Uncategorizedتازہ ترینخبریںپاکستان

سائفر کیس: عدالت کا مقام تبدیل کرنے کا اختیار کس کا ہے؟، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف سائفر مقدمے کی سماعت اٹک جیل منتقل کرنے سے متعلق وزارت قانون کے نوٹیفکیشن کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران مقدمے کے پراسیکوٹر ذوالفقار نقوی نے عدالت کو بتایا کہ سائفر کیس کا ابھی ٹرائل نہیں ہو رہا اور وزارت قانون نے قانون کے مطابق عدالت منتقلی کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ طے ہونا ہے کہ نوٹیفکیشن کس اختیار کے تحت کر سکتے ہیں؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کو سائفر عدالت کا اختیار دینا قانون کے مطابق ہے انھوں نے کہا کہ فرسٹ کلاس مجسٹریٹ یا اس سے اوپر کے کسی بھی جج کو اختیار دیا جا سکتا ہے۔ اس مقدمے کے پراسکیوٹر کا کہنا تھا کہ عدالت کا مقام تبدیل کرنے کی درخواست غیرموثر ہو چکی ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کل دوبارہ وہی نوٹیفکیشن کر دیا جائے تو یہی سوال متعلقہ ہو جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ طے ہونا چاہیے کہ عدالت کا مقام تبدیل کرنے کا اختیار کس کا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ درخواست گزار کی درخواست غیر موثر ہونے والی بات سے اتفاق نہیں کرتے۔

عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ نوٹیفکیشن بدنیتی کی بنیاد پر جاری کیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ درخواست غیر موثر نہیں ہوئی، عدالت نے طے کرنا ہے کہ نوٹیفکیشن درست تھا یا نہیں۔

شیر افضل کا کہنا تھا کہ کیا کسی کے پاس جواب ہے کہ سزا معطل ہونے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی اٹک جیل میں کیوں قید ہیں اور ٹرائل کورٹ کے جج این او سی پر اٹک جیل کیوں چلے گئے۔

عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ فاضل جج نے اپنا دماغ استعمال ہی نہیں کیا اور چلے گئے۔ انھوں نے کہا کہ کل لانڈھی جیل کا این او سی آجائے تو جج صاحب لانڈھی چلے جائیں گے۔

شیر افضل مروت کا کہنا تھا کہ ہماری درخواست کے جواب میں یہ کہہ دینا کہ نوٹیفکیشن غیر موثر ہو گیا ہے کافی نہیں ہے بلکہ عدالت کے سامنے سوال یہ ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو کس قانون کے تحت اٹک جیل میں رکھا گیا ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button