موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے ’’ نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر’’ کا افتتاح

موسمیاتی تغیرات اس وقت دُنیا کے تمام ممالک کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے، اس کے باعث بے پناہ نقصانات سامنے آرہے ہیں، دُنیا بھر کے ملکوں میں قدرتی آفات کی شرح ہولناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے ناصرف گرمی کی حدّت بے پناہ بڑھ چکی ہے، بلکہ سردی بھی خاصی شدّت اختیار کر چکی ہے۔ فصلوں پر بھی اس کے مضر اثرات پڑرہے ہیں۔ نت نئے امراض جنم لے رہے ہیں۔ دُنیا کی بڑی آبادی، خصوصاً بچے زیادہ متاثر دِکھائی دیتے ہیں۔ وطن عزیز موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ممالک میں سے ایک ہے۔ سردی کے آغاز کے ساتھ ہی یہاں کے اکثر علاقوں میں سموگ کی کیفیت رہتی ہے، جو بے پناہ مسائل کو جنم لیتی ہے۔ یہاں سالہا سال سے قدرتی آفتیں رونما ہورہی ہیں، جن میں بے پناہ لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں۔ پچھلے سال ہی ملک میں شدید سیلاب آیا، سندھ سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ 1700 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔ لاتعداد مویشی مرے۔ دیہات کے دیہات ریلے میں بہہ گئے۔ لاکھوں گھر مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔ انتہائی بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہوئے۔ سیلاب زدگان عرصہ دراز تک کیمپوں میں رہے۔ موسمیاتی تغیرات کی تباہ کاریاں وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔ اس سے نمٹنے کا طریقہ یہ ہے کہ ماحول کو انسان دوست بنایا جائے۔ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پایا جائے۔ صوتی، آبی، فضائی اور دیگر آلودگیوں کے مسئلے کو حل کیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں کہ یہ آلودگی سے نمٹنے میں سب سے کارآمد ہیں۔ افسوس ملک عزیز میں اس وقت بھی ماحولیاتی آلودگی کا عفریت تباہ کاریاں مچارہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات کا حکومت کو بھی اندازہ ہے اور وہ اس سے نمٹنے کے لیے اپنے طور اقدامات میں مصروفِ عمل رہتی ہے۔ اس حوالے سے جدید ترین ’’ نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر’’ کا آغاز کیا گیا ہے۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے 2022ء کے تباہ کن سیلاب کے دوران تمام ریاستی اداروں خصوصاً این ڈی ایم اے کی مربوط کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کیلئے ٹھوس اقدامات ناگزیر ہیں، موسمیاتی تبدیلی ایک حقیقی چیلنج ہے جو ہماری آنے والی نسلوں کو پریشان کرتی رہے گی، این ای او سی قدرتی آفات سے نمٹنے اور خطرے اور نقصانات کو کم کرنے میں مدد دے گی۔ وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق انوار الحق کاکڑ نے این ڈی ایم اے ہیڈ کوارٹرز میں نئے قائم کیے گئے جدید ترین ’’ نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر’’ ( این ای او سی) کا افتتاح کر دیا۔ اس موقع پر وزیراعظم نے این ای او سی کے قیام کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس سے نا صرف مستقبل میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے مربوط کوششوں بلکہ قدرتی آفات کے خطرے اور نقصانات کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ قدرتی آفات سے محفوظ رہنے والے بنیادی ڈھانچے اور پالیسی فریم ورک کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ عالمی سطح پر کاربن کے اخراج میں سب سے کم حصہ دار ہونے کے باوجود پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے سرفہرست ممالک میں سے ایک ہے، موسمیاتی تبدیلی ایک حقیقی چیلنج ہے، جب تک ہم اس سے نمٹنے کیلئے ایسے ٹھوس اقدامات نہیں کریں گے اس سے ہماری آنے والی نسلیں پریشان ہوں گی۔ وزیر اعظم نے 2022ء کے تباہ کن سیلاب کے دوران تمام ریاستی اداروں خصوصاً این ڈی ایم اے کی مربوط کوششوں کی بھی تعریف کی۔ ملک کی قریباً ایک تہائی آبادی 2022ء میں سیلاب سے متاثر ہوئی تھی اور 30ارب ڈالر کے معاشی نقصان کا تخمینہ لگایا گیا تھا، دنیا کو آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کووڈ 19اور 2022کے سیلاب کے دوران این سی او سی کے کردار کی بھی تعریف کی۔ بریفنگ میں وزیراعظم کو بتایا گیا کہ این ای او سی موسمیاتی تبدیلی، قدرتی آفات سے نمٹنے اور قومی ہنگامی صورتحال کے لیے پیش گوئی کرنے والے ماڈلنگ سے متعلق تمام تکنیکی معلومات کے مرکز کے طور پر کام کرے گا، پاکستان اور خطے میں یہ اپنی نوعیت کا پہلامرکز ہے جو پاکستان کی مقامی طور پر وضع کردہ صلاحیت ہے جو ممکنہ مقامات، اثرات کے اوقات اور نقصان کی شدت کے بارے میں اعتبار اور درستی کے ساتھ مستقبل کی آفات کی پیشگوئی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، یہ مربوط ردعمل کی کوششوں کو تقویت دے گا، صوبائی اور ضلعی سطح کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کی سطح پر رہنمائی فراہم کرے گا۔ بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت محسوس کی گئی تھی جو قدرتی آفات کی نگرانی، اعلیٰ ٹیکنالوجی سے چلنے والی صلاحیت کی قومی اہلیت کی تیاری کے لیے کام کرے، یہ کمزور علاقوں کی ضروریات کا اندازہ لگاسکتا ہے اور حقیقی قومی مشترکہ فعالیت کی صورتحال کے تناظر میں ہمہ وقتی تیار مجموعی قومی منظر نامہ کے ذریعے عالمی شراکت داروں کی جانب سے پہلے سے مربوط تعاون کے خلا ء کا تعین کر سکتا ہے۔ ’’ نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر’’ کا افتتاح ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ایسے ہی اور بھی اداروں کے قیام کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے بھی اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ ماحولیاتی آلودگی ہمارے ملک کو بُری طرح متاثر کر رہی ہے۔ اس سے نمٹنا اکیلے حکومت کے بس کا کام نہیں، اس میں ملک میں بسنے والے تمام شہریوں کو اپنے اپنے حصّے کا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ انسان دوست ماحول کو پروان چڑھانے کے لیے ہر کوئی اپنی ذمے داری نبھائے۔ جس طرح لوگ اپنے گھروں کو صاف ستھرا رکھتے ہیں اور وہاں گندگی کو ذرا بھی برداشت نہیں کرتے۔ اسی طرح اپنے گلی، محلوں، سڑکوں، عوامی مقامات، تفریح گاہوں اور دیگر مقامات کو بھی صاف ستھرا رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ان مقامات پر کچرا، ریپر اور دیگر گندگی پھینکنے سے گریز کریں۔ دھواں اُڑانے والی گاڑیوں کے خلاف ملک بھر میں سخت کریک ڈائون کیا جائے۔ ان کے مالکان کے خلاف کڑی کارروائی کی جائے۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو سڑکوں پر آنے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے۔ دھواں چھوڑنے والی فیکٹریوں، کارخانوں، ملوں کے خلاف بھی سخت اقدامات ناگزیر ہیں۔ پریشر ہارنز والی گاڑیوں کے خلاف بھی اقدامات کیے جائیں۔ حکومت ہر کچھ عرصے بعد شجرکاری مہم کی رِیت ڈالے اور اس میں پوری قوم بھرپور حصّہ لے۔ ہر شہری اپنے حصّے کی شمع جلاتے ہوئے پودے اور درخت لگائے اور ان کی آبیاری کی ذمے داری بھی نبھائے۔ ہم اگر ماحول کو انسان دوست بنانے میں سرخرو رہے تو موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے محفوظ رہنے میں خاصی مدد ملے گی۔
پاکستان کا قومی کرکٹ ٹیم کو بھارت
میں تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ
ورلڈ کپ کرکٹ کے مقابلوں کا بھارت میں آغاز ہوگیا ہے۔ دو میچ ہوچکے ہیں، پہلے میچ میں نیوزی لینڈ نے دفاعی چیمپئن انگلینڈ کو یک طرفہ مقابلے کے بعد 9وکٹوں سے شکست دی جبکہ ورلڈ کپ کا دوسرا اور اپنا اس ایونٹ میں پہلا میچ پاکستان نے ہالینڈ کے خلاف جیتا۔ شائقین کرکٹ میں ورلڈکپ کے حوالے سے خاصا جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ شائقین اپنے پسندیدہ تمام کھلاڑیوں کو میدان میں جیت کے لیے جان لڑاتے دیکھیں گے۔ کرکٹ ورلڈکپ پُرامن ماحول میں ہونے کی سب دعائیں کر رہے تھے، لیکن ابھی آغاز ہی ہوا ہے کہ دہشت گردی خدشات سر اُٹھانے لگے ہیں۔ بھارتی شہر احمد آباد میں دہشت گردی کے اندیشے سے متعلق رپورٹس سامنے آئی ہیں، جس پر پاکستان نے قومی کرکٹ ٹیم کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق احمد آباد ( بھارت) میں دہشت گردی کے خدشے کے حوالے سے رپورٹس کے منظر عام پر آنے کے بعد پاکستان نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ( آئی سی سی) سے ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے بھارت میں موجود قومی کرکٹ ٹیم کے تحفظ کا مطالبہ کر دیا۔ ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ میزبان ملک ہماری کرکٹ ٹیم کو عالمی کپ میں تحفظ فراہم کرے، سازگار ماحول پیدا کرنا مودی سرکار کی ذمے داری ہے۔ بھارت اس وقت تمام ٹیموں کی سیکیورٹی کا ذمے دار ہے۔ اُسے دُنیائے کرکٹ کے تمام ممالک کی ٹیموں کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کرنی چاہیے۔ ایسے اقدامات کیے جائیں کہ ورلڈکپ مقابلے کسی بھی دہشت گردی کی کارروائی سے مکمل محفوظ رہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کی جائے۔ آئی سی سی کو اس ضمن میں بھارت کو سختی سے پابند بنانا چاہیے۔ دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ عالمی کپ میں پاکستانیوں کو ویزوں کے اجرا کے لیے بھارت سے رابطے میں ہیں، بطور میزبان بھارت پاکستانی شائقین کے عالمی کپ دیکھنے میں رُکاوٹیں نہ ڈالے، امید کرتے ہیں پاکستانیوں کو ورلڈکپ کرکٹ مقابلے دیکھنے کے لیے ویزے جاری کر دئیے جائیں گے، بھارت سیاست کو کھیلوں کے ساتھ مکس نہ کرے۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ پاکستان کے صحافیوں تک کو ورلڈ کپ کی کوریج کے لیے بھارتی ویزے جاری نہ کیے جا سکے، شائقین تو بہت دُور کی بات ہیں، بھارت نے اس معاملے میں بدترین ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ صحافیوں کو کھیلوں کے مقابلوں کی کوریج کے لیے مختلف ممالک با آسانی ویزا جاری کرتے ہیں، لیکن اس معاملے میں بھی بھارت نے بدترین تعصب دِکھایا۔ یہ روش کسی طور مناسب قرار نہیں دی جاسکتی۔ بھارت کھیل کو سیاست سے دُور رکھے۔ بھارت کو نا صرف پاکستانی صحافیوں بلکہ شائقین کو بھی فوری طور پر ویزوں کا اجرا کرنا چاہیے، تاکہ شائقین قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کی مقابلوں کے دوران بھرپور حوصلہ افزائی کر سکیں۔