ColumnNasir Naqvi

بات سمجھ آ گئی؟

ناصر نقوی

وطن عزیز ان گنت بحرانوں میں مبتلا ہے۔ بحران کب اور کیسے ختم ہوں گے؟ نہ حکومت کی کچھ کوشش کامیاب ہوئی اور نہ ہی مستقبل میں کچھ مثبت دکھائی دے رہا ہے کیونکہ ’’ اتحادی حکومت‘‘ جانے کی تیاری میں اپنا بسترا لپیٹ رہی ہے جبکہ نگران حکومت کے بس کی یہ بات نہیں کیونکہ وہ تو مہمان اداکار ہوتی ہے اور اس کو وہ آئینی حقوق حاصل نہیں ہوتے لیکن افواہیں گرم ہیں کہ اس مرتبہ نگران حکومت ماضی کی طرح60یا 90روز کی نہیں ہو گی اس لیے وہ بھی پنجاب حکومت کی طرح درشنی پہلوان نہیں ہوں گے۔ ماضی کا اگر جائزہ لیں تو سیاسی انداز حکومت تقریباً ایک سے ہی نظر آتے ہیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، پرویز مشرف کے بعد آنے والی حکومتوں میں بھی، تمام بحرانوں کا ملبہ سابقہ حکومتوں پر ہی ڈالا جاتا رہا اور یہی انداز پہلی مرتبہ اقتدار میں آنے والی تحریک انصاف نے کیا، احتساب اور تبدیلی کے نام پر ’’ نیا پاکستان‘‘ بنانے آئے اور کارکردگی ماضی سے بھی بدتر رہی، احتساب کے حوالے سے بڑی بڑی تمام اہم شخصیات، سابق وزرائے اعظم ، وزراء پکڑے اور جکڑے گئے لیکن ’’سزا‘‘ کسی کو نہیں مل سکی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے خطابات اور بیانات میں بے تحاشا تضاد کی بناء پر وہ ہر مسئلے پر ’’ یو ٹرن‘‘ لے کر جان بچانے پر مجبور تھے جبکہ اقتدار سے ہاتھ دھونے کے بعد بقول عمران خان ، کہانی مختلف تھی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ احتساب اور’’ پکڑ دھکڑ جکڑ‘‘ بھی سابق جنرل باجوہ نے شروع کرائی اور پھر ان سب کو نکلنے کا راستہ بھی دلوایا۔ اس لیے وعدے کے مطابق عمل نہیں کیا جا سکا حالانکہ’’ اقتدار‘‘ میں دعویدار تھے کہ وہ بااختیار وزیراعظم ہیں۔ ان کی جماعت دو پاکستان کو ایک نیا پاکستان بنانے کی جدوجہد سے حکومت میں اب غریب، امیر، اشرافیہ اور عام آدمی کے لیے یکساں انصاف ہو گا کیونکہ انصاف کے بغیر کوئی معاشرہ پھول پھل نہیں سکتا، نہ ہی حکومتیں چل سکتی ہیں۔ دوسری جانب ان کا یہ بھی بلند بانگ دعویٰ تھا کہ وطن عزیز کو دو خاندانوں اور چند سہولت کاروں نے باپ کا مال سمجھ کر لوٹا لہٰذا انہیں نہیں چھوڑوں گا، ان سب کو رلائوں گا اور لوٹا ہوا خزانہ بھر دوں گا۔ ان کا یہ بھی فرمان تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو خودکشی کر لوں گا جبکہ عوامی خوشخبری یہ تھی کہ قوم کو 50لاکھ گھر اور اس کے نوجوانوں کو ایک کروڑ نوکرنیاں دوں گا لیکن ہوا سب کچھ ان وعدوں اور یقین دہانیوں کے برعکس لہٰذا سیاسی اور معاشی بحران نے عدم اعتماد کی تحریک سے اتحادی حکومت کو جنم دے دیا۔ ملک میں ایسا پہلی بار ہوا تو یہ تبدیلی بھی اچھی نہیں لگی، نہ ہی اقتدار سے اترنا خان اعظم کو ہضم ہوا لہٰذا معاشی اور سیاسی بحران کے حالات میں آئینی بحران بھی پیدا ہو گیا۔ اتحادی حکومت نے بھی ماضی کی پالیسی اپناتے ہوئے تمام تر الزامات اور نقصانات کا ذمہ دار ناتجربہ کار عمران خان کو ٹھہرا دیا قوم نے برداشت کیا کیونکہ ان کا بھی وعدہ تھا کہ وہ عمرانی دور کی غلط منصوبہ بندیوں سے ہونے والی ’’ مہنگائی جن‘‘ کو لگام ڈالے گی لیکن بدقسمتی سے ایسا بھی نہ ہو سکا۔ غریب کی دو وقت کی روٹی مشکل ہو گئی؟ روز گار کے لیے مواقع پیدا نہ ہوسکے اور بدترین مہنگائی عوام کا مقدر بنی، اتحادی حکومت نے بھی عمرانی حکومت پر الزامات لگا کر آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹایا جو اب ملا بھاگ جائو، تم لوگ اور تمہاری حکومت ناقابل اعتبار ہے۔ معاہدہ کر کے توڑ دیتی ہے پھر انہوں نے غریبوں سے کیسا برتائو کیا؟ کسی سے پوشیدہ نہیں، اتحادی حکومت نے ’’ سو جوتے بھی کھائے اور سو پیاز بھی‘‘ اور عزت یہ کہہ کر بچانے کی کوشش کی کہ ہم نے سیاست نہیں ریاست بچا لی ہے۔ سخت فیصلے بھی برداشت کئے گئے اور تمام تر خوبیوں خامیوں کے باوجود اسحاق ڈار بھی قابل قبول ہو گئے۔ حکومت، اسحاق ڈار اور سخت فیصلوں کے مقابلے میں عمران خان اور ان کے حواری ملک کو دیوالیہ، خانہ جنگی اور انارکی کی تباہی سے خوفزدہ کرتے رہے لیکن حقیقت میں اس پالیسی نے حکومت کو تقویت دے دی کہ اگر حکومت نے مشکل ترین حالات میں خود بُرا بن کر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا تو پھر ہمیں بھی سخت فیصلے قوم کے اعلیٰ مفادات میں برداشت کر لینے چاہئیں۔ جونہی اس سوچ کے مثبت نتائج نکلے، نئی افواہ اڑا دی گئی کہ اسحاق ڈار کو نگران وزیراعظم نہ بنا دیا جائی۔ میرے مطابق تو یہ’’ رائے عامہ‘‘ کی بحالی کا نسخہ تھا لیکن اجتماعی مخالفت کے باوجود اسحاق ڈار اور مسلم لیگی انہیں وزیراعظم ہی سمجھنے لگے ہیں۔ فی الحال ’’دی ایکشن‘‘ اچھا نہیں، اتحادی جماعتوں نے مشاورت نہ کرنے کا گلا شکوہ کیا ہے لیکن سیاست میں کچھ بھی ہو سکتا ہے تاہم یہ خبر پکی ہے کہ اگر اتفاق رائے ہو گیا، اسحاق ڈار کے نام پر تو وہ چند ماہ کے لیے نگران نہیں ہوں گے۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ کن شرائط پر ہوا اور اس پر ادائیگی ہی نہیں واپسی کا معاہدہ حقیقت میں کیا ہے تو وہ بھی ڈار صاحب ہی جانتے ہیں۔ دوسری جانب بھی ایمپائرز کی رائے یہی ہے کہ اولیت ہر حال میں معاشی بحران کے خاتمے کو دی جائے جس کے لیے کسی سخت ماہر اقتصادیات ایڈمنسٹریٹر کی ضرورت ہے اس معیار پر بھی اسحاق ڈار نمبروں والے ہیں۔ اپنی پارٹی کے قائد کی قربت بھی رکھتے ہیں اور آئی ایم ایف کے ساتھ ساتھ ایمپائرز سے بھی تعلقات کے قائل ہیں لیکن کباب میں ہڈی والی بات یہ ہے کہ اگر اسحاق ڈار نگران وزیراعظم بن گئے تو غیر جانبدارانہ الیکشن کیسے ہوں گے اور اگر ہو بھی گئے تو اس کے نتائج تسلیم بھی کئے جائیں گے کہ نہیں؟
کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے؟ سب کنفیوز ہیں لیکن سپہ سالار جنرل عاصم منیر نے ایک نہیں کئی مرتبہ یاد دہانی کروا دی ہے کہ موجودہ حالات میں مکمل سدھار، عوامی ریلیف اور استحکام پاکستان کے لیے پہلا چیلنج معاشی بحران کا خاتمہ ہے کوئی آئے کوئی جائے اس ون پوائنٹ ایجنڈا پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نی ایک سے زیادہ مرتبہ یہ بھی کہا کہ نہ پرانا، نہ نیا، صرف ہمارا پاکستان، اب خانیوال میں اس عزم کو دہرایا کہ میرا یا تیرا نہیں، ہمارا پاکستان۔۔۔۔ بات سمجھ آ گئی ؟ ابھی بھی جنہیں نہیں سمجھ آئی وہ ان کے خطاب کو بغور پڑھ کر بات سمجھ سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کو بحرانوں سے نکال کر دم لیں گے ۔ سیکیورٹی اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے پاک فوج کو قوم کی خدمت پر فخر ہے۔ ہمارا دفاع مضبوط و مستحکم ہے۔ اب ہمیں کشکول اٹھا کر پھینکنا ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ترقی سے نہیں روک سکتی۔ معاشی استحکام آئے گا تو عوامی مشکلات میں کمی آئے گی۔ عوام اور ریاست کا رشتہ محبت اور احترام کا ہے۔ اسے مضبوط کرنے اور خوشحالی کے لیے اب زرعی انقلاب آئے گا، فوج اقتصادی بحالی اور خوشحالی کے لیے آئی۔ ٹی، مائننگ اور زراعت سمیت پانچ اہم شعبوں میں خدمات انجام دے گی۔۔ ’’ اب بات سمجھ آئی‘‘۔۔۔۔۔۔۔ کچھ سیانے تنقید کر رہے ہیں کہ فوج کا یہ کام نہیں، وہ اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہے۔ اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے؟ مخالفین کہتے ہیں بات تو درست ہے لیکن اس بات کا کیا جواب ہے کہ جن کا یہ کام ہے وہ کیوں نہیں کرتے ؟ ہمارے سیاست دانوں کے بارے میں صرف ملکی سطح پر نہیں، عالمی سطح پر بھی یہی تاثر ہے کہ پارٹی اور صاحب اقتدار خواہ کوئی بھی ہوں انہیں اپنا منشور یاد نہیں رہتا البتہ اجتماعی مفادات کے مقابلے میں ذاتی مفادات اور انتقامی کارروائی کبھی نہیں بھولتی، اسی لیے موجودہ دور ہو کہ ماضی کی حکومتیں حالات و واقعات اس بات کے گواہ ہیں کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں ہمارے حکمران جاتے ہیں وہاں وہاں ہمارا سپہ سالار پہلے یا بعد میں ضرور جاتا ہے بقول شخصے اس کے دوروں کا مقصد ہی ’’ گارنٹی‘‘ دینا ہوتا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان اس وقت سابق جنرل ( ر) باجوہ کے عیب گنواتے نہیں تھک رہے۔ دوران حکومت ایک پیج پر تھے، پھر یہ پیچ کیسے پھٹ گیا، اب یہ بات بھی کھل چکی ہے۔ جنرل ( ر) باجوہ امریکہ، چین کون سا ایسا ملک ہے جہاں نہیں گئے۔ آج انہیں جس قدر تنقید اور موجودہ ابتری کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔ عمرانی دور میں ایسا ہرگز نہیں تھا لیکن جونہی اعتبار کا رشتہ ٹوٹا، سب کچھ بدل گیا۔
(باقی صفحہ 6 پر ملاحظہ فرمائیں)

اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ عمران خان عوام سے زیادہ خاص کا انتخاب تھا سلیکٹڈ کا انتخاب تھا لیکن سلیکٹڈ وزیراعظم نے تمام تر سہولیات کے ساتھ کارکردگی ماضی کے سیاستدانوں کے حوالے سے بہتر کیوں نہیں کی؟ یہی نہیں، بات یہ بھی سوچنے کی ہے کہ عمران خان نے عوامی تائید کے باوجود ’’ شارٹ کٹ‘‘ کے لیے اپنے وفادار ساتھیوں سے کنارہ کشی کر کے سلیکٹرز کی مدد کیوں حاصل کی؟ اب وہ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں لیکن غلطی پہلے بھی تھی اور اس کھلواڑ کے نتائج اب کسی سے پوشیدہ نہیں۔
بات سمجھ آ گئی کہ نہیں؟ سیدھی سادھی بات یہ ہے کہ جب آپ اپنے حصّے کا کام دوسرو ں کی مدد سے کرنے کے خواہشمند ہوں گے تو دوسرا رفتہ رفتہ آپ کی خوبیوں اور خامیوں سے شناسا ہو کر اپنی خدمات کے صلے میں خودبخود مداخلت کا حق پیدا کر لیتا ہے اسے برداشت بھی کیا جاتا ہے لیکن جونہی بداعتمادی کی لکیر نموادار ہوتی ہے ’’ مداخلت‘‘ بری لگنے لگتی ہے۔ وطن عزیز میں آج تک جتنی مرتبہ مارشل لاء لگا یا کسی سیاسی حکومت کا خاتمہ کیا گیا تو تحقیق کر لیں وہاں سیاستدانوں کی غلطی یا پھر سیاستدانوں کا استعمال ضرور ملے گا۔ اگر ہمارے سیاستدان اپنی اپنی پارٹی منشور اور آئین و قانون کے مطابق اپنے آپ کو پابند کر کے پارلیمنٹ کو قانون سازی اور ترامیم کے حوالے سے استحکام دے دیں تو قومی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے اور عوامی سہولت کے نئے راستے نکل سکتے ہیں یہی جمہوریت کا حقیقی ثمر ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے تمام رہنما آئین و قانون اور منشور صرف خطابات اور نعروں تک محدود رکھتے ہیں عمل اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے اسی لیے کوئی قومی ادارہ مستحکم نہیں ہو سکا بلکہ پارلیمنٹ بھی اپنا مثبت کردار ادا نہیں کر سکی۔ اتحادی حکومت نے ’’ میثاق معیشت‘‘ کی دعوت دی لیکن انتہائی سردمہری کا مظاہرہ کیا گیا چونکہ باتوں اور نعروں سے نہ مسائل کم ہوتے ہیں نہ ہی بحرانوں کا خاتمہ ہوتا ہے اسی لیے پاکستا ن نااہل حکمرانوں کی بدولت تمام تر قدرتی نعمتوں کے باوجود بحرانوں میں پھنسا ہوا ہے، سپہ سالار کو بات سمجھ آ گئی کہ یہ قوم ڈنڈے اور دھکے کے بغیر اپنی کامیابی کی منزل کے راستے پر گامزن نہیں ہو سکے گی لہٰذا انہوں نے ’’ معاشی بحران‘‘ کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہو کر حکومتی مشاورت سے مستقبل کی منصوبہ بندی کر لی، اب وزارت منصوبہ بندی کی نگرانی میں میجر جنرل تبسم حبیب کی قیادت میں ایک سپیشل یونٹ ایوان وزیراعظم میں قائم کر دیا گیا ہے جو ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کی گارنٹی کے لیے زراعت، آئی ٹی اور رئیل اسٹیٹ کے لیے سہولیات پیدا کرے گا یقینا یہ مداخلت حکومتی کمزوریوں اور نااہل حکمرانوں کی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔ بات سمجھ آئی کہ ابھی بھی نہیں؟۔

ناصر نقوی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button