اللہ کے نبیﷺ کے تمام صحابی ہی پیارے ہیں اور ہر کوئی اپنی اپنی خصوصیات میں اپنی مثال آپ ہے،
اللہ کے نبی کے سب سے قریبی ساتھی حضرت ابوبکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما ہیں جو روضہ رسولﷺ میں بھی محبوب نبی کے ساتھ ہیں، یہ دونوں صحابی نہ صرف پہلے اور دوسرے خلفائے راشد ہیں بلکہ انہیں شیخین بھی کہا جاتا ہے،
اسی طرح تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو ذوالنورین کہا جاتا ہے کیونکہ ان کا اللہ کے نبی کی دو بیٹیوں کے ساتھ نکاح ہوا تھا، چوتھے خلیفہ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اللہ کا شیر کہا جاتا ہے، رسول اللہ ﷺ کا ہر صحابی کسی نہ کسی خاصیت کے ساتھ نمایاں ہے لیکن آج ہم جس صحابی کا ذکر کریں گے انہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا راز دار ہونے کا شرف حاصل ہے،
یہ وہ صحابی ہیں جنہیں اللہ کے رسول ﷺ نے قیامت تک آنے والے ہر فتنے کے بارے میں بتادیا تھا، رسول اللہ کے اس صحابی کو مدینہ کے منافقین کے نام بھی معلوم تھے لیکن رسول اللہ ﷺکی نصیحت کے باعث کبھی بھی یہ نام آشکار نہیں کیے
یہ صحابی حضرت حذیفہ بن الیمان ہیں جنہیں کاتب وحی ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ کے نبی ﷺ کا راز دار صحابی بھی کہا جاتا ہے۔
رسول اکرم ﷺ ہر صحابیؓ کو اُس کی صلاحیتوں کے حساب سے کام سونپا کرتے تھے۔ حضرت حذیفہؓ میں تین خصوصیات تھیں، جو اُنہیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھیں۔ اوّل یہ کہ وہ بہت ذہین اور سمجھ دار تھے، مشکل سے مشکل مسئلے کا حل ڈھونڈ نکالتے۔ دوم، بہت جلد بات کی تہہ تک پہنچ جاتے اور نتیجہ اخذ کرنے میں دیر نہ کرتے۔ سوم یہ کہ راز کو راز رکھتے تھے۔
ان کی راز داری کا یہ عالم تھا کہ رسول اللہﷺ نے اُنہیں منافقین کے ناموں سے آگاہ کر دیا تھا۔ یہ ایک ایسا راز تھا، جو کسی اور صحابی کے پاس نہیں تھا، آپ ﷺ نے حضرت حذیفہؓ کو تاکید فرما دی تھی کہ اسے راز میں رکھنا اور منافقین کی حرکات و سکنات پر بھرپور نظر رکھنا تاکہ وہ مسلمانوں کو اذیت پہنچانے کے کسی منصوبے میں کام یاب نہ ہوں،
حضرت حذیفہؓ نے منافقین کے ناموں سے متعلق راز کو زندگی بھر اپنے سینے ہی میں رکھا۔ سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنا معمول بنا لیا تھا کہ اگر اُنہیں کسی کی موت کی خبر ملتی، تو حضرت حذیفہؓ سے متعلق معلوم کرتے کہ کیا وہ جنازے میں شریک ہیں؟ اگر وہ شریک ہوتے، تو حضرت عُمرؓ بھی نمازِ جنازہ پڑھتے، وگرنہ نہیں پڑھتے تھے۔حضرت حذیفہؓ بن الیمان مدینے کے چند پڑھے لکھے نوجوانوں میں سے ایک تھے۔