Columnمحمد مبشر انوار

اکھاڑ پچھاڑ

محمد مبشر انوار( ریاض)
بنی آدم نے ہر دور میں زندگی گزارنے کے لئے بہرطور قوانین بنائے ہیں جبکہ ان قوانین کا منبع و ماخذ رب کریم کے اپنے احکامات میں قطعی ہو چکا جب نبی آخری الزماؐں پر آخری الہامی کتاب ،قرآن مجید کو نازل کیا گیا۔بعد ازاں حضرت انسان پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ وقت کے مطابق اس ماخذ سے قوانین ترتیب دیتا رہے اور زندگی گزارتا رہے البتہ قوانین کی بنیادی اساس مساوات و عدل کو رکھا ،جو قومیں عدل وانصاف کے ساتھ حکومت کرتی ہیں،خواہ وہاں کفر کانظام ہو،وہ کامیاب رہتی ہیں،ان کے معاشرے پھلتے پھولتی نظر آ تے ہیں اور عوام خوشحال دکھائی دیتی ہے۔جبکہ اس کے برعکس اگر کلمہ گو عدل و انصاف ومساوات کو اپنے معاشروں میں لاگو نہیں کرتے،تو معاشرے تباہی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ فی زمانہ ،ریاستوں کے لئے مقدس ترین دستاویز آئین سمجھی جاتی ہے کہ اس دستاویز سے ہی تمام تر قوانین جنم لیتے ہیں، ریاست کے امور اس ایک آئین کے تحت سرانجام پاتے ہیں،ادارے و محکمے اس آئین کے تحت بنے ہوئے قوانین سے ہی ریاستی امور سرانجام دیتے نظر آتے ہیں ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اولا تو آئین ہی نہ بنایا جا سکا جبکہ بعد ازاں بننے والے آئین کی پاسداری کرنے میں بھی ہم کامیاب نہ ہوسکے،استحصال میں اس حد تک بڑھ گئے کہ مشرقی پاکستان والوں کو دیوار سے لگا دیااور ان کی علیحدگی کو بیرونی ہاتھ ملوث ہونے کا جواز بنا کر ،خود بری الذمہ ہو گئے۔اصولا ہوناتو یہ چاہئے تھا کہ ہم اس سانحہ سے سیکھتے اور باقی ماندہ پاکستان میں ایسے حالات پیدا نہ کرتے کہ اس کی اکائیاں اپنا استحصال ہوتا محسوس کرتی لیکن پھر بدقسمتی سے ہم نے اس سانحہ سے کچھ نہ سیکھنے کا وتیرہ اپنائے رکھااور جمہوریت کو پنپنے کا موقع نہیں دیا۔حقیقی جمہوریت کہ جس میں جمہور واقعتا اپنے منتخب نمائندوں کو ایوانوں میں بھیج کر پر اعتماد ہوں کہ واقعتا جمہور کے حقیقی نمائندے ہی ایوانوں میں موجود ہیں۔ حقیقی نمائندوں کی ایوانوں میں عدم موجودگی اور بونے و مفاد پرست سیاستدانوں کی ایوانوں میں موجودگی نے جو گل کھلائے،اس کے ثمرات اس وقت پاکستان کے عوام بھگت رہے ہیں،ایوان نمائندگان کہ جس کا کام ریاست و شہریوں کے حقوق کاتحفظ کرنا ہے،وہ فرد واحد،سیاسی و آمر، کے مفادات کا تحفظ کرتا دکھائی دیتا ہے۔محکمے و اداروں کو آئین و قانون کی بجائے ذاتی خواہشات کی تکمیل میں جتانااور پھر اس کے عوض ’’ نوازنے ‘‘ نے ریاستی مشینری کو ریاست سے کہیں زیادہ ’’ حکمران خاندانوں‘‘ کا ذاتی غلام بنا کر رکھ دیا ہے جبکہ عوام ان محکموں کی کارستانیوں سے عاجز آ چکی ہے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس کسی عام شہری کی داد رسی کے لئے ،کسی زیادتی کے مداوے کے لئے وقت ہی نہیں یا اسے قانونی سقم میں الجھا دیا جاتا ہے، البتہ ظالم کے ساتھ سازباز کرکے،روپے اینٹھ کر اس کی مزید حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ شہریوں کو مزید لوٹ لو لیکن ہمارا حصہ ہمیں ملتا رہے۔اس طرز عمل نے شہریوں کے محکموں پر اعتماد کو ریزہ ریزہ کر دیا ہے کہ بیچارہ غریب شہری ، جو اس وقت دو وقت کی روٹی کے لئے ہلکان ہے،کس طرح اپنی دیہاڑی چھوڑ کر ان اہلکاروں کے پیچھے جائے؟ کسی بھی مہذب معاشرے میں سائل کا کام اپنی عرضی گزارنا ہے ،جبکہ محکموں اور اہلکاروں کا کام اس کی داد رسی اس طرح کرنا ہے کہ ظالم کو شکنجے میں کس کر ،اس کے حلق سے مظلوم کا حق دلوایا جائے،تا کہ نہ صرف قانون پر عمل درآمد ہو بلکہ مستقبل میں ایسے ظلم کی حوصلہ شکنی ہو لیکن اہلکاروں کا رویہ اور سلوک وطن عزیز میں ظالموں کی تعداد بڑھانے میں ہی ممد و معاون ثابت ہو رہا ہے۔
بہرکیف بات کہیں سے کہیں نکل گئی لیکن یہ برمحل بھی ہے اور موجودہ سیاسی چپقلش کی عکاسی بھی کر رہی ہے کہ جس طرح کل تک ایک سیاستدان پر تبرے بھیجے جاتے رہے،اس کی کارستانیوں پر لعن طعن ہوتی رہی،آج کس طمطراق کے ساتھ اسے واپس لایا جا چکا ہے اور کس طرح متوقع انتخابات میں اس کی جیت کے لئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں ،سب عیاں ہے۔حیرت تو مجھے بلوچستان کے سرداروں پر ہو رہی ہے کہ ایک طرف وہ ہمیشہ عزت نفس کی بات کرتے ہیں،جو ہونی بھی چاہئے کہ اس کے بغیر قیادت و رہنمائی ممکن نہیں،لیکن دوسری طرف کس قدر سہولت کے ساتھ آن واحد میں اپنی وفاداریوں کو تبدیل کرتے دکھائی دے رہے ہیں،عزت نفس کی بات کرنے والوں کو زیب نہیں دیتا ۔ عزت نفس والے تو اصول ،حق و سچ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں تو پھر اس کے ساتھ ہی کھڑے تاوقتیکہ حالات وواقعات اس حق و سچ کو غلط ثابت نہ کردیں لیکن یہ کیا کہ ہر چند سال بعد حق اور سچ بدل جائے ؟افسوس کہ اس تکرار میں کہیں بھی عزت نفس یا حق و سچ کی بات دکھائی نہیں دیتی بلکہ مطمع نظر فقط اقتدار دکھائی دیتا ہے کہ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں ،جبکہ سیاستدانوں کے اسی غیر جمہوری روئیے کی وجہ سے یہ سیاسی گروہ تیسری طاقت کے تابع نظر آتے ہیں۔ اس اکھاڑ پچھاڑ میں پس پردہ قوت پوری طرح آشکار ہو چکی ہے لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ اس میں بڑا کردار ان خودساختہ سیاستدانوں کا دکھائی دیتا ہے، جنہیں اقتدار کے علاوہ کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی اور ہر صورت اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں، خواہ اس کی کوئی بھی قیمت انہیں ادا کرنا پڑے۔
اس قومی پس منظر میں بات تو حالیہ ورلڈ کرکٹ کپ پر کرنا چاہتا ہوں کہ اس سارے کھیل تماشے کا بدترین اثر ہمارے کھیلوں پر بھی نظر آیا ہے کہ ورلڈ کرکٹ کپ سے قبل یہ قوی توقع تھی کہ پاکستان کرکٹ ٹیم اس مرتبہ اپنے شہرہ آفاق کھلاڑیوں کی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ دیکھے گی اور میدان میں حریفوں کو چاروں شانے چت گرائے گی لیکن ہوا کیا؟ کرکٹ ٹیم کو ایک یونٹ بنانے میں کپتان کے کردار سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن ٹیم، سب کھلاڑیوں کی شمولیت سے بنتی ہے،جیت سب کھلاڑیوں کی مشترکہ کارکردگی سے نصیب ہوتی ہے،جب تک پاکستان کرکٹ ٹیم متحد ہو کر اور کپتان کی ہدایت کے مطابق کھیلتی رہی، کامیابی اس کا مقدر رہی ہے ۔ ورلڈ کرکٹ کپ کی تیاری سے قبل سری لنکا میں ہونے والے ایشیا کرکٹ کپ میں ہی قومی کرکٹ ٹیم کی جوہر سامنے آنے لگے تھے، ٹیم کہیں سے بھی ایک یونٹ نہیں لگ رہی تھی، ٹیم کا کپتان بابر اعظم جو ورلڈ کپ کی تیاری کے سلسلے میں لنکا لیگ اسی لئے کھیلا کہ موسم سے آشنائی ہو جائے، اس کی کارکردگی میں ایک تسلسل نظر آ رہا تھا ،اس کی کارکردگی یکدم زوال پذیر ہو گئی۔ ایک ایسی ٹیم جو ہر صورت ایشیا کپ کے لئے فیورٹ تھی ،میدان سے باہر نظر آئی، اس کے باوجود امیدتھی کہ سری لنکا میں کی کئی محنت ورلڈ کپ میں رنگ دکھائے گی لیکن افسوس کہ ان دو مقابلوں سے قبل بہترین اور نمبر ون رہنے والی ٹیم میں ،ٹیم کی کوئی بات نظر نہیں آئی۔یہاں بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ میں جو بے ضابطگیاں نظر آئی ہیں،جو تعصب دکھائی یا ہے،اس نے بہرصورت اس کھیل کو مزید ’’ جینٹلمین کھیل‘‘ نہیں رہنے دیا بلکہ اسے بھی تماش بینوں کی طوائف بنا دیا ہے۔ جہاں میدا ن میں بہت سی باتوں کی نشاندہی ہو رہی ہے کہ اس مرتبہ ایمپائرنگ کا معیار اس قدر پست ہے کہ آئی سی سی کو شائقین کرکٹ کی طرف یہ تک سننے کو مل رہا ہے کہ اس مقابلے کو آئی سی سی کی بجائے بی سی سی آئی کا مقابلہ کہا جائے اور ورلڈ کپ مقابلوں کے بغیر ہی بھارت کو دے دیا جائے۔ ویسے ایسے کمنٹس کے بعد بھارت یہ کپ جیتنے کے بعد بھی درون خانہ شرمندہ ہی رہے گا کہ اس کے پاس ایک ایسی ٹیم تھی جو ایسے جوڑ توڑ کے بغیر بھی، مقابلہ کرکے بھی کپ جیت سکتی تھی لیکن یوں کلنک کا ٹیکہ بھارت کے ماتھے نہ سجتا۔ ایمپائرنگ کے علاوہ جو کچھ ٹاس کے حوالے سے ہوا ہے، اس کے متعلق سکندر بخت نے اپنے شو میں اظہار کرتے ہوئے کیا ہے کس طرح بھارتی کپتان روہت شرما سکہ کو متعین جگہ سے دور اچھالتے رہے ہیں، اور کیسے وہ ٹاس جیتتے رہے ہیں۔ بہرکیف! بابر اعظم کے ایک ورلڈ کلاس کھلاڑی ہونے میں کسی کو کوئی شک نہیں اور بعینہ جس طرح ملک میں سیاسی کھیل کھیلا جا رہا ہے، اسی طرح کرکٹ ٹیم کی کپتانی سے بابر اعظم کو بظاہر ایک طے شدہ منصوبے کے مطابق ہٹانے کا جو کام ورلڈ کپ سے پہلے شروع ہوا تھا،وہ پایہ تکمیل تک پہنچ چکا ہے ،اس کے ساتھ ساتھ بیرونی سٹاف کو بھی فارغ کر دیا گیا ہے،یوں سیاسی اکھاڑے سے شروع ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ، کرکٹ کے میدانوں تک پہنچ گئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button