ColumnImtiaz Ahmad Shad

شعور سے عاری قوم

امتیاز احمد شاد
چار سو شور ہے، گلی محلوں سے لیکر ایوانوں تک گلے پھاڑ کر ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کا رواج عام ہو چکا۔ ایک دوسرے کے دلائل کو سننا تو دور کوئی دوسرے کے وجود کو بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ جو باتیں اپنے ڈرائنگ روم میں کرنے سے لوگ اجتناب کرتے ہیں وہ ٹیلی ویعن کی سکرین پر دبنگ لہجے سے کی جاتی ہیں اور مجال ہے کسی کو ذرا سا بھی ملال ہوتا ہو۔ دانش اور دانائی سے مکمل عاری گفتگو پر گھنٹوں بحث ہوتی ہے۔ کان ترس گئے ، اقتدار کے ایوانوں میں ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی پر کوئی مباحثہ نا مکالمہ، ہر کاروائی شور کی نظر۔ متعدد حکومتیں آئیں اور گئیں، مگر نہ تو قوم میں شعور بیدار ہوا اور نہ ہی صاحب اقتدار افراد میں شعور کی کوئی جھلک نظر آئی۔ عجب وسوسے میں پوری قوم مبتلا ہے۔ ہر جانب الزام تراشیوں کا ایسا شور بپا ہے کہ شعور کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ بے معنی شور ہمارے قومی شعور کو بھی ہڑپ کر گیا ہے۔ ایک دفعہ استاد محترم سے پوچھا کہ شور اور شعور میں کیا فرق ہے۔ مسکرا کر جواب دیا کہ صرف ’’ ع‘‘ کے اضافے کا۔ عرض کی حضور ’’ ع‘‘ سے کیا مراد ہے۔ فرمایا ’’ ع‘‘ سے علم اور عقل۔ علم اور عقل سے بات کرو گے تو شعور کہلائے گا۔ عقل سے عاری بات کرو گے تو شور کہلائے گا۔ گو کہ پاکستان کی سیاست کے 76سالوں کی تاریخ اپنے اندر اس طرح کے بیشمار تضادات سمیٹے ہوئے ہے لیکن پچھلے کچھ عرصہ سے سیاست کے کچھ ذمہ داران کے بیانات اور ان کے عمل پر غور کرتا ہوں تو استاد محترم کی بات کے اندر چْھپے رَمْوز ان ذمہ دران کی فکری سوچ، صلاحیتوں اور دعوئوں پر ان گنت سوالیہ نشان چھوڑ جاتے ہیں، اور یہ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ اے اللہ کبھی ہمیں بھی سیاسی بصیرت اور سمجھ بوجھ والی قیادت نصیب ہو گی یا پھر ہم اس تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھاتے اور نئے تجربات ہی کرتے رہیں گے۔ اسی تناظر میں پچھلے کچھ عرصہ سے میری فکری سوچیں مجھے ہر وقت اس فکر کی دعوت دیتی رہتی ہیں کہ پچھلے 76سالوں میں کیا ایک بھی ایسی حکومت نہیں آئی جس نے ملک کی بہتری کیلئے کوئی کام کیا ہو اور جس کا کوئی مثبت کارنامہ تاریخ میں رقم کرنے کے قابل ہو ؟ ہر بار یہ دیکھنے کو ملا کہ جو بھی حکومت آئی یا تواس کیلئے مشکلات کھڑی کرنے کے لیئے چھوٹے موٹے مسائل کو بگ ایشوز بنا کر ملک کے اندر اور باہر ایسے کھیل کھیلے گئے جو وقت سے پہلے ہی حکومت کے گرنے کا سبب بنے، یا پھر خود حکومت نے ایسا رویہ اپنایا جس سے اپوزیشن کو مکمل طور پر دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا۔ افسوس اس تمام کھیل میں ایسا شور برپا ہوا کہ اچھے اور برے، سچے اور جھوٹے کے درمیان تمیز کرنا بھی ممکن نہ رہا۔ جلائو گھیرائو، پکڑ دھکڑ اور مال بنائو اصولوں پر گامزن ہونے والی اس سیاست نے ملکی معیشت کے ساتھ قومی اخلاق کا بھی جنازہ نکال دیا۔ جس نے بھی سچ لکھا یا بولا ایسا زیر عتاب آیا کہ الامان الاحفیظ۔ اس رویئے نے عقل و دانش کی جڑیں کھوکھلی کر دیں۔ کچھ سالوں پہلے تک تو پھر بھی کہیں نہ کہیں کوئی زرخیز ذہن مل جاتا جس سے یہ امید روشن ہو جاتی کہ شاید یہ میری قوم کو کچھ روشنی دے سکے مگر صد افسوس کہ آج ہمارا معاشرہ صاحب شعور افراد سے نہ صرف محروم ہے بلکہ دور دور تک اس کے آثار بھی دکھائی نہیں دیتے۔ علم و ادب کی بیٹھک ہو یا بزرگوں کی صحبت، درسگاہیں ہوں یا طب کے مراکز ہر جگہ شور و غل اور افراتفری کا راج ہے۔ سیاست کے میدان سے لے کر صحافت تک کہیں بھی تعمیر وطن یا فکر ملت کی جھلک دکھائی نہیں دیتی۔ ہر دو چار سال بعد کوئی نہ کوئی نیا شوشہ چھوڑا جاتا ہے، اس کا ماحول بنایا جاتا ہے، لوگوں میں ایک نئی امنگ اور سوچ پیدا کی جاتی ہے اور اس کے بعد اپنے مقاصد کے لئے قوم کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم سے پہلے ہمارے بزرگ اور اب ہم پچھلے کئی سال سے یہ بات سنتے اور کہتے چلے آ رہے ہیں کہ ملک انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ملک کے اندر اور باہر اپنے ملک اور اس کی صورتحال کا مثبت امیج پیش کریں اور دنیا کو بتائیں کہ ہمارا مستقبل روشن ہے۔ ’’ملک لوٹنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے‘‘، یہ جملہ تو اس قدر عام ہو گیا ہے کہ اب ایسا کہنے والوں پر اس قدر غصہ آتا ہے کہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ جس شعبے کو دیکھو ہماری بربادی کی واضح داستان بیان کر رہا ہے۔جب سے قوم ٹک ٹاک اور سوشل میڈیا کی دلدادہ ہوئی ہے، دانش سے عاری دانش اور خودرو جھاڑیوں کی ماند ہر لمحے نئے ویڈیو پیغام کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں۔ بہت سے تو ایسے ہیں جنہوں نے قوم کو نصیحت کرنے کے اس عمل کو باقاعدہ دھندہ بنا رکھا ہے۔ بھاری بھرکم فیس
وصولتے ہیں اور نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے بالکل مداری کی طرح آخری وقت تک اپنے ساتھ جوڑے رکھتے ہیں جس طرح وہ تماش بینوں کو قائل کئے رکھتا ہے کہ ابھی رومال کے نیچے سے کبوتر نکلے کا اور قلابازیاں کھاتا ہوا فضا میں پرواز کرنے لگے گا۔ افسوس ہم نے اسی طرح کے بے معنی شور شرابے میں قوم کے قیمتی سات عشرے برباد کر دیئے۔ قوموں کی تاریخ میں تو ایک ایک دن کی اہمیت گنی جاتی ہے۔ پاکستان کی 76سالہ تاریخ کے جس پہلو کو زیرِ بحث لائیں ہر لحاظ سے پریشان کن اور جگاڑ سے بھر پور ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ ان جگاڑیوں کا شور میری قوم کا شعور کھا گیا۔ آج حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ کم عمری میں فکر معاش نے نوجوانوں کو ذہنی مریض بنا دیا۔ جسے دیکھو، دولت کمانے، جمع کرنے اور ہر حال میں مالدار بننے کے لئے کسی بھی حد کو پار کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ ہمارے رہنمائوں نے شارٹ کٹ استعمال کرتے ہوئے جس قدر دولت کے انبار لگائے ہیں، انہیں دیکھ کر ہمارے نوجوان اس قدر متاثر ہوئے ہیں کہ تعلیم ایسی خوب صورت نعمت کو بھی پانے کے لئے فقط ڈگری کے حصول کو ہی کامیابی گردانتے ہیں۔ ایک یونیورسٹی میں کلاس پڑھاتے ہوئے میں نے کسی موضوع پر تفصیل سے بات کرنا چاہی تو طلباء کے چہروں پر اکتاہٹ عیاں دکھائی دی۔ مجھے محسوس ہوا کہ بچوں کی دلچسپی نہیں، میں ایک لمحے کے لئے رکا، اور ان کی عدم دلچسپی کی وجہ معلوم کرنا چاہی تو معلوم ہوا کہ وہ موضوع کی تفصیلات جاننے میں دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ مجھ سے اس موضوع پر بننی والے اس سوال کو جاننا چاہتے ہیں جو اگلے روز ان کے پیپر میں آنا ہے، تاکہ وہ اسے تیار کر کے اپنا پیپر حل کر سکیں۔ بالکل اسی طرح ہماری حکومتیں بھی مدت کے نصف دورانیے کو ہنی مون کے طور پر لیتی ہیں اور دوسرے نصف میں صرف وہ کام کرتی ہیں جن سے آنے والا الیکشن جیتا جا سکے۔ اپنی غلطی کوئی بھی ماننے کو تیار نہیں۔ جس طرح ہمارے معاشرے کی ہر بہو یہ کہتے ہوئے ملے گی کہ ساس نے مجھے دیا ہی کیا ہے اسی طرح ہمارے ملک میں ہر آنے والی حکومت ایک ہی رونا روتی ہے کہ پچھلی حکومت لُٹ کے کھا گئی اے، اور خزانہ خالی ہے۔ شعور سے عاری قوم کو مبارک ہو ایک مرتبہ پھر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کا بندوبست کیا جارہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button