Columnمحمد مبشر انوار

شکنجہ

محمد مبشر انوار( ریاض)
معاشروں میں سکون، استحکام اور نمو ، اس معاشرے میں قانون کی بالادستی، حکومتی رٹ اور اداروں کا ریاست کے ساتھ مخلص و وفادار ہونے سے مشروط ہوتا ہے، کسی بھی ایسے معاشرے میں جہاں جرائم پیشہ افراد قانون سے بالا تر ہوں، سکون، استحکام اور نمو ممکن نہیں ہوتی۔ ریاست کا اولین فریضہ ہی یہی ٹھہرتا ہے کہ وہ معاشرے میں قانون کی بالادستی کو قائم رکھے، اپنی رٹ پر منصفانہ طریقے سے عمل کروائے، ہر شہری کو قانون کے اندر رہتے ہوئے، قانون کی پاسداری کرتے ہوئے، ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرے۔ کسی بھی طاقتور کو کسی کمزور کے حقوق سلب کرنے کی جرات نہ ہو اور نہ ہی اپنے اثر و رسوخ سے ریاستی اداروں پر اثرانداز ہو سکے اور نہ ہی ریاستی ادارے، کسی کی سماجی و سیاسی شخصیت کے زیر اثر نظر آئیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ قومیں اسی ایک اصول سے اقوام عالم میں نہ صرف اپنی شناخت، پہچان بناتی ہیں بلکہ اقوام عالم میں ان کا اثر و رسوخ بھی انہی خصوصیات کی بنا پر دیکھا جا سکتا ہے۔ البتہ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ اکثر اوقات ریاستیں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لئے ، دوسری ریاستوں کے ساتھ اصولوں کی پیروی بعینہ نہیں کرتی بلکہ اپنے اختیار کو قائم اور دائم رکھنے کے لئے ، بے اصولی کی مرتکب بھی ہوتی، اور آخرکار اپنی اس بے اصولی سے وقت کے دھارے میں بہتی ہوئی بہرطور اپنی حیثیت کھو بیٹھتی ہیں۔ یہ قانون قدرت ہے اور اس سے کسی کو مفر ممکن نہیں اور کوئی بھی قوم اس سے مستثنیٰ نہیں ہے البتہ وہ قومیں جو اس آفاقی اصول کی پیروی لمبے عرصہ کے لئے کرتی ہیں، ان کا اختیار اور اقتدار بھی اتنا ہی طویل ہوتا ہے۔ بغور دیکھا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ دین اسلام کے بتائے ہوئے آفاقی اصول ہی، اس کے ضامن ہیں اور قطع نظر اسلامی یا غیر اسلامی تشخص، جس قوم نے بھی یہ اصول اپنائے، وہ اوج ثریا تک جا پہنچی اور ان اصولوں سے انحراف کرنے والی قومیںقعر مذلت میں جا گری، تاوقتیکہ دوبارہ ان اصولوں کا احیاء نہ کیا۔
آج بھی ترقی یافتہ اور صاحب اختیار و اقتدار ممالک کی تاریخ دیکھیں تو یہ حقیقت واضح ہے کہ ان ممالک میں قانون کی بالا دستی اور حکومتی رٹ کو بہرصورت فوقیت دی جاتی ہے اور کسی بھی جرم پیشہ کی سیاسی و سماجی حیثیت ، قانون کے سامنے ڈھیر دکھائی دیتی ہے۔ لیکن اس میں ایک اہم ترین حقیقت ضرور ہے کہ کسی بھی جرم پیشہ شخص پر قانون کا حقیقی معنوں میں ہی اطلاق ہوتا ہے کہیں سے بھی یہ شائبہ تک نظر نہیں آتا کہ اس کے پس پردہ کوئی انتقامی کارروائی ہے۔ دوسری اہم ترین حقیقت یہ بھی ہے کہ مقدمہ چلاتے وقت بھی ہر لمحہ اس امر کا احساس ہوتا ہے کہ منصفین بغیر کسی دبائو، غیر جانبداری کے ساتھ صرف اور صرف قانون پر عملدرآمد کرتے نظر آتے ہیں، جس کی وجہ سے عوام میں منصفین کی عزت دل سے کی جاتی ہے اور فریقین اپنی قانونی چارہ جوئی کے بعد، حتمی فیصلوں کو تسلیم کرتے ہیں، سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ یوں ان معاشروں میں کاروبار زندگی انتہائی اطمینان کے ساتھ رواں دواں ہے اور خال ہی کسی طاقتور کی یہ جرات دکھائی دیتی ہے کہ وہ اپنی حیثیت کا استعمال کرتے ہوئے، کمزوروں کے حقوق سلب کر لے، کہ اسے بخوبی علم ہے کہ فریق مخالف نہ صرف قانون سے بہرہ ور ہے بلکہ عدالتیں اس کی داد رسی بلاامتیاز کرنے کی نہ صرف مجاز اور عملدرآمد کروانے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ حکومت کی بھی یہ جرات نہیں کہ کسی بھی عدالتی فیصلے کی عدولی کی مرتکب ہو کہ اس صورت میں نہ صرف ان پر توہین عدالت لگ سکتی ہے، عدالتوں کا وقار مجروح ہو سکتا ہے، عوام الناس میں اعتماد ختم ہو سکتا اور پورا معاشرہ انارکی کا شکار ہو سکتا ہے۔
حالیہ دنوں میں بدقسمتی سے پاکستان میں اس کا شدید فقدان نظر آ رہا ہے کہ پاکستان کے صاحب اختیار وا قتدار، پاکستان کی مشکلات کو کم کرنے کی بجائے، اس میں مسلسل اضافہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ قانون کی بالا دستی کے مظاہر آج بھی دنیا میں بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں اور ان کے خوشگوار نتائج بھی ہمارے سامنے واضح ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے ارباب اختیار اس سمت قدم اٹھانے کی ہمت نہیں کرتے اور نہ ان کی ایسی کوئی نیت عمل سے نظر آتی ہے۔ سعودی عرب میں عوامی سطح پر، موبائل فون پر تقریبا ہر شہری کو مسلسل ایک پیغام موصول ہوتا ہے، جس میں کرپشن کے خلاف حکومتی عزم کی اطلاع دی جاتی ہے اور ایسے کسی بھی عمل پر محکمہ کو اطلاع دی جاسکتی ہے تا کہ ایسے کرپٹ عناصر کی فی الفور سرکوبی کی جائے۔ علاوہ ازیں! سعودی ولی عہد و وزیراعظم ابتداء ہی میں، بااثر شاہی شخصیات کو زیر حراست رکھ کر ان سے وصولیاں کر چکے ہیں اور ایک روایت بنا چکے ہیں کہ سعودی عرب میں معاملات کس سمت میں چلیں گے، قانون کی عملداری کس طرح ہوگی اور کس کا حکم چلنا ہے۔ اسی طرح افغانستان پر ایک نظر دوڑائیں تو خلوص نیت کی ایک اور بڑی واضح مثال دیکھنے کو ملتی ہے کہ اگر ارباب اختیار مخلص ہوں، کچھ کرنے کی چاہ ہو تو راستے خودبخود بنتے چلے جاتے ہیں اور افغانستان جیسی ریاست میں بھی مہنگائی کا طوفان قابو میں کیا جا سکتا ہے۔ کس طرح آسانی کے ساتھ افغان حکمرانوں نے ملکی وسائل لوٹنے والوں سے مال برآمد کروا کر ریاست کی معیشت کو سہارا دیا ہے، مستحکم کیا ہے اور مسلسل اس راستے پر گامزن ہیں۔ مذکورہ دو مثالوں سی یہ واضح ہے کہ ملکی وسائل لوٹنے والوں سے وصولی کرنے کے لئے، نافذ العمل قوانین ناکافی ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ عدالتی نظام بھی ان لٹیروں کے سامنے مفلوج و کمزور نظر آتا ہے، لہذا ملکی وسائل لوٹنے والوں کے لئے نافذ العمل قانون سے ہٹ کر دوسرا راستہ اختیار کرنے کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ موجودہ قوانین، ان طاقتور جرائم پیشہ کے لئے ، مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور ہے اور وہ بآسانی اسے توڑ کر نکل جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، لہذا ان سے وصولیاں نہیں ہو پا رہی اور نہ اس صورتحال میں ممکن ہے۔
تازہ ترین خبریں یہ ہیں کہ ایران کے راستے سمگلنگ میں انتیس سیاستدانوں کو قانون نافذ کرنے والوں نے شناخت کیا ہے اور آرمی چیف کی ہدایات کے مطابق ان افراد کے خلاف گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ سمگلنگ میں کیا صرف سیاستدان ملوث ہیں؟ ان سیاستدانوں کے ہاتھ اور بازو کون ہیں؟ ان کی شناخت ہو چکی، ان کے خلاف گھیرا تنگ ہو چکا؟ کیا ایرانی سرحد سے ہونے والی سمگلنگ میں ملوث تمام افراد کیفر کردار تک پہنچیں گے یا صرف دکھاوے کی کارروائی ہو گی اور پھر بااثر شخصیات ان کو چھڑوا لیں گے اور دھندا ایسے ہی چلتا رہے گا؟ اصولی بات تو یہ ہے کہ ریاستی مشینری جب تک سیاسی و مقتدرہ کے اثر و رسوخ سے آزاد نہیں ہوتی، ان کی محکمانہ تربیت اعلیٰ سطح پر نہیں ہوتی، ان کی اخلاقی تربیت میں یہ وصف گھوٹ کر نہیں پلایا جاتا کہ وہ ریاست کے ملازم ہیں نہ کہ کسی شاہی خاندان یا مقتدر ہستی کے اشارہ ابرو پر سر تسلیم خم کرنے والے کھلونے، وہ قانون کی پاسداری کا حلف لے کر ریاستی مشینری کا حصہ بنتے ہیں تا کہ ریاست کی خدمت کر سکیں نہ کہ کسی فرد واحد یا شاہی خاندان کی، تب تک یہ توقع رکھنا کہ پاکستان ایسی خرافات سے نکل سکتا ہے، عبث ہے۔ پاکستان کا صنعتکار، پاکستان میں اپنی صنعت کئی وجوہ کی بنا پر چلانے سے قاصر ہے کہ اسے یہاں وہ سہولتیں میسر نہیں جو دیگر ممالک اسے فراہم کرتے ہیں، یہاں صرف وہ صنعتکار موجود ہے، جو ہر طرح سے پاکستانی قانون کے ساتھ کھلواڑ کر سکتا ہے، پاکستانی عوام کی جیبوں پر کھلے بندوں ڈاکے مار سکتا ہے، یہاں کے وسائل کو ڈنڈے کے زور پر بلامعاوضہ استعمال کرنے کی طاقت رکھتا ہے لیکن حکومت کو ٹیکس کی مد میں خیرات دیتا ہے۔ کیا کسی معاشرے میں ایسی معیشت نمو پذیر ہو سکتی ہے؟ آرمی چیف نے معیشت کی طرف توجہ دی ہے تو اس کے ساتھ ہی ڈالر کی قیمت میں قابل قدر کمی دیکھنے کو ملی ہے لیکن دوسری طرف ڈالر کی قیمت سے کھیلنے والے وقتی طور پر خاموش ہو چکے ہیں لیکن موقع ملتے ہی وہ حسب سابق لمبی دیہاڑیوں کی امید بھی لگائے بیٹھے ہیں، جب تک یہ سوچ نہیں بدلتی، تب تک وقتی شکنجہ کسنے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ البتہ اگر ایسے اقدامات اٹھائے جائیں کہ یہ شکنجہ نظام کے اندر تسلسل کے ساتھ روبہ عمل رہے، بعینہ جیسے چین یا دیگر کئی ممالک میں شکنجہ سختی کے ساتھ کسا رہتا ہے حتی کہ چین میں تو کرپٹ شخص کو ماری جانے والی گولی کی قیمت بھی اس کے لواحقین سے وصول کی جاتی ہے، تو پاکستان کے حالات سنبھل سکتے ہیں وگرنہ ماضی کی طرح، اس محاذ سے نظر ہٹتے ہی یا شخصیت بدلتے ہی پھر وہی کھیل شروع ہو جائیگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button