہماری کس پوزیشن ہیں۔ ہمارے اسلاف صرف کلمہ طیبہ۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول۔ پڑھ کر سارے عالم میں معزز و مکرم تھے، لیکن آج ہماری پسماندگی و تنزلی کا سبب صرف یہ ہے کہ ہم نے تعلیمات قرآنی اور احکام خداوندی سے رو گردانی کرلی ہے، اور جس دور میں بھی جس کسی قوم نے تعلیمات خدا وندی سے اجتناب و احتراز کیا اسے قعر مذلت اور انحطاط کی کھائی میں گرنا پڑا، اور وہ قوم پستی و گمنامی کی اس آخری حد کو پہنچ گئی جہاں سے کسی قوم کو بھی عروج و عظمت کے نگار خانوں کی طرف لوٹتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ ہم مسلمانوں نے قرآن و حدیث کی مقدس تعلیمات کو بھلا دیا اور یہود و نصاریٰ، کفار و مشرکین کے طریقوں پر چل پڑے، نتیجہ یہ ہوا کہ ذلت و رسوائی تباہی و بربادی، ہلاکت و پسماندگی ہماری تقدیر بن گئی، اور دنیا میں ہم سب سے کم تر، بے یار و مددگار، اور ذلیل و خوار سمجھے جانے لگے، کیوں؟ صرف اس لئے کہ۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
بحیثیتِ مسلمان ہم یہ ذہن نشین کر لیں کہ آسمانی فیصلے ہمیشہ انسان کے حق میں ٹھیک ہوتے ہیں تو ان شا ء اللہ ہم کو پھر وہی عزت و شرافت، عظمت و بلندی، عروج و ارتقاء اور شان و شوکت حاصل ہو سکتی ہے جیسی کہ عہدِ ماضی میں تھی، مگر اس کے لئے شرط ہے کہ ہمیں خود کو بدلنا ہوگا اور اللہ و رسولؐ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنا ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ اپنی حالت وہ خود نہ بدلے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button