CM RizwanColumn

اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل نہ کریں

سی ایم رضوان
بدخبری اور بے پرکی اڑانا ہمارے بعض سیاستدانوں کا شیوہ بن گیا ہے حالانکہ ان کو یہ بخوبی علم ہے کہ لوگ ان کی باتوں کو دھیان سے سنتے اور ان پر کسی نہ کسی حد تک اعتماد بھی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اکثر ایسی باتیں کر جاتے ہیں کہ جن سے نہ صرف عوام میں گمراہی پھیلتی ہے بلکہ ملک و قوم کا امیج بھی بیرونی دنیا میں خراب ہوتا ہے اور ملک کا نقصان بھی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر سائفر کو لے کر سابق وزیراعظم عمران خان نے جو پروپیگنڈا اور ایک دوست ملک کو بدنام کرنے کا جو جرم کیا تھا اور جس کی پاداش میں آج وہ مقدمہ بھگت رہے ہیں کل اسی آگ کو ان کی بہن علیمہ خان نے پھر ہوا دے دی ہے اور محترمہ نے فرمایا ہے کہ اگر ان کو پاکستان کی عدالتوں سے ریلیف نہ ملا تو وہ امریکی عدالتوں میں ڈونلڈ لو کے خلاف مقدمہ کر دیں گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنے بھائی کو ریلیف کے لئے نکلی ہیں یا اس کے لئے مزید مشکلات پیدا کرنے کے لئے میڈیا کے سامنے آتی ہیں۔ پھر یہ بھی کہ کیا وہ ملک و قوم کی ہمدرد ہیں یا وہ بھی اپنے بھائی کی طرح ملک دشمنی کر رہی ہیں۔ اسی طرح پرویز الہٰی نے بھی گزشتہ روز اپنی پیشی کے دوران انکشاف کر دیا کہ آئی ایم ایف اور آمریکہ کے اہم لوگ عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے لئے آئے تھے۔ جس کی تردید اڈیالہ جیل حکام نے دوسرے روز ہی کردی ہے مگر ہی ٹی آئی کے کارکنوں کو ایک اور جھوٹ مل گیا اور انہوں نے سوشل میڈیا پر خوب پروپیگنڈا کیا۔
اسی طرح آج کل بلاول بھٹو تو شاید سیاسی خودکشی پر آمادہ ہو گئے ہیں اور اس قدر احمقانہ بیانیہ بنانے کی تگ و دو کر رہے ہیں کہ یہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اس کے بعد ان کی جماعت کا انجام بھی پی ٹی آئی جیسا ہو گا۔ یاد رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور اس کے بعد پی ڈی ایم دور حکومت میں بھی سابق صدر آصف زرداری انتہائی پر اعتماد نظر آنے لگے تھے اور جب عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کے پیچھے امریکی سازش کا الزام لگایا تھا تو آصف زرداری اور ان کے صاحبزادے بلاول نی بلاتردد کہا تھا کہ آپ کے خلاف عدم اعتماد کسی سازش کا نتیجہ نہیں بلکہ آپ کی حکومت کے خاتمے کے پیچھے ہم ہیں۔ پھر آصف زرداری یہ بھی کہتے رہے کہ اگلا وزیراعظم بلاول بھٹو کو بنائوں گا، دوسری جانب ان کی جماعت شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ ملنے اور ان کے سخت معاشی فیصلوں کے نتیجے میں مہنگائی کے سیلاب سے بھی نظریں چرانے لگی۔ وہ اندر ہی اندر خوش بھی تھے کہ عوام کی شدید تنقید کا نشانہ صرف شہباز شریف اور مسلم لیگ نواز ہی بن رہے تھے۔ اسی موقع پرستی کی بناء پر اب بلاول ن لیگ کو مہنگائی لیگ بھی کہہ رہے ہیں حالانکہ اس حکومت کی کابینہ میں وہ خود اور ان کی پارٹی کے متعدد وزراء شامل تھے۔ پھر اس اتحادی حکومت کی مدت ختم ہوتے ہی منظر نامہ تبدیل ہونے لگا تو پیپلز پارٹی کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کی شکایات آنے لگیں۔ کہا گیا کہ وفاقی ترقیاتی منصوبے پنجاب میں تو جاری و ساری رہے جبکہ سندھ میں جاری منصوبے فنڈز کی عدم فراہمی کے باعث تعطل کا شکار رہے۔ دبے لفظوں میں شکایات کا یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے بظاہر شدید سیاسی اختلافات میں تبدیل ہوگیا۔ یہاں تک کہ ماضی میں عمران حکومت گرانے پر فخر کرنے والی پیپلز پارٹی تحریک انصاف کو انتخابی اتحاد کے پیغام بھیجنے لگی۔ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے پی ڈی ایم کی مشترکہ جدوجہد اور کاوشوں کی دعویدار پیپلز پارٹی مسلم لیگ نواز کو اپنا سخت حریف تصور کرنے لگی۔ نوازشریف کی پاکستان آمد پر سرکاری پروٹوکول اور یکے بعد دیگرے ضمانتوں کو مقتدرہ کے ساتھ ڈیل کا شاخسانہ قرار دینے لگی اور انہیں سلیکٹڈ اور سپر لاڈلہ جیسے القابات سے نوازنا شروع کر دیا۔ مقابلتاً اکا دکا تنقیدی اور توضیحی بیانات کے سوا مسلم لیگ ن خاموشی سے ہی کام چلاتی رہی مگر جب نواز لیگ نے سندھ میں جی ڈی اے اور کراچی میں ایم کیو ایم سے انتخابی اتحاد کی پینگیں بڑھائیں تو سندھ میں کئی دہائیوں سے اقتدار میں رہنے والی پیپلز پارٹی سیخ پا ہوگئی۔ بلاول بھٹو نے نواز شریف کے دورہ بلوچستان پر تو یہ مشورہ بھی دے ڈالا کہ وہ ایک دو نشستوں کے لئے ادھر ادھر بھاگنے کی بجائے اپنے لاہور پر فوکس کریں۔ یہ ٹھیک ہے کہ مسلم لیگ ن کی سیاسی محاذ پر تیز پیش قدمی نے صرف پیپلز پارٹی ہی نہیں بلکہ دیگر جمہوری حلقوں اور سیاسی نقادوں کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا ہے لیکن واضح رہے کہ اس ساری پیش قدمی میں اس نے سیاسی اخلاقیات اور جمہوری روایات کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اس کے باوجود جیالے لیڈروں، اکثر دانشوروں اور اینکروں کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمارے ہاں ہمیشہ سے ہی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ سیاسی جماعتوں اور گروپوں کو ایک اشارہ دیا جاتا ہے اور وہ ایک مخصوص سیاسی جماعت کی جھولی میں جا گرتے ہیں لیکن اس رائے کے پیچھے نہ تو کوئی واضح اطلاع، خبر یا رپورٹ ہے اور نہ ہی تسلیم شدہ حقیقت بلکہ محض ماضی کی مثالیں دے کر بھونڈی دلیل گھڑ لی گئی ہے۔
بات وہی ہے کہ ہمارے ہاں محض مفروضے اور ذاتی سوچ کی بناء پر پراپیگنڈا کیا جاتا ہے اور اگر پراپیگنڈا زیادہ ہو جائے تو ہمارے ہاں یہی پروپیگنڈا تسلیم شدہ رائے بھی بن جاتی ہے اور پھر پورا ملک لکیر کا فقیر بن کر اسی پراپیگنڈے کو حقیقت کے طور پر بیان کرنا اور سمجھنا عین شعور قرار دے لیتا ہے۔ ماضی میں بھی ایسی کئی مثالیں موجود ہیں اور پی ٹی آئی کی تو ساری کی ساری مقبولیت ہی اسی بنیاد پر ہوئی ہے کہ وہ کسی ایک شخصیت یا ادارے کو اس طرح بے تکے اور اندھے انداز میں تنقید اور بدنامی کے تیروں کا نشانہ بناتی ہے کہ الامان الحفیظ۔ لیکن یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس سارے کھیل نے ملک کے نوجوانوں کو مجموعی طور پر جھوٹ کا پیروکار اور تسلیم کار بنا دیا ہے۔
جہاں تک پیپلز پارٹی کی موجودہ چیخ چہاڑ کا تعلق ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ چند ماہ قبل تک آصف زرداری خوابوں میں اپنے صاحبزادے کو وزارت عظمی کے امیدوار بنائے بیٹھے تھے جبکہ اب ناکامی نظر آنے پر وہ اشاروں اشاروں میں اسٹیبلشمنٹ سے شکوہ کناں ہیں کیونکہ انہیں محسوس ہو گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان کو اس قسم کا گھاس ڈالنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ن لیگ کو بھی اس طرح سے سپورٹ نہیں کر رہی جس طرح کہ سابق دور میں باجوہ پالیسی تھی۔ یاد رہے کہ پچھلے کچھ عرصے میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد لینے کی امید پر زرداری نے پنجاب میں اپنی جماعت کو دوبارہ فعال کرنے کی بھی بے حد کوششیں کیں مگر سب رائیگاں گئیں۔ الیکٹیبلز نے بھی ان کی دعوت کو نظرانداز کرتے ہوئے استحکام پاکستان پارٹی کی چھتری تلے پناہ لینا مناسب سمجھا تھا۔ بالآخر زرداری کو پنجاب میں اپنی پارٹی کو خود غیر فعال رکھنے کی پاداش میں ناکامی اور جوڑ توڑ میں بھی نامرادی نظر آئی تو انہوں نے اپنے پنجاب کے کارکنوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے اور پنجاب کے جیالے لیڈروں کو کام پر لگانے کے لئے بلاول کو یہ بیانیہ بنانے پر لگا دیا کہ ن لیگ کے خلاف فوج کی حمایت کا الزام لگایا جائے لیکن یاد رہے کسی ادارے پر جھوٹی الزام تراشیوں کے گناہ عظیم کا انجام عمران خان جیسا ہوتا ہے کہ مقبولیت اور اکثریت کے باوجود آج نہ تو وہ خود آزاد ہیں اور نہ ان کی پارٹی میں کوئی دوسرا رہنما باقی رہ گیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے نو آموز چیئرمین بلاول بھٹو کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور جھوٹ کی پیروی کرنے کرانے کی بجائے سچ کو مان کر صرف سچ کی تلاش میں نکلتا چاہئے اور سچ یہ ہے کہ ان کی پارٹی صرف دیہی سندھ میں تھوڑی بہت اکثریت رکھتی ہے اور وہ اکثریت بھی اب وہ سخت محنت کے بعد ہی برقرار رکھ سکیں گے ورنہ سندھ بھی ان کے ہاتھ سے نکلتا دکھائی دے رہا ہے۔ بقول شاعر اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ۔ بلاول بھٹو کو اس بات سے سبق سیکھنا چاہیے کہ آج استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے زیادہ تر سیاست دانوں کی تعداد تحریک انصاف کے منحرفین یا ان باغیوں کی ہی جو عمران خان کی جھوٹے ٹکرائو کی سیاست سے اتفاق نہیں رکھتے تھے اور اقتدار کے حصول کی خاطر تمام جمہوری قوتوں کو چور، ڈاکو قرار دے کر ہمیشہ مذاکرات کی پیشکش کو ٹھکرانے اور اپنے مخالفین کے خلاف اندھا دھند انتقامی کارروائیاں کرنے کی عمرانی روش کے ناقد تھے اور اقتدار سے نکلنے کے بعد بھرپور انداز میں اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لینے کی ہر حد پار کر جانے کو حماقت سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ آج عمران خان کو ملک دشمن ہونے کا سچا خطاب مل گیا ہے۔ بلاول کو چاہئے کہ وہ اپنے شہید ماموں کی الذوالفقار تنظیم کا انجام دیکھ لیں اور اسی پر اکتفا کریں ورنہ وہ جو بیانیہ بنا رہے ہیں اس کے ڈانڈے اڈیالہ جیل سے ملتے ہیں جبکہ زرداری ان کے حوالے سے ایسا کوئی خواب نہیں دیکھتے۔ یاد رہے کہ فوج مخالف بیانیہ سے بلاول کو تھوڑی بہت مقبولیت اور عوامی پذیرائی تو مل جائے گی مگر ان کی معقولیت پر حرف آئے گا۔
یاد رہے کہ 9مئی کے واقعہ نے جہاں بعض ملک دشمنوں کو برہنہ کیا ہے وہاں ملک میں جمہوری آزادیوں اور میڈیا کی آزادی کو بھی مخصوص اور جائز حد میں محدود کر دیا ہے۔ آج خاص طور پر جبکہ فوج کی قیادت ایک محب وطن اور اصولی موقف رکھنے والے چیف کے ہاتھ میں ہے ان حالات میں فوج جیسے حساس اور اہم ادارے پر منہ اٹھا کر آندھی تنقید ملک و قوم کے مفاد میں ہر گز نہیں ہو سکتی۔ شاید اسی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے گزشتہ روز مولانا فضل الرحمان نے بھی کہہ دیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو خواہ مخواہ بدنام یا بلیک میل نہ کیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button