پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کی منظوری

مردم شماری مقررہ وقت پر ناگزیر ہوتی ہے کہ اس سے ناصرف آبادی کا ادراک ہوتا، بلکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم میں بھی مدد ملتی ہے۔ پاکستان اس لحاظ سے بدقسمت رہا کہ یہاں ابتدائی پچاس، ساٹھ برسوں میں باقاعدگی کے ساتھ مردم شماری کا انعقاد نہ ہوسکا۔ مردم شماری کے انعقاد کا عمل نامعلوم وجوہ کی بنا پر تاخیر کا شکار رہا، جس سے مسائل میں گِھرا ملک مزید مصائب کا شکار ہوا۔ نامعلوم کیوں یہاں آدم شماری کا سلسلہ ہر بار ہی تاخیر سے دوچار کیا جاتا رہا، جس سے ملکی آبادی کی ضروریات کا صحیح طور پر احاطہ نہ کیا جاسکا اور آبادی کے تناسب سے وسائل کی تقسیم کے معاملات ہوا میں معلق رہے۔ ناانصافی اور عدم مساوات کی سوچ پروان چڑھی۔ خرابیاں بڑھتی چلی گئیں، جو یقیناً کسی طور ملک و قوم میں مفاد میں نہ تھیں۔ 2017 میں مردم شماری ہوئی تھی، جس کے نتائج پر بہت سے سیاسی حلقے معترض تھے اور بارہا اس کا اظہار بھی کرتے رہتے تھے۔ بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے موجودہ سال ہونے والی ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیاں طے کرنے اور انتخابات کرانے کے مطالبات بھی بڑی شدومد کے ساتھ سامنے آرہے تھے۔ اب سی سی آئی نے ملک کی پہلی ڈیجیٹل اور ساتویں مردم شماری کے نتائج کی منظوری دے دی ہے، جس کے بعد انتخابات کے تاخیر کے شکار ہونے کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں۔نجی ٹی وی کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدرات مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کا 50 واں اجلاس ہوا، جس میں ساتویں مردم شماری کے نتائج کی متفقہ طور پر منظوری دے دی گئی، جو ملک کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری بھی ہے۔ چاروں وزرائے اعلیٰ، تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے مردم شماری کے نتائج سے مکمل اتفاق کیا۔ باپ پارٹی کے رہنما ڈاکٹر خالد مگسی، ایم کیوایم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ، سی سی آئی کے دیگر ارکان نے خصوصی دعوت پر اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس کے دوران وزارت منصوبہ بندی اور پاکستان ادارہ شماریات کے حکام نے مردم شماری کے نتائج پر بریفنگ دی۔ ساتویں مردم شماری کے نتائج کے مطابق پاکستان کی موجودہ مجموعی آبادی 241.49 ملین ہے، ملکی آبادی کی سالانہ شرح نمو 2.55 فیصد رہی، بلوچستان کی آبادی کی شرح نمو باقی صوبوں سے زیادہ یعنی 3.2 فیصد رہی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ 2022ء میں مردم شماری کے لیے سینسز ایڈوائزری کمیٹی تشکیل دی گئی، جو معروف و مایہ ناز شماریات کے ماہرین پر مشتمل ہے اور ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن اس کے صدر ہیں، انہوں نے سینسز مانیٹرنگ کمیٹی کے قیام اور سینسز ایڈوائزری کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دی، ملکی تاریخ میں پہلی بار سینسز مانیٹرنگ کمیٹی میں تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول صوبائی نمائندگان کی شرکت کو یقینی بنایا گیا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ ڈیجیٹل مردم شماری کے لیے نادرا نے ناصرف سافٹ ویئر بلکہ 1 لاکھ 26 ہزار ٹیبلیٹس، نیشنل ٹیلی کام کارپوریشن (NTC) نے ڈیٹا انفرا اسٹرکچر، اسٹوریج اینڈ کمپیوٹنگ کی سہولتیں فراہم کیں بلکہ سپارکو نے بلاکس کی تازہ ترین سیٹلائٹ کی ڈیجیٹل تصاویر مہیا کیں، اس کے علاوہ صوبائی حکومتوں نے 1 لاکھ 21 ہزار اہلکار، مسلح افواج اور قانو ن نافذ کرنے والے اداروں نے اعدادو شمار اکٹھا کرنے والے اہلکاروں کو سیکیورٹی فراہم کی۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ ڈیجیٹل مردم شماری یکم مارچ سے 22 مئی 2023 تک جاری رہی جبکہ ڈیٹا اکٹھا کرنے کے بعد کا سروے 8 سے 19 جولائی 2023 تک جاری رہا۔ اجلاس کو بتایا گیا 2023ء میں مجموعی طور پر پاکستان کی آبادی 241.49 ملین نفوس ریکارڈ کی گئی، اسی طرح خیبر پختونخوا کی آبادی 40.85 ملین، پنجاب کی آبادی 127.68 ملین، سندھ کی آبادی 55.69 ملین، بلوچستان کی آبادی 14.89 ملین اور اسلام آباد کی آبادی 2.36 ملین ریکارڈ کی گئی۔ اس لحاظ سے پاکستان کی آبادی میں اضافے کی موجودہ سالانہ شرح نمو 2.55 فیصد ہے جبکہ خیبر پختونخواہ میں 2.38 فیصد، پنجاب2.53 فیصد، سندھ 2.57 فیصد اور بلوچستان 3.20 فیصد رہی۔ وزیراعظم نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل وفاق کی مضبوطی کے لیے ایک اہم آئینی ادارہ ہے، پاکستان میں پہلی ڈیجیٹل مردم شماری بہترین طور سے مکمل ہوئی جو کہ خوش آئند ہے، صوبائی حکومتوں اور پاکستان ادارہ شماریات نے اس قومی فریضے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ 6 سال میں آبادی میں 3.5 کروڑ کا اضافہ ہوا جو باعث فکر ہے، پاکستان کی آبادی کے اضافے کا تناسب پاکستان کی معاشی ترقی سے کہیں زیادہ ہے، آبادی میں اضافہ متعدد قسم کی مشکلات پیدا کرتا ہے، یہ پاکستان میں آئندہ منتخب شدہ حکومت اور مستقبل کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، ہمیں ناصرف آبادی میں اضافے کو روکنا ہوگا بلکہ پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار کو بڑھا کر ان چیلنجز پر قابو پانا ہوگا۔مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کی منظوری کا فیصلہ ایک لحاظ سے قابل ستائش قرار پاتا ہے۔ آخر کب تک اس سے دُور بھاگا جاتا۔ حقائق کو ہر صورت تسلیم کرنے کی روش اختیار کرنی چاہیے، اس سے فرار کا عمل بعد میں مسائل کے لامتناہی سلسلے کو جنم دیتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ فیصلہ قابل تحسین ہے۔ پہلی ڈیجیٹل اور ساتویں مردم شماری کے نتائج کی منظوری کو بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے تحسین کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ ان کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوا۔ اس پر سیاسی جماعتیں خوشی سے نہال دِکھائی دیتی ہیں۔ ملکی آبادی 24 کروڑ سے متجاوز ہوگئی۔ آبادی میں تیزی سے اضافہ یقیناً باعثِ فکر ہے، بڑھتی آبادی اور معاشی ترقی کا تناسب دیکھا جائے تو یہ مزید مسائل کی دلدل میں ملک و قوم کو دھکیلنے کا سبب بن سکتا ہے۔ آبادی پر قابو کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت بھی شدّت سے محسوس ہوتی ہے۔ دوسری جانب وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے عام انتخابات میں پانچ ماہ تاخیر کا اشارہ دیا ہے۔ ضروری ہے کہ نئی مردم شماری کی نتائج کی روشنی میں حلقہ بندیوں کا کام جلد از جلد مکمل کیا جائے، تاکہ عام انتخابات کا انعقاد جلد ہوسکے اور ملک میں نئی منتخب قیادت سامنے آسکے۔
ماحولیاتی آلودگی کا عفریت
ملک عزیز اس وقت ماحولیاتی آلودگی کے بدترین اثرات کا سامنا کررہا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی سے بڑے پیمانے پر موسمیاتی تغیرات جنم لے رہے ہیں۔ دُنیا بھر کے موسموں پر اس کے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ شدید سردی اور بدترین گرمی کے نت نئے ریکارڈ قائم ہورہے ہیں۔ تیز بارشیں، آگ برساتا سورج، سخت سردی اور دیگر حالات دیکھنے میں آرہے ہیں۔ نت نئے امراض جنم لے رہے ہیں۔ فصلوں پر اس کے منفی اثرات پڑرہے ہیں۔ وطن عزیز بھی بدترین ماحولیاتی آلودگی کا شکار ہے۔ اس کی وجہ سے یہاں کے موسموں میں تیزی سے تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ قدرتی آفات سیلاب، طوفان، زلزلے سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات دیکھنے میں آرہے ہیں۔ بارشوں کو باران رحمت گردانا جاتا ہے، لیکن جب یہاں بادل زوروں سے برستے ہیں تو بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔ پچھلے کچھ سال سے تو موسلا دھار بارشوں کے نتیجے میں مستقل سیلابی صورت حال جنم لیتی رہی ہے۔ گزشتہ برس اس باعث سندھ اور بلوچستان اور دیگر چند ایک مقامات پر بدترین سیلاب آیا۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے۔ ہزاروں لوگ جاں بحق ہوئے۔ بے شمار مویشی مر گئے۔ گائوں کے گائوں سیلاب میں بہہ گئے۔ ان سیلاب زدگان کی اب تک بحالی کا عمل مکمل نہیں ہوسکا ہے۔ اب پھر مون سون کا موسم پورے ملک میں جاری ہے اور بارشیں بڑے پیمانے پر تباہ کاریاں مچارہی ہیں۔ سیکڑوں لوگ حالیہ مون سون سیزن میں اپنی زندگی سے محروم ہوچکے ہیں۔ بڑے پیمانے پر فصلیں تباہ ہوئی ہیں جب کہ لاتعداد افراد کو بے گھری کا عذاب سہنا پڑا ہے۔ دیہات کے دیہات سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں۔ اوپر سے بھارت بھی آبی جارحیت سے باز نہیں آرہا اور امسال ایک سے زائد بار سیلابی پانی چھوڑ چکا ہے۔ اس حوالے سے بڑی گمبھیر صورت حال دِکھائی دیتی ہے۔سیلاب کی مستقل صورت حال سے نمٹنے کے لیی بڑے پیمانے پر آبی ذخائر کی تعمیر کی ضرورت شدّت سے محسوس ہوتی ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے، چاہے چھوٹے ہوں یا بڑے ڈیمز زیادہ سے زیادہ تعداد میں جلد از جلد بنانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ دوسری جانب ماحولیاتی آلودگی کے عفریت سے بچنی کے لیے اگر اب بھی اقدامات نہ کیے گئے تو آگے چل کر صورت حال مزید سنگین شکل اختیار کرسکتی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانا اکیلے حکومت کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے ملک کے 24 کروڑ عوام کو ذمے داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ شہری جس طرح اپنے گھروں کو صاف ستھرا رکھتے ہیں، اُسی طرح یہ ارض پاک بھی اُنہی کی ہے، اس کے ایک ایک ذرّے کو صاف ستھرا رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ گھروں سے باہر کچرا پھیلانے سے گریز کریں۔ پارکوں، بازاروں، شاپنگ مالز، مزاروں اور دیگر عوامی مقامات پر کچرا ڈسٹ بن میں ڈالیں۔ دوسری جانب دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں اور فیکٹریوں کے خلاف حکومتی سطح پر اقدامات کیے جائیں۔ صوتی آلودگی پر قابو پایا جائے۔ آبی آلودگی کے مسئلے کو حل کیا جائے۔ ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے میں درخت انتہائی معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ہر شہری اپنی استطاعت کے مطابق جتنا زیادہ ہوسکے، پودے اور درخت لگائے اور ان کی آبیاری کی ذمے داری باقاعدگی سے ادا کرے۔ انسان دوست ماحول کو پروان چڑھانے میں تمام مکتب فکر کے افراد اپنا کردار نبھائیں۔ انسان دوست ماحول یقیناً ماحولیاتی آلودگی کے نقصانات سے بچانے میں ممد و معاون ثابت ہوگا۔