عام انتخابات: نئی حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست کا اجرا

سیاسی جماعتیں عام انتخابات میں میدان مارنے کی تیاریوں میں مصروفِ عمل ہیں۔ بعض مقامات پر انتخابی اتحاد بھی سامنے آرہے ہیں اور کچھ سیاست داں اپنی پارٹیوں سے وفاداریاں بھی تبدیل کرتے دِکھائی دے رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان جنوری 2024کے اواخر میں عام انتخابات کرانے کا اعلان کرچکا ہے۔ اکثر سیاسی جماعتوں نے عام انتخابات سے متعلق اس اعلان کو سراہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے کارکن انتخابات کے اعلان پر خاصے پُرجوش دِکھائی دے رہے ہیں۔ ووٹ کے حصول کے لیے اُنہوں نے ابھی سے کوششیں شروع کردی ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان عام انتخابات کی تیاریوں میں مصروفِ عمل ہے اور اُس نے اس حوالے سے کئی اقدامات مکمل کرلیے اور جو رہ گئے ہیں، اُن پر تیزی کے ساتھ کام جاری ہے، تاکہ دیے گئے وقت پر عام انتخابات کا انعقاد ممکن ہوسکے۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن کی کاوشوں کی تعریف نہ کرنا ناانصافی کے زمرے میں آئے گا۔ گزشتہ روز الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے حوالے سے نئی حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست کا اجرا کیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حلقہ بندیوں پر اعتراضات متعلقہ حلقے کا ووٹر ہی کرسکے گا، اعتراضات کرنے کی آخری تاریخ 26اکتوبر رکھی گئی ہے، ضلع کے نقشہ جات الیکشن کمیشن سے ضروری قیمت ادا کرکے لیے جاسکتے ہیں۔ بدھ کو الیکشن کمیشن نے ابتدائی حلقہ بندیوں کی رپورٹ مع فہرست (فارم 5) عوام الناس کی آگاہی کے لیے شائع کردی ہے اور یہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ www.ecp.gov.pkپر بھی موجود ہے۔ مزید ابتدائی حلقہ بندیوں کے نقشہ جات بھی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ ابتدائی حلقہ بندیوں کی اشاعت 30 دن مورخہ 27ستمبر سے 26اکتوبر 2023تک جاری رہے گی۔ حلقہ بندیوں پر اعتراضات (Representations) متعلقہ حلقہ کا ووٹر کر سکتا ہے۔ یہ Representationsسیکریٹری الیکشن کمیشن کے نام ہوں گی اور 27 اکتوبر 2023 تک الیکشن کمیشن سیکریٹریٹ شاہراہ دستور اسلام آباد میں جمع کرائی جاسکتی ہیں۔ الیکشن کمیشن فریقین کا موقف سننے کے بعد 28اکتوبر سے 26نومبر 2023تک ان اعتراضات (Representations) پر فیصلے کرے گا۔ اعتراضات جمع کرانے کے لیے ضروری ہے کہRepresentationsجمع کرانے والا متعلقہ حلقہ کا ووٹر ہو۔ Representationsمیمورنڈم کی صورت میں بنام سیکریٹری الیکشن کمیشن پیش کرنا ہوں گی۔ متعلقہ ووٹر میمورنڈم پر دستخط کرے گا۔ وہ خود یا اس کا نمائندہ الیکشن کمیشن سیکریٹریٹ میں قائم سینٹر میں اسے جمع کرائے گا۔Representationsاور نقشہ جات کی 8کاپیاں الیکشن کمیشن میں جمع کرانا ہوں گی۔ ضلع کے نقشہ جات الیکشن کمیشن سے ضروری قیمت ادا کرکے لیے جا سکتے ہیں۔ بذریعہ کوریئر، ڈاک اور فیکس وغیرہ Representationsقابل قبول نہیں ہوں گی۔ الیکشن رولز 2017کے رول 12کے تحت Representationsجمع کرانی ہوں گی۔ نجی ٹی وی کے مطابق الیکشن کمیشن نے ڈیجیٹل مردم شماری 2023کے تحت ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نئی حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست جاری کی ہے، جس کے مطابق قومی اسمبلی کی عمومی نشستوں کی تعداد 266ہے جب کہ ایک حلقے میں ووٹروں کی تعداد 8لاکھ سے زائد رکھی گئی ہے۔ پنجاب اسمبلی کی کل نشستوں کی تعداد 297برقرار ہے، سندھ اسمبلی کی کل جنرل نشستوں کی تعداد 130ہے، خیبر پختونخوا اسمبلی میں کل عمومی نشستوں کی تعداد 115جبکہ یہاں حلقوں میں ووٹروں کی تعداد 3سے 5لاکھ کے درمیان ہے۔ اسی طرح بلوچستان اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 51جبکہ حلقوں میں ووٹروں کی تعداد 2سے 4لاکھ کے درمیان رکھی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق کسی بھی صوبے کی کل نشستوں کو ووٹروں کی مجموعی تعداد کے ساتھ تقسیم کرکے ہر حلقے میں کوشش کی گئی ہے کہ مساوی ووٹرز ہوں، تاہم بلوچستان میں کئی نشستیں مختلف اضلاع پر بھی مشتمل ہیں۔ قومی اسمبلی کی وفاقی دارالحکومت سے تین، پنجاب سے 141، سندھ سے 61، خیبرپختونخوا 45اور بلوچستان میں 16نشستیں ہیں جبکہ ملک بھر میں کل 60قومی اسمبلی کی مخصوص نشستیں ہوں گی۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی کی جنرل نشستوں کی تعداد 297جبکہ خواتین کی 66اور غیر مسلموں کی 8نشستیں ہوں گی، سندھ میں جنرل نشستیں 130، خواتین کی 29، غیر مسلموں کی 9نشستیں ہوں گی۔خیبر پختونخوا میں 115جنرل، 26خواتین، 4غیر مسلموں کی نشستیں ہیں جبکہ بلوچستان کی 51جنرل، 11خواتین اور 3غیر مسلموں کی نشستیں ہوں گی۔ قومی اسمبلی کی پنجاب میں ایک نشست کے لیے آبادی کی کم سے کم تعداد 9 لاکھ 5ہزار 595، سندھ کے لیے 9لاکھ 13ہزار 52، خیبر پختونخوا کے لیے 9لاکھ ہزار 913، بلوچستان کے لیے9 لاکھ 30ہزار 900جبکہ اسلام آباد کے لیے 7لاکھ 87ہزار 954رکھی گئی ہے۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی میں جنرل نشست کے لیے 4لاکھ 29ہزار 929، سندھ کے لیے 4لاکھ 28ہزار 432، خیبرپختونخوا کے لیے 3لاکھ 55ہزار 270جبکہ بلوچستان کے لیے 2لاکھ 92ہزار 47رکھی گئی۔ حلقہ بندی کی رپورٹ کے مطابق 2023کی مردم شماری کے حتمی نتائج کی بنیاد پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے حصے پر کام کیا گیا ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست کا اجرا لائق تحسین امر ہے۔ الیکشن کمیشن اپنی ذمے داریوں کو احسن انداز میں نبھا رہا ہے۔ اسے مقررہ وقت پر شفاف انتخابات کرانے کے ضمن میں مزید اقدامات یقینی بنانے چاہئیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ عام انتخابات کا مقررہ وقت پر انعقاد ناگزیر ہے۔ اس کے لیے ایسے اقدامات کیے جائیں کہ شفافیت، غیر جانبداری برقرار رہے جب کہ دھاندلی کا ذرا بھی شائبہ نہ ہو۔ نگراں حکومت بھی عام انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے بارہا اپنے خیالات کا اظہار کر چکی ہے۔ وزیراعظم انوار الحق کاکڑ بھی عام انتخابات کو دھاندلی، غیر شفافیت، جانبداری سے پاک کرنے کے حوالے سے خاصے پُرامید ہیں۔ وہ عام انتخابات میں الیکشن کمیشن کی بھرپور معاونت کے عزم کا اعادہ بھی ایک سے زائد بار کر چکے ہیں۔ اللہ کرے کہ جنوری 2024میں پُرامن، شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات منعقد ہوں۔ عوام اس میں اپنے حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے ملک و قوم کے مفاد میں بہترین حکومت کا انتخاب کریں اور ملکی مصائب کا خاتمہ ہو اور وہ ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے گامزن ہوسکے۔
جشن عید میلاد النبیؐ اور اس کے تقاضے
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضور ﷺ کو رحمت اللعالمین بناکر بھیجا۔ آپؐ کی آمد سے اس دُنیا پر چھائی کفر کی کالی گھٹائیں چھٹ گئیں۔ اعلیٰ اخلاق میں آپؐ کا کوئی ثانی نہیں، آپؐ ہی کی بدولت انسانیت کو احترام نصیب ہوا، دورِ جاہلیت کی تمام تر برائیوں کا خاتمہ ہوا۔ آپﷺ کی آمد سے ہر سُو امن، محبت اور بھائی چارے کی معطر فضا پروان چڑھی۔ آپؐ اپنی سچائی، دیانت اور امانت داری کے سبب صادق اور امین کہلائے۔ آپؐ کی تشریف آوری رب کریم کا ہم سب کے لیے انعام اور احسان ہے۔ آپؐ کی پوری زندگی ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے اور ہم تعلیمات نبوی پر عمل پیرا ہوکر اپنی زندگیوں کو سنوار سکتے ہیں۔ آج جشن عیدِ میلادالنبی منایا جارہا ہے، یہ دن پورے عالم اسلام کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ خصوصاً وطن عزیز میں اس حوالے سے خصوصی تیاریاں کی جاتی ہیں۔ 12ربیع الاوّل سے کئی روز قبل ہی ملک بھر کے قریباً تمام شہروں کی گلیوں، محلوں، اہم عمارتوں اور مساجد پر برقی قمقمے جگمگانے لگتے ہیں۔ عید میلاد النبیؐ کے روز ملک عزیز کے تمام شہروں میں جلوس برآمد ہوتے ہیں، جن میں مسلمانوں کا جوش و جذبہ دیدنی ہوتا ہے۔ ان اجتماعات میں علمائے کرام و مشائخین عظام سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے اسوۂ حسنہ اور تعلیمات کا بیان کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ماضی میں عید میلاد النبیﷺ کے مواقع پر ملک کے مختلف شہروں میں انتہائی ناخوش گوار واقعات رونما ہوچکے ہیں، کبھی فرقہ وارانہ فسادات بھڑکائی گئے تو کبھی دہشت گردوں نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے پُرامن اجتماعات میں بم دھماکے تک کرانے سے گریز نہیں کیا، جس کے نتیجے میں کئی معصوم جانیں ضائع ہوئیں اور کوشش یہ کی گئی کہ ان اجتماعات کے حوالے سے عوام میں خوف و ہراس پیدا کیا جائے تاکہ وہ ان میں شرکت سے گریز کریں، تاہم دہشت گرد عناصر اپنے مذموم مقاصد کے حصول میں یکسر طور پر ناکام ثابت ہوئے، کیوں کہ آج بھی جشن عیدِ میلادالنبی کے جلوسوں میں عوام بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔ جشن عید میلادالنبی کا دن تقاضا کرتا ہے، ہم مسلمان عہد کریں کہ اس یوم عظیم کو نا صرف اس کے شایان شان منائیں گے بلکہ تفرقے بازی سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ قرآن و حدیث کی روشنی سے عملاً اپنی زندگیوں کو منور کریں گے۔ قرآنی تعلیمات کی پیروی کو اپنا شعار بنائیں گے۔ محبت و بھائی چارے کو فروغ دیںگے۔ برداشت و تحمل کی صفات اپنے اندر پیدا کریں گے۔ آپس میں اتحاد و یکجہتی کو فروغ دیں گے۔ اعلیٰ اخلاقی اقدار کا مظاہرہ کریں گے۔ سب سے ضروری یہ کہ نبی کریم ﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں گے، کیوںکہ اسی میں ہماری فلاح پوشیدہ ہے۔