باجوڑ دھماکے میں44افراد جاں بحق

وطن عزیز 15سال تک بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا ہے۔ 80ہزار سے زائد بے گناہ انسان بم دھماکوں، خود کُش حملوں، فائرنگ اور دیگر تخریبی واقعات میں جاں بحق ہوئے ہیں۔ ان شہدا میں بڑی تعداد میں سکیورٹی فورسز کے افسر اور اہلکار بھی شامل ہیں۔ شرپسندوں نے عبادت گاہوں کو بھی نہ بخشا تھا۔ مسجد، گرجا گھروں اور دیگر مقامات پر دہشت گرد حملے کیے جاتے تھے۔ سیاسی جلسے بھی ان کارروائیوں سے محفوظ نہ تھے۔ سیاسی پروگراموں کو بھی دہشت گرد نشانہ بناتے تھے۔ بے نظیر بھٹو سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے اہم رہنما ان کارروائیوں میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 2007اور 2013کے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہمات کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔ بعض سیاسی جماعتیں اس وجہ سے اپنی انتخابی مہم کو جاری نہ رکھ سکیں۔ 2014میں سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد ان دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کا عزم مصمم کیا گیا۔ آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردُالفساد کے ذریعے دہشت گردی کے عفریت کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کا عزم کیا گیا۔ شرپسندوں کو اُن کی کمین گاہوں میں گھس کر واصل جہنم کیا گیا۔ کتنے ہی دہشت گرد گرفتار ہوئے اور جو باقی بچے اُنہوں نے یہاں سے فرار میں ہی عافیت جانی۔ دہشت گردوں کی کمر توڑ کے رکھ دی گئی۔ ملک میں امن و امان کی فضا بہتر ہوئی۔ عوام نے سکھ کا سانس لیا۔ دہشت گردی کے جن کو بوتل میں بند کرنے کا تمام تر سہرا افواج پاکستان کے سر بندھتا ہے۔ اب پھر سے پچھلے کچھ عرصے سے دہشت گردی کی کارروائیاں متواتر سامنے آرہی ہیں۔ خصوصاً سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ پاک افواج اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے برسرپیکار ہے اور مختلف مقامات پر مختلف آپریشنز جاری ہیں۔ کئی علاقوں کو شرپسندوں سے کلیئر کرالیا گیا ہے۔ دہشت گرد اب سیاسی جماعتوں کو بھی نشانہ بنانے پر اُتر آئے ہیں۔ اتوار کو باجوڑ میں ایک مذموم کارروائی دیکھنے میں آئی ہے جب ایک سیاسی کنونشن کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، جس میں 44 سے زائد افراد جاں بحق اور قریباً 150زخمی ہوگئے۔باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام ( جے یو آئی) کے ورکرز کنونشن میں دھماکے کے نتیجے میں 44سے زائد افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ نجی ٹی وی کے مطابق خار میں دھماکا ورکرز کنونشن کے اندر ہوا، جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ دھماکے میں 44سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے اور جاں بحق ہونے والوں میں جے یو آئی تحصیل خار کے امیر مولانا ضیاء اللہ جان اور تحصیل ناواگئی کے جنرل سیکرٹری حمیداللہ حقانی بھی شامل ہیں۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر نے بتایا کہ ڈی ایچ کیو اسپتال میں 44سے زائد افراد کی لاشیں لائی گئی ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ دھماکے میں 150سے زائد زخمی ہوئے ہیں جب کہ شدید زخمیوں کو آرمی ہیلی کاپٹر سے پشاور منتقل کیا جارہا ہے۔ ڈسٹرکٹ ایمرجنسی افسر باجوڑ نے کہا کہ زخمیوں کو تیمرگرہ اور پشاور بھی منتقل کیا جارہا ہے اور کئی کی حالت تشویش ناک ہے۔ دھماکے میں نجی ٹی وی کے کیمرہ مین سمیع اللہ بھی شدید زخمی ہوئے ہیں۔ پولیس کے مطابق 35سے زائد زخمیوں کو تیمرگرہ اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے جب کہ دھماکے کی نوعیت کے حوالے سے اب تک معلومات سامنے نہیں آئی ہیں۔ ریجنل پولیس آفیسر مالاکنڈ ناصر ستی نے بتایاکہ باجوڑ دھماکہ خودکُش لگتا ہے، تحقیقات کی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دھماکے کی جگہ سے شواہد اکٹھے کیے جارہے ہیں اور علاقے میں سرچ آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔ اِدھر جمعیت علمائے اسلام خیبر پختونخوا کے ترجمان عبدالجلیل جان نے بتایا کہ ورکرز کنونشن میں 4بجے کے قریب مولانا لائق کی تقریرکے دوران دھماکہ ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ ایم این اے مولانا جمال الدین اور سینیٹر عبدالرشید بھی کنونشن میں موجود تھے جبکہ تحصیل خار کے امیر مولانا ضیاء اللہ دھماکے میں جاں بحق ہوئے۔ دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے باجوڑ میں ورکرز کنونشن میں دھماکے پر افسوس کا اظہار کیا اور وزیر اعظم، وزیراعلیٰ کے پی سے واقعے کی انکوائری کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے اپیل کی کہ جے یو آئی کے کارکنان اسپتال پہنچ کر خون کے عطیات دیں۔ مولانا فضل الرحمان نے کارکنوں کو تلقین کی کہ جے یو آئی کے کارکن پُرامن رہیں۔ یہ بڑا افسوس ناک سانحہ ہے۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔ اسے قومی تاریخ کا بدترین سانحہ گردانا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ جے یو آئی کے لیے یہ بڑا نقصان ہے۔ اُن کے خار کے امیر مولانا ضیاء سمیت44افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ دہشت گردی کی یہ مذموم کارروائی ہر لحاظ سے ناپسندیدہ فعل ہے۔ اس کو کرنے والے کسی طور انسان کہلانے کے حق دار نہیں۔ یہ وہ وحشی جانور ہیں، جن کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں دہشت گردی کا عفریت پھر سے اپنی تباہ کاریاں شروع کیے ہوئے ہے۔ ضروری ہے کہ اس ناگ کو پھن سمیت کچلا جائے۔ ناگزیر ہے کہ ملک کے طول و عرض میں پھر سے دہشت گردی کے جن کو بوتل میں بند کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر کارروائیوں کا آغاز کیا جائے۔ پاک افواج ملکی سلامتی کا ضامن ادارہ ہے۔ اسے پہلے بھی دہشت گردوں کی کمر توڑنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اب بھی وہ ان شرپسندوں کو جلد ہی ان کے انجام تک پہنچائیں گی۔ پاک افواج اپنے فرائض سے غافل نہیں۔ وہ دہشت گردی کے پھر سے سر اُٹھاتے عفریت سے نبردآزما ہونے کے لیے آپریشنز کر رہی ہے۔ انہیں چُن چُن کر مارا اور کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔ وطن کے مجرموں کے لیے معافی کی چنداں گنجائش نہیں۔ ملک کے امن کو سبوتاژ کرنے کی مذموم کوشش کرنے والے کسی رو رعایت کے مستحق نہیں گردانے جاسکتے۔ ان کا انجام بد نزدیک ہے اور پاک افواج جلد دہشت گردی پر قابو پالیں گی۔
مہنگائی مافیا کے خلاف کریک ڈائون ناگزیر
وطن عزیز کے عوام کے لیے زندگی کسی کٹھن آزمائش سے ہرگز کم نہیں۔ وہ اس وقت انتہائی مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ پچھلے پانچ برسوں کے دوران ہونے والی مہنگائی نے اُن کے منہ سے روٹی کا نوالہ تک چھین لیا ہے۔ غریبوں کے لیے ہر نیا دن کٹھن آزمائش کا حامل ہوتا ہے۔ پچھلے برسوں کے دوران مہنگائی کے ساتھ بے روزگاری کے عفریت نے بھی اپنی جڑیں مضبوط کی ہیں۔ سابق حکومت مسائل کے حل کی جانب وہ توجہ نہ دے سکی، جس کی ضرورت تھی۔ معیشت کے لیے ناقص پالیسیوں کے باعث مشکل صورت حال پیدا کی گءی۔ لاتعداد چھوٹے کاروباروں کو لوگوں کو نقصانات کے باعث بند کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ہر شے کے دام دو تین گنا بڑھ چکے ہیں۔ آٹا، چینی، چاول، چائے کی پتی، تیل، گھی، دودھ وغیرہ کے نرخ آسمان پر پہنچے ہوئے ہیں۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر براجمان ہیں۔ اس صورت حال میں غریبوں کے لیے اپنے گھر کا معاشی نظام چلانا کسی طور آسان نہیں۔ اُنہیں بے پناہ پاپڑ بیلنے پڑتے اور کڑی جدوجہد کرنی پڑتی ہے، تب جاکے وہ دو وقت کی روٹی کا حصول ممکن بنا پاتے ہیں۔ آمدن وہی ہے، تاہم مہنگائی کی وجہ سے اخراجات حد درجہ تجاوز کرچکے ہیں۔ موجودہ حکومت جب سے برسر اقتدار آئی ہے، معیشت کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ اُسے بعض مشکل فیصلے بھی لینے پڑے ہیں، جن کے ثمرات بھی ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اب عوام کی حالت زار بہتر بنانے پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت گرانی میں کمی کے لیے اقدامات کرے۔ آٹا ڈیڑھ سو روپے کلو سے زیادہ قیمت پر فروخت ہورہا ہے، اس کی مناسب قیمت پر عوام کو دستیابی یقینی بنائی جائے۔ اسی طرح چاول اور تیل، گھی کے نرخ بھی بے قابو ہوچکے ہیں۔ چاول کے دام تو اتنی تیزی سے بڑھائے گئے، اللہ کی پناہ۔ پچھلے کچھ دنوں میں چینی کی قیمت میں من مانا اضافہ کردیا گیا ہے۔ عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ تک چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے۔ منافع خور، ذخیرہ اندوز اور گراں فروش عوام کی جیبوں پر بھرپور نقب لگا رہے ہیں۔ حکومتی رٹ کہیں دکھائی نہیں دیتی، اسی لیے سرکاری نرخوں سے کہیں زیادہ قیمت پر اشیاء ضروریہ فروخت کی جارہی ہیں۔ کوئی ان کو روکنے ٹوکنے والا نہیں، کوئی ان کے خلاف کارروائی کرنے پر آمادہ نہیں۔ متعلقہ ادارے چند ایک مقامات پر گراں فروشوں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کرکے خانہ پُری کر دیتے ہیں، اس کے بعد راوی چین ہی چین لکھ رہا ہوتا ہے جب کہ عوام مہنگائی مافیا کے ہاتھوں لٹتے رہتے ہیں۔ آخر یہ سلسلہ کم تھمے گا، کب عوام کے مصائب کم ہوں گے، کب اُن کی زندگیاں سہل ہوں گی، یا وہ یوں ہی معاشی نظام چلانے کے چکر میں رُلتے رہیں گے؟، آخر مہنگائی مافیا کو راہ راست پر لانے کا بندوبست کب کیا جائے گا؟ یہ تمام سوالات جواب کے متقاضی ہیں۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو مہنگائی مافیا کے خلاف کمر کستے ہوئے ملک بھر میں کریک ڈائون کرنا چاہیے۔ ان کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں تسلسل کے ساتھ اُس وقت تک جاری رکھنی چاہئیں، جب تک ملک سے گرانی کا جن بوتل میں بند نہیں ہوجاتا۔ منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشوں کو کسی طور بخشا نہ جائے۔ یہ معاشرے کے لیے ناسور ہیں۔ عوام کی زندگی میں آسانی لانے اور ریلیف دینے کے لیے یہ بہتر نسخہ ثابت ہوسکتا ہے، بشرطیکہ اس پر من و عن عمل درآمد کیا جائے۔