تحریر : سی ایم رضوان
وطن عزیز کے ہر دور کا کوئی نہ کوئی عنوان رہا ہے۔ مثال کے طور پر ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف، حتیٰ کہ جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ تک کے آرمی چیف شپ کے مختلف جمہوری اور آمرانہ ادوار کو کہا جا سکتا ہے کہ ان ادوار پر بعض عناصر ایسے خواہ مخواہ کے غالب رہے کہ جیسے سب کچھ اور سارا نظام انہی کے تابع ہے اور انہی کے رحم و کرم اور حکم احکام سے چل رہا ہے مگر اب ملک میں 8فروری 2024ء کے عام انتخابات کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ احساس شدید تر ہوتا جا رہا ہے کہ ملک کا نظام لاوارث ہو چکا ہے۔ یہ احساس اس لئے بھی شدت سے ہو رہا ہے کہ موجودہ فوجی قیادت نسبتاً کم گو، اصول پسند واقع ہوئی ہے یہاں تک کہ ان پر تنقید اور سب وشتم کرنے والے بھی حد سے گزرے ہوئے ہیں مگر حقائق یہ ہیں کہ موجودہ نظام انہی سب و شتم کرنے والوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے اور حالات و واقعات ثابت کر رہے ہیں کہ یہ عناصر باہر بیٹھ کر بھی نظام چلا رہے ہیں۔ وزیراعظم آئینی حاکم ہونے کے باوجود من من کرتا سنائی دیتا ہے اور آرمی چیف طاقت کا کنٹرول رکھنے کے باوجود طاقت استعمال کرتا نظر نہیں آتا۔ مثال کے طور پر ڈی جی آئی ایس پی آر کی حالیہ پریس کانفرنس میں یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ سانحہ نو مئی کے ذمہ داران کو ہر گز بخشا نہیں جائے گا اور ان کو سزا دینے کے لئے اگر جوڈیشل کمیشن بھی بنانا ہے تو وہ بھی بنا دیا جائے چاہے وہ 2017 کے دھرنوں سے تحقیقات کا آغاز کر لے۔ فوجی ترجمان نے بھی کہہ دیا بعد ازاں سول حکومت نے بھی کہہ دیا کہ جوڈیشل کمیشن بننا چاہئے لیکن آج تک نہ تو اس کمیشن کے تشکیل پانے کی کوئی اطلاع ملی ہے اور نہ ہی سانحہ نو مئی کے ملزمان کو کسی قسم کی سختی کا سامنا کرنا پڑا ہے بلکہ اس بلند بانگ دعوئوں کی حامل پریس کانفرنس کے بعد نو مئی کے ملزمان کے لئے عدالتوں اور انتظامی اداروں کی جانب سے ریلیف اور ضمانتیں حتیٰ کہ باعزت رہائیاں ملنا شروع ہو گئی ہیں۔ ان حالات میں کیا یہ کہنا بے جا ہے کہ سسٹم لاوارث ہو چکا ہے؟ نظام کی اسی لاوارثی کو دیکھتے ہوئے حالات کی ہر نہج اور ہر پرت میں روز بروز غیر یقینی کی صورت حال میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ذمہ داران یہ سب دیکھ کر بھی خاموش ہیں تو کیا یہ کہنا بے جا ہے کہ نظام لاوارث ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ اب تو سابقہ کئی دہائیوں سے اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چلنے والوں نے بھی واضح طور پر کہہ دیا ہی کہ اب ہم مزید اکٹھے نہیں چل سکتے۔ دوسری طرف جامشورو سے لے کر تورغر کے پہاڑوں تک کوئی ریاستی ترجمان ڈھونڈنے سے نہیں مل رہا۔ حالات و واقعات اگر اس حد تک پہنچ جائیں کہ طاقتور ترین اختیار والوں کی ترجمانی کے لئے بھی کوئی نہ ملے تو لامحالہ ذمہ داران اور طاقت کے اصل وارثان کی جانب نظریں اٹھیں گی کہ وہ کون ہیں کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔
پاکستان کو اس سے پہلے 90ء کی دہائی میں اس طرح کے مسائل کا سامنا رہا تھا۔ اس وقت بھی مسئلہ یہ تھا کہ کبھی عدالتی اجارہ داری اور کبھی فوجی تسلط کے قرائن نظر آتے تھے مگر تب یہ کھیل تماشا وارے کھا رہا تھا کیونکہ تب ملکی معیشت میں کچھ دم خم تھا مگر اب تو پاکستانی معیشت اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اگر نظام اسی قسم کی لاوارثی کا مزید چند ماہ تک شکار رہا تو پھر خدا نخواستہ ہم مستقل طور پر لاوارث ہو جائیں گے۔ اب بات اور حالات میں اس طرح کی وضع داری دکھانے کی بھی گنجائش نہیں کہ کسی بھی سخت اقدام کا کوئی گلہ شکوہ سنا جائے۔ ملک کو اس نہج پر لانے والے کھلنڈرے عناصر کی جانب سے جب یہ واضح طور پر کہا جا رہا ہے کہ فوج ظلم کر رہی ہے اور فوج ہی موجودہ تمام برائیوں کی جڑ ہے تو پھر فوجی کمان کس قسم کی عزت بچانے کے لئے خاموشی سے یہ سارا تماشا دیکھ رہی ہے کہ جیسے اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں۔ حالانکہ اس وقت جو عام آدمی کی زندگی اجیرن ہے اس کو آسان کرنے کے لئے فوج بڑی فہم و فراست اور تدبر سے کام کر بھی رہی ہے اور سول حکمرانوں سے اصولی تعاون بھی کر رہی ہے مگر اس مثبت اشتراک کار کو بھی اگر نہیں چلنے دیا جا رہا تو گھی نکالنے کے لئے انگلی ٹیڑھی کرنے میں کیا حرج ہے۔ دوسری جانب اگر ن لیگی کردار کی جانچ کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ملک کے سب سے تجربہ کار سیاسی رہنما نے کچھ فیصلے تاخیر سے کیے۔ کیا شہباز شریف کی لاچاری نواز شریف کے اس اعلان کے بعد زیادہ نہیں بڑھی کہ ان کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار محمد شہباز شریف ہیں۔ اس ضمن میں میاں جاوید لطیف وغیرہ کی بیان کردہ کہانیوں کو اگر سچ مان لیا جائے تو پھر سوال وہی آئے گا کہ کیا نظام کی یہ لاوارثی الیکشن 2024میں بھی تھی کہ ایسی جماعت کے امیدواروں کو پیسے لے کر جتوایا گیا اور اس عمل کی نگرانی بھی مبینہ طور پر کسی فوجی افسر نے کی تھی۔ کیا یہ درست نہیں کہ شہباز شریف کے وزیراعظم بننے سے مسلم لیگ ن سیاسی طور پر کمزور ہو گئی ہے۔ کیا یہ سوال مناسب نہیں کہ مسلم لیگ ن کے لیڈر میاں محمد نواز شریف منظر سے کیوں غائب ہیں اور کیا وہ اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ ملک میں سویلین بالا دستی ناممکن ہے حالانکہ ان کو چاہیے کہ ملکی استحکام کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں اور ملک کو اس بحران سے نکالنے کا کوئی قابل عمل راستہ نکالیں اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو کیا ملک ایک اور انتخاب کا متحمل ہو سکتا ہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کیونکر سول حکومت میں شامل نہیں ہوئے اور یہ بھی کہ کیا سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے پاکستان کو درپیش مسائل کے آگے گھٹنے ٹیک دینے ہیں کہ جو بھی ہو ہم نے ذمہ داری نہیں لینی۔ کیا حالات نے ان سب سیاستدانوں پر عیاں کر دیا ہے کہ اس ملک کا مقدر اب وہ نہیں حالات اور اہل خرافات ہی لکھیں گے۔ آج اگر ملک پر فوجی آمریت نہیں تو احتجاجی آمریت نے نظام کو جکڑ رکھا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ طاقتور حلقے یہ سب ہوتا کیوں دیکھ رہے ہیں۔
اگر پاکستانی سیاست کی تاریخ کو دیکھا جائے تو اکثر فوجی ادوار حکومت میں سیاسی جماعتوں میں اتحاد پیدا ہو جاتا تھا۔ ایوب خان کے مارشل لا کے بعد اپریل 1967ء میں نوابزدہ نصراللہ کی قیادت میں پانچ پارٹیوں پر مشتمل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم) کا اتحاد وجود میں آیا۔ اس کے بعد جب ضیا الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو1981ء میں سیاسی جماعتوں نے مل کر ضیائی مارشل لا کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت ( ایم آر ڈی) کی بنیاد رکھی۔ اس تحریک کی خاص بات یہ ہے کہ اس تحریک نے ضیاء الحق کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا تھا کہ ملک میں سیاسی نظام کو ختم کر دیا جائے۔ ملک میں سیاستدانوں کی مل کر کام کرنے کی روایت دراصل ایم آرڈی سے ہی شروع ہوئی تھی۔ یہ تحریک سیاسی کارکنوں کی لازوال قربانیوں اور ضیا الحق کے جبر کی مثال بنی، تاہم عوامی سطح پر اس تحریک اور اتحاد کو بہت پذیرائی ملی۔ اس کے بعد 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے نواز حکومت کو ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کیا تو شروع شروع میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے مشرف کو خوش آمدید کہا مگر جلد ہی ان کو احساس ہو گیا تھا کہ ان سے ایک فاش غلطی ہو گئی۔ 15مئی 2006ء کو مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہوں نے مل کر میثاق جمہوریت کیا جس سے سیاسی طور پر بہت سی باتوں کو طے کر لیا گیا تھا۔ اس معاہدے میں دراصل 17جماعتیں تھیں۔ اس معاہدے کے بعد 2008ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنی اور اس کے بعد 2013ء میں مسلم لیگ ن نے اقتدار سنبھالا اگر آپ یہ کہیں کہ میثاق جمہوریت پر سو فیصد عمل ہوا تو یہ جھوٹ ہو گا مگر اس معاہدے کے تحت برسوں سے تصفیہ طلب بعض اہم معاملات کو حل کر لیا گیا تھا۔ 2013ء سے لے کر سیاست میں پاکستان تحریک انصاف وارد ہو گئی۔ اس جماعت کے ذریعے میثاق جمہوریت کی سزا دینے کا بندوبست کیا گیا۔ جنرل پاشا سے لے کر ظہیر الاسلام، راحیل شریف اور قمر جاوید باجوہ تک نے ملک کے بڑے سیاستدانوں کے اس بڑے معاہدے کے اثرات سے بچنے کا بندوبست تیکنیکی اصطلاحات اور اصلاحات کے ساتھ کیا مگر اس جماعت کے سربراہ اور اس کے بزدار، گوگی اور پیرنی جیسے کرداروں نے خود اپنی ہی جماعت کی قدر گھٹا دی، اوقات بتا دی اور اپنی اسمبلیاں آپ ہی توڑ کر سیاسی ناپختگی اور نابالغی کا وہ خمیازہ بھگتا کہ اب دہائیوں کا آمریت پرور نظام نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو جیل میں رکھنے پر مجبور ہو گیا ہے۔
اب نظام اپنی مذکورہ بالا تمام لاوارثیوں کے باوجود تادم تحریر اس امر پر مستقل مزاج ہے کہ پرانے پاکستان کی بازیابی میں چاہے تھوڑی دیر ہی لگ جائے۔ چاہے سب و شتم ہی برداشت کرنا پڑے مگر نئے پاکستان کا تجربہ مزید نہیں کیا جائے گا۔ صرف ملکی خیر خواہ ہی نہیں دوست ممالک اور خطے کی سیاست بھی نئے پاکستان جیسے تجربے کی متحمل نہیں۔ اس ساری صورتحال میں اگر استقلال اور استحکام پیدا کرنا ہے تو اس امر پر بھی کاربند ہونا پڑے گا کہ اب نظام کو لاوارث نہیں چھوڑا جا سکتا۔