ColumnFayyaz Malik

’’ اللہ کریسی‘‘ کا نظام جس پر پاکستان چل رہا ہے

فیاض ملک
مجھے یہ واقعہ ایک دوست نے واٹس ایپ پر بھیجا تھا جس کو پڑھنے کے بعد میں نے موجودہ ملکی صورتحال کو دیکھتے ہوئے من و عن آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں، نواب آف کالاباغ ملک امیر محمد خان جو کہ مغربی پاکستان کے گورنر تھے، امریکی کانگریس کے اراکین ان سے ملاقات کیلئے آئے، نواب صاحب کی عادت تھی کہ وہ لوگوں کے مسائل کچہری لگا کر سنا کرتے تھے اور اس میں کبھی ناغہ نہیں ہوتا تھا، امریکی وفد کی موجودگی میں بھی یہ کچہری جاری رہی اور وہ بغور یہ سب کچھ دیکھتے رہے ، نواب صاحب ہمیشہ ان شاء اللہ کی جگہ خالص میانوالی کے لہجے میں اللہ کریسی یعنی اللہ کرے گا، کہا کرتے تھے، چنانچہ وہ کسی سائل کی بِپتا سنتے تو ازالے کیلئے احکامات جاری کرنے کے ساتھ ساتھ شکایت کنندہ کی تسلی کیلئے اللہ کریسی کہتے جاتے، کچہری ختم ہوئی تو ایک امریکی رکن کانگریس نے پوچھا: بیوروکریسی، ٹیکنوکریسی وغیرہ تو سنا تھا لیکن یہ  اللہ کریسی کون سا سا سسٹم ہے ؟ نواب صاحب نے مسکرا کر جواب دیا: اللہ کریسی وہ نظام ہے جس پر پاکستان چل رہا ہے۔ اب اس واقعہ کی حقیقت کیا ہے، اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارے ملک کا نظام واقعی ہی اللہ کریسی کے تحت چل رہا ہے۔ اس بات کی تصدیق آپ خود بھی اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیکر کر سکتے ہیں، آپ کو اللہ کریسی کا نظام ہر جگہ نظر آئے گا ۔ ٹریفک کو دیکھ لیں، دنیا میں ہر جگہ ٹریفک قوانین لاگو ہیں جبکہ یہاں پر جو بھی بخیریت گھر پہنچا، اللہ کے فضل وکرم سے ہی پہنچا ہے، امن و امان کے قیام کیلئے دنیا بھر کے ممالک میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کام کرتے ہیں جو جرائم پیشہ افراد کو پکڑتے ہیں تاکہ معاشرہ میں امن ہو اور لوگ سکون کی زندگی بسر کر سکیں جبکہ ہمارے ہاں اگر کہیں پر ڈکیتی ہوجائے تو شریف آدمی تھانے جانے سے کتراتا ہے اور جس کا مال اسباب محفوظ رہتا ہے وہ صرف اور صرف اللہ کریسی کی بدولت محفوظ ہوتا ہے، صحت کی سہولیات کو دیکھ لیں کہ دیہاتوں بلکہ اب تو شہروں میں بھی اتائی مسیحا بنے ہوئے ہیں اور بیمار ان سے علاج کے بعد شفا یاب بھی ہورہے ہیں اور یہ سب اللہ کریسی کی ہی بدولت ہے۔ تعلیم کے شعبہ کی تو حالت ہی ابتر ہے جان بوجھ کر یہاں حالات ٹھیک نہیں ہونے دئیے گئے کہ اگر تعلیم کا معیار ہر خاص و عام کیلئے بہتر کر دیا تو کل یہ نوکری مانگیں گے قانون کی بالادستی کی بات کریں گے۔ لہذا اتنی حوصلہ شکنی کرو کہ پرائمری سے ہی لوگ مایوس ہوکر بھاگ جائیں اور جو کسی نا کسی طرح پڑھ لکھ گئے تو اس کا کریڈٹ اللہ کریسی کے علاوہ کس کو دے سکتے ہیں۔ پاکستان آج جس سنگین صورتحال سے گزر رہا ہے۔ ایسی صورتحال کبھی دیکھی نہ سنی۔ غیر یقینی ایسی ہے کہ ہر گزرتے لمحے ایک انجانا خوف طاری رہتا ہے کہ نہ جانے آگے کیا ہوگا۔ یقین جانئے کہ اب مہنگائی سے عوام کے رونگٹے کھڑے نہیں ہوتے اور وہ مسلسل سسکنے پر ہی گزارا کرنا چاہتے ہیں۔ ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے غریب عوام دو وقت کی روٹی سے محروم ہو گئے ہیں ایک جانب مافیا نے اشیاء خوردونوش اور روز مرہ کے استعمال کی اشیاء کو نا جائز طور پر ذخیرہ کر کے مصنوعی بحران پیدا کر د یا ہے جس سے عوام کی قوت خرید شدید متاثر ہوئی ہے تو اور ملک میں آٹے، چینی، گھی، تیل، سبزیاں، گوشت اور دیگر اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوگیا ہے غریب عوام جن کی محدود آمدنی ہے، انہیں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کبھی چینی اور کبھی آٹے کا بحران پیدا کرکے ان کی قیمتوں کو بڑھا دیا جاتا ہے تو کبھی بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر نے لگ جاتی ہیں، جس سے غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ملک میں خوردنی اشیاء کی قلت اور مہنگائی دن بدن شدت اختیار کرتی جا رہی ہے، جس نے غریبوں کا خون تک نچوڑ لیا ہے۔ ناجائز ذرائع سے دولت کے حصول کی حرص و ہوس سے گلے تک بھری کچھ سفاک، لالچی اور منافع خور تاجر، دکاندار اور آڑھتی بنیادی ضروریات خورونوش، پھل اور سبزیاں بہت مہنگی کر دیتے ہیں، اب سوال یہ بھی ہے کہ ان اشیاء کی قیمتیں فوراً کیوں آسمان کو چھونے لگتی ہیں، جس سے غربت، مفلسی، تنگ دستی، مناسب روز گار اور ذرائع آمدن نہ رکھنے والے شہری کس طرح اپنے بچوں کیلئے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کریں گے، ملک میں سب سے بڑا مسئلہ غربت کا ہے۔ غربت کی ایک وجہ کرپشن ہے، کرپشن کی ہمارے معاشرے میں مختلف اقسام ہیں جس کی وجہ سے نظام کا بنیادی ڈھانچہ بیرونی طور پر مضبوط مگر اندرونی ساخت کو دیمک چاٹ چکی ہے، کچھ لوگوں کا وسائل پر قبضہ کرنا، مزدور طبقہ اور عام آدمی کو بنیادی ضرورتوں سے محروم رکھا جاتا ہے، خصوصی طور پر صحت و علاج، پانی، انصاف کی فراہمی، مہنگائی، ملازمت، قرضوں کی فراہمی اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات پر بھی عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔76سال سے ہوگئے ملک کو بنے ہوئے، نہ تو جمہوریت راس آئی اور نہ ہی آمریت کو اپنا سکے، گویا اپنا حال بھی اس نامراد عاشق سا ہے، جو محبوب پاس ہوتو بھی بے چین اور محبوب دور ہوتو پھر بھی اضطراب کا شکار ہوتا ہے، معاشی حالت یہ ہے کہ اپنی چادر دیکھ کر پائوں کبھی نہیں پھیلائے۔ مغلیہ دور چلا گیا مگر سر سے شاہی عادات نہیں نکل سکیں ، ملک کا سال کا اخراجات کا گوشوارہ بناتے ہیں، جس میں آمدن کم اور اخراجات زیادہ ہوتے ہیں، زندگی اس سے زیادہ سہل کیا ہوگی کہ کروڑوں لوگ سیلاب کی وجہ سے اذیت بھری زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ہم جمہوریت کو بچا رہے ہیں۔ ہماری سیاسی اشرافیہ نے کبھی سوچا ہے کہ جاڑے کے دنوں میں بنا گھر کے کون سکون کی نیند سو سکتا ہے۔ مگر قدرتی آفات سے کون لڑسکتا ہے یہ تو تقدیر کا لکھا ہے۔ کتنا آسان ہے اپنی نالائقیوں اور نااہلی کو تقدیر کا نام دے کر جان خلاصی کر لینا، عوام جس صورتحال سے دوچار ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے مہنگائی کے منہ زور طوفان نے کئی مشکلات کھڑی کر دی ہیں، جیسا کہ میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ عوام سیاسی رہنمائوں سے توقع نہ رکھیں کہ وہ عوام کے مسائل پر لانگ مارچ کریں گے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی رہنمائوں کو عوام کی بد دعا لگ چکی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ادارے ، افسران اور ان افسران کے نیچے کام کرتے ہوئے بابو سب علامتی اور محض رسمی کارروائیاں کرتے نظر آئیں گے تاکہ مملکت کا نظم و نسق چلتا ہوا نظر آئے۔ یہاں یہ امر بھی نگران حکومت کی توجہ کا طلب گار ہے کہ وہ ایسے ذخیرہ اندوزوں اور مصنوعی مہنگائی کر کے پہلے ہی کٹھن اور مشکل ترین زندگی گزارنے والوں کی مشکلات میں اضافہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے، ان کی سزائوں کے قوانین مزید سخت کر کے ان کا موثر نفاذ کرے، عوام کیلئے بیورو کریسی میں ایسے بندے کو لگائیں، جو عوام کے درد کو سمجھتے ہوں۔ اس کیلئے کوئی مشکل فارمولا نہیں، ماضی میں کئی ایسے افسر تعینات رہے جو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر ان کے مسائل کو حل کرتے تھے۔ حکومت جب تک شاہی سوچ رکھنے والے افسر مقرر کرتی رہے گی عوام تکلیف میں رہیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button