معیشت کی بہتری کیلئے راست فیصلے ناگزیر

وطن عزیز میں معاشی صورت حال کسی طور تسلی بخش قرار نہیں دی جاسکتی۔ پچھلے پانچ برسوں کے دوران حالات خاصی تیزی سے خراب ہوئے ہیں، جس سے غریب اور متوسط طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ مہنگائی کے نشتر سب سے زیادہ انہی طبقات پر برسے ہیں، ان کے لیے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا دُشوار ترین ہوگیا ہے۔ سابق حکومت کے دور میں ملکی معیشت کے ساتھ سنگین کھلواڑ کیے گئے، اسے تجربوں کی بھینٹ چڑھایا گیا، مہنگائی کو فروغ دیا گیا جب کہ ترقی کے راستے مسدود کر دئیے گئے، جن کے بھیانک نتائج سامنے آئے۔ ملک اور قوم کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ معیشت کا پہیہ تھم سا گیا۔ بے روزگاری کا بدترین طوفان آیا۔ بیشتر صنعتوں کو بند ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ عوام کا بھرکس نکل گیا۔ اُن کے لیے زیست کسی کٹھن امتحان سے کم ثابت نہیں ہوئی۔ پاکستانی روپیہ تاریخ کی بدترین بے وقعتی کا شکار ہوا۔ ان تمام خرابیوں کو پیدا کرنے کے باوجود سابق حکومت اپنے تجربات میں مصروف رہی۔ بہتری کی سبیل اُس سے نہ ہوسکی۔ ملک کو ڈیفالٹ کے دہانے پر لاپہنچایا گیا۔ ہر شے کے دام آسمان پر پہنچادیے گئے۔ سابق حکومت کی رخصت کے بعد موجودہ حکومت برسراقتدار آئی، جس نے آتے ہی ساتھ چند مشکل فیصلے کیے، گو مہنگائی میں اضافے کا سلسلہ تھم تو نہ سکا، تاہم معیشت کی سمت کا تعین کردیا گیا اور ملک کو ڈیفالٹ سے بچالیا گیا۔ معیشت کی بہتری کے لیے کیے گئے اقدامات کے نتائج جلد سامنے آئیں گے۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک دیوالیہ ہوتا تو میرے ماتھے اور قبر پر تاقیامت کالا دھبہ لگ جاتا، آج پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے، مجھے امید ہے رواں برس کپاس کی ریکارڈ فصل پیدا ہونے والی ہے، ہمیں گندم اور کپاس منگوانے کے لیے جو اربوں ڈالر خرچ کرنا پڑتے تھے اس میں بہت کمی آجائے گی، ہمارے پاس بجلی کی ترسیل کا فرسودہ نظام ہے، بڑے بڑے سرمایہ کار بجلی چوری کرتے ہیں اور آدھے پونے داموں میں بل ادا کرتے ہیں، اس سے پاکستان کو سالانہ 400سے 450ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ میرا ڈیرہ اسماعیل خان کا چوتھا دورہ ہے، میرے لیے بہت عزت کی بات ہے کہ آپ کے سامنے ایک بار پھر حاضر ہوں۔ انہوں نے کہا کہ 15، 16ماہ کے قلیل عرصے میں ہمیں تاریخ کے مشکل ترین چیلنجز ملے، اس کو کہتے ہیں سر منڈاتے ہی اولے پڑ گئے،11اپریل 2022کو جب میں نے اقتدار سنبھالا تو مجھے احساس تھا کہ حالات بہت مشکل ہیں لیکن اس کا اندازہ نہیں تھا کہ حالات حد درجہ تباہ کن ہیں۔ انہوںنے کہا کہ جب اقتدار سنبھالا تو تاریخ کا بدترین سیلاب آیا جس کی بحالی کے لیے ہم نے 100ارب روپے خرچ کیے، تاہم سیلاب زدگان کا حق ہم آج بھی ادا نہ کر سکے، اس کی وجہ وسائل کی شدید قلت ہے۔ مولانا فضل الرحمان، پیپلز پارٹی اور دیگر زعما سمیت خود میرے قائد نواز شریف عوام پر مہنگائی کے بوجھ کی وجہ سے پریشان تھے اور مجھ سے سوال کرتے تھے کہ کیا بنے گا؟۔ انہوں نے بتایا کہ میرا جواب یہی ہوتا تھا اور یہی رہے گا کہ نیازی حکومت نے اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے ریاست کو قربان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جبکہ ہماری مخلوط حکومت نے فیصلہ کیا کہ ہم سیاست کو قربان کردیں گے مگر ریاست کو بچالیں گے۔ انہوںنے کہا کہ یہی وہ فیصلہ تھا جس کی خاطر ہم ڈٹ گئے ورنہ اگر ملک قربان ہوجاتا تو کہاں کی سیاست اور کہاں کی وزارت عظمیٰ، ہم نے اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے لیکن ہمارے قدم نہیں ڈگمگائے۔ اللہ کے فضل سے ہم ڈیفالٹ سے بچ گئے۔ انہوںنے کہا کہ اگر ہم دیوالیہ ہوجاتے تو باہر کے بینک ہمارے لیٹر آف کریڈٹس (ایل سیز) قبول کرنے سے انکار کر دیتے، پاکستان میں دوا اور روٹی کے لالے پڑجاتے، صنعت کو کاری ضرب لگتی، یہ قیامت تک ہمارے ماتھے پر کالا دھبہ ہوتا اور میری قبر پر بھی کتبہ لگتا کہ اس کے دورِ حکومت میں ملک دیوالیہ ہوگیا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ آج پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے، 75برس میں ہم سے فاش غلطی ہوئی کہ ہم نے پن بجلی کے منصوبوں پر توجہ نہیں دی، تیل، بجلی اور گیس کے منصوبوں پر ارب، کھرب لگ گئے، اس کا آدھا سرمایہ بھی داسو اور دیامر بھاشا ڈیم پر لگاتے تو آج پاکستان کی معاشی صورتحال یہ نہ ہوتی اور ہمیں کشکول کی ضرورت نہ پڑتی۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ آئی ایم ایف کی شرط ضرور تھی تاہم اس کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی آپشن بھی نہیں تھا، ہماری بجلی کی ترسیل میں بے پناہ لائن لاسز ہوتے ہیں، ہمارے پاس بجلی کی ترسیل کا فرسودہ نظام ہے، بڑے بڑے سرمایہ کار بجلی چوری کرتے ہیں اور آدھے پونے داموں میں بل ادا کرتے ہیں، اس سے پاکستان کو سالانہ 400سے 450ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ میں ان ترقیاتی منصوبوں کے لیے سب کو مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں لیکن یہ کام آٹے میں نمک کے برابر ہے، اگر اس قوم کی حالت بدلنی تو کشکول توڑنا ہوگا، شہنشاہی اخراجات اور کرپشن کو ختم کرنا ہوگا، ان شا اللہ ہم مل کر اس ملک کی تقدیر بدلیں گے۔ دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان آئی ایم ایف کے معاہدے پر مکمل عملدرآمد کرے گا، نگراں حکومت اور الیکشن کے بعد منتخب حکومت اس معاہدے پر عمل کرنے کی پابند ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار وزیراعظم نے بین الاقوامی پارٹنر سپورٹ گروپ کے تیسرے اجلاس کے دوران کیا۔ اجلاس میں وفاقی وزرا اسحاق ڈار، سردار ایاز صادق، شیری رحمان، وزیرِ مملکت حنا ربانی کھر، معاونین خصوصی طارق فاطمی، طارق باجوہ، یو این ڈی پی عالمی بینک، یورپی یونین، اے ڈی بی، آئی ایم ایف، یو ایس ایڈ، امریکا، سعودی عرب، ترکیہ، چین، عرب امارات سمیت دیگر ممالک کے سفرا اور نمائندگان کے علاوہ متعلقہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں پاکستان میں سیلاب کی بحالی پر پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے تعاون بڑھانے میں آئی پی ایس جی کے اہم کردار کو سراہا۔ وزیراعظم کا فرمانا بالکل بجا ہے، شاہی اخراجات اور کرپشن کے خاتمے کے بغیر ترقی کا حصول ممکن نہیں۔ شاہی اخراجات پر قابو پایا جائے، کرپشن کے جڑ سے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ اتحادی حکومت نے ملکی معیشت کے لیے دن رات کڑی محنت کی ہے، اس کا کریڈٹ موجودہ حکومت کو نہ دینا ناانصافی کے زمرے میں آئے گا، تاہم اس کے بعض فیصلوں سے عوام کی مشکلات بے پناہ بڑھی ہے، ان کے سدباب کے لیے راست کوششیں وقت کی اہم ضرورت محسوس ہوتی ہیں۔ غریبوں کی لیے زندگی پہلے بھی مشکل تھی، اب بھی مشکل ترین سے کم نہیں۔ عوام کا درد اپنے دلوں میں محسوس کرنے والے حکمراں اُن کے مسائل کے سدباب کے لیے سنجیدہ اقدامات کرتے ہیں۔ غریب عوام دوست فیصلے ناگزیر ہیں۔ اس طبقے کو ریلیف کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ دوسری جانب ملک عزیز وسائل سے مالا مال ہے، اس کی آبادی میں نوجوان طبقہ 60 فیصد سے زائد ہے، بس ضرورت درست راہ پر گامزن رہنے اور ترقی اور خوش حالی کے لیے شبانہ روز محنت کرنے کی ہے۔ ملکی وسائل پر درست خطوط پر بروئے کار لایا جائے۔ نوجوانوں کو آسانیاں فراہم کی جائیں، تاکہ وہ ملکی ترقی میں اپنا بھرپور حصّہ ڈال سکیں۔ اگر ایسا کرلیا گیا تو ملک چند سال میں ناصرف ترقی یافتہ اقوام میں شامل ہوگا بلکہ یہاں خوش حالی کا دور دورہ نظر آئے گا۔
ڈنمارک میں پھر قرآن کی بیحرمتی کا مذموم واقعہ
دُنیا بھر میں اسلاموفوبیا کے رجحان میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ہر کچھ عرصے بعد بعض ناپاک عناصر کوئی نہ کوئی مذموم حرکت کر ڈالتے ہیں، جس سے عالم اسلام کے جذبات کو بُری طرح ٹھیس پہنچتی ہے۔ خاتم النبیین حضرت محمدؐ سے مسلمان سب سے زیادہ محبت اور عقیدت رکھتے ہیں، اُن کی شان میں گستاخی کے ناقابل برداشت واقعات سامنے آتے رہتے ہیں، اسی طرح مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن پاک کی بے حرمتی کی مذموم حرکتیں بھی سرزد ہوتی رہتی ہیں۔ افسوس ایسی مذموم حرکتوں کو آزادیٔ اظہار رائے کا چولا پہنانے کی کوششیں ہوتی ہیں، جو کسی طور قابل قبول قرار نہیں دی جاسکتیں۔ مسلمانوں نے کبھی کسی مذہب یا اس کی معتبر شخصیات سے متعلق کوئی ایسی بات نہیں کی، جس سے اُس کے ماننے والوں کی دل آزاری ہو۔ ہمیشہ مسلمانوں نے احترام انسانیت کو فوقیت دی اور دوسروں کے مذاہب کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھا۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ دینِ اسلام سے متعلق شدید نفرت رکھنے والے عناصر ایسی اوچھی حرکتیں کر ڈالتے ہیں، جو مسلمانوں کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہیں۔ آخر کیوں وہ مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ کیوں سوا ارب سے زائد مسلمانوں کی دل آزاری کی وجہ بن رہے ہیں۔ لگ بھگ تمام ہی ممالک ان واقعات کی مذمت کرتے ہیں، اس کے باوجود اُنہی کے ملکوں میں ایسی حرکتیں رونما ہوتی ہیں۔ عیدالاضحیٰ پر سویڈن سے قرآن پاک کی بے حرمتی کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، وہ اب ڈنمارک جا پہنچا ہے۔ڈنمارک میں ایک ہفتے کے دوران قرآن پاک کی بے حرمتی کا تیسرا واقعہ پیش آیا، جہاں کوپن ہیگن میں عراقی سفارت خانے کے بعد مصر اور ترکیے کے سفارت خانوں کے سامنے قرآن پاک کی بے حرمتی کی گئی۔ عراق، مصر اور ترکیے نے واقعے پر شدید احتجاج کیا اور یورپی ممالک سے نام نہاد آزادی اظہار اور نفرت انگیز مظاہرے کے حق پر فوری نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔ سعودی عرب، عراق، ترکیہ اور دیگر اسلامی ممالک نے اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔ پاکستان نے بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ٹویٹر پر پیغام میں شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ڈنمارک میں عراقی سفارت خانے کے سامنے قرآن مجید کی بے حرمتی سے دُنیا بھر میں مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے۔ پاکستان میں بھی اس واقعے سے متعلق انتہائی تشویش اور درد محسوس کررہے ہیں۔ تسلسل سے نفرت آمیز، گھنائونے واقعات کے پیچھے منفی حکمت عملی پوشیدہ ہے، مذہبی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کے ساتھ اسلاموفوبیا کو فروغ دیا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مختلف حکومتوں اور عقائد کے رہنمائوں سے اس کے خاتمے کے لیے بات کروں گا، بہکے لوگوں کو ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ان مذموم واقعات کے بعد مسلمانوں کے جذبات بُری طرح مجروح ہوئے ہیں۔ ان کا تدارک ناگزیر ہے۔ کسی بھی مذہب کی توہین نامناسب امر ہے اور اسے آزادیٔ اظہار رائے کا چولا پہنانا درست امر نہیں۔ سویڈن، ڈنمارک کو اپنی یہ روش ترک کرنی چاہیے۔ دوسری طرف حقوق انسانی کی چیمپئن ممالک اور ادارے ایسے مذموم واقعات کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کریں۔ او آئی سی بھی اس صورت حال کے سدباب میں اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کرائے اور اس پلیٹ فارم سے موثر انداز میں آواز بلند کی جائے، جس کے اثرات کے نتیجے میں اسلاموفوبیا کے رجحان میں کمی واقع ہوسکے۔