CM RizwanColumn

اب ڈالروں کی بارش ہوگی

سی ایم رضوان
جو لوگ اب حکومت اور فوج پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ سانحہ نو مئی کے واقعات روکنے کے لئے انتظامیہ اور فوجی اداروں نے حملہ آوروں کو بزور طاقت روکا کیوں نہیں؟ اور چونکہ انہوں نے بقول ان کے معصوم اور ورغلائے گئے سادہ لوح حملہ آوروں کو روکا نہیں، ان پر فائر نہیں کھولا اور چپ چاپ عسکری تنصیبات اور تبرکات جلتے ہوئے خاموش تماشائی کی طرح دیکھتے رہے، اس لئے یہ ادارے ان حملوں میں ملوث ہیں۔ اسی طرح آج اگر آئی ایم ایف پروگرام کی مدت ختم ہو جاتی اور اس سے نیا معاہدہ طے نہ پاتا تو انہوں نے موجودہ حکومت کو نااہل حتیٰ کہ ملک دشمن قرار دینے میں بھی دیر نہیں لگانی تھی کہ انہوں نے ملک کا دیوالیہ نکلوا لیا لیکن آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ نہیں کیا۔ اب جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے سرتوڑ کوششوں اور سول وعسکری قیادت نے مربوط لائحہ عمل پر کام کر کے آئی ایم ایف سے محدود عرصے کے سٹینڈ بائی معاہدہ طے کر لیا ہے تو بھی اس پر اطمینان اور خوشی کا اظہار کرنے کی بجائے یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ انہوں نے ملک کو مزید قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا ہے۔ حالانکہ اب اگر یہ معاہدہ نہ ہوتا تو آج ملک میں مہنگائی اور چور بازاری پر قابو پانا ناممکن ہو چکا ہوتا۔ ڈالر پانچ سو روپے تک پہنچ جاتا اور ملک میں خدا نخواستہ سری لنکا جیسے حالات عملاً پیدا ہو چکے ہوتے۔ ایسے میں ملک بھر کے سنجیدہ، محب وطن اور سمجھدار لوگ موجودہ وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی ٹیم کو مبارکباد دے رہے ہیں اور اس سٹینڈ بائی معاہدے کو کم از کم یہ سمجھ کر غنیمت قرار دے رہے ہیں کہ مقروض ہونا کم از کم دیوالیہ ہو جانے سے تو سو درجے بہتر ہے۔ دوسری طرف یہ بات بھی قوم کے ذہن میں رہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ یہ معاہدہ کوئی ترس کھا کر یا کل کلاں کو بلیک میل کرنے کے لئے یا من مانی شرائط پر طے نہیں کیا بلکہ پچھلے چند ہفتوں کے دوران پاکستان کے متبادل انتظامات اور پاکستان کے چین، سعودی عرب، امارات اور دیگر مخلص دوست ممالک کے پاکستان کے ساتھ مخلصانہ لین دین کو دیکھتے ہوئے کیا ہے۔ سری لنکا کے صدر کی حالیہ بروقت اطلاع اور پرخلوص مشورے کے باعث وزیراعظم شہباز شریف نے نہ صرف آئی ایم ایف کی سربراہ سے ون ٹو ون ملاقات کی اور اسے قائل کیا بلکہ یہ بھی یقین دلایا کہ وہ ذاتی طور پر ضامن ہیں کہ نہ صرف یہ معاہدہ شرائط کے مطابق مکمل کیا جائے گا بلکہ اس معاہدے کی تکمیل کے بعد نیا پانچ سالہ معاہدہ بھی بمطابق ضوابط کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ سابقہ ہفتوں میں روس سے پٹرول لیتے وقت پاکستان نے ادائیگی چائنیز کرنسی یوآن میں کی تھی اور نہ صرف یہ بلکہ چین نے بھی کھلی آفر دے رکھی ہے کہ آئندہ بھی جب بھی پاکستان کو جتنی رقم درکار ہو گی چین فراہم کرے گا۔ اس ضمن میں چین نے یہ آفر بھی کر رکھی ہے کہ پاکستان کو جب بھی اضافی ضرورت ہو گی مجوزہ پاک چین ایم ایل ون منصوبے کے لئے پاکستان کو غیر مشروط طور پر تمام رقم پیشگی ادا کر دی جائے گی اور یہ بھی پابندی نہیں ہوگی کہ اس مجوزہ منصوبی کو مقررہ وقت پر مکمل کیا جائے۔ اس نوعیت کی مالی معاونت اور سہولیات نہ صرف چین بلکہ سعودیہ، یو اے ای اور دیگر عرب ممالک سے بھی پاکستان کو حاصل ہے اور آئندہ بھی ہو سکتی ہیں۔ انہی تمام حقائق کی روشنی میں اب آئی ایم ایف کو محسوس ہو گیا ہے کہ پاکستان کو وہ جس قدر بھی تاخیر کا شکار کرے گا پاکستان کم از کم ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ دوسرا یہ کہ بالفرض اگر آئی ایم ایف اگلا پروگرام بھی پاکستان کے ساتھ طے نہیں کرے گا تو بھی پاکستان کی مالی حیثیت گرے گی نہیں۔ یاد رہے کہ یہ تمام مضبوط ضمانتیں اور مالی استحکام کی صورت حال پاکستان کو موجودہ رجیم کے برسراقتدار رہنے کی صورت میں حاصل ہوئی ہیں اور جب تک نواز شریف اور آصف علی زرداری جیسے باصلاحیت اور بین الاقوامی مضبوط روابط اور تعلقات رکھنے والے قائدین پاکستان کے معاشی معاملات کے محافظ اور ضامن ہیں پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا سوچنا بھی گناہ اور حماقت ہے۔ ان تمام حقائق کی روشنی میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تین ارب ڈالر کا سٹاف لیول کا یہ سٹینڈ بائی معاہدہ طے پا گیا ہے تاہم آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ سے ابھی اس معاہدے کی منظوری ہونا باقی ہے۔ آئی ایم ایف کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق ایگزیکٹو بورڈ کی طرف سے اس معاہدے کی منظوری جولائی کے وسط میں دیئے جانے کا امکان ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق یہ سٹینڈ بائی معاہدہ پاکستان کو حالیہ بیرونی دبائو کی شکار معیشت کو استحکام کی طرف لے جانے میں مدد دے گا۔ واضح رہے کہ پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لئے گزشتہ چند دنوں میں چند اقدامات اٹھائے گئے۔ بجٹ میں اضافی ٹیکس جمع کرنے کے فیصلوں کے علاوہ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے آئی ایم ایف کے اعلیٰ حکام سے متعدد بار رابطے بھی کئے گئے تھے اور پاکستان معاہدے کے لئے پیشگی اقدامات بھی اٹھا چکا تھا یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس اب یہ معاہدہ نہ کرنے کا کوئی بہانہ نہیں تھا۔ یاد رہے کہ آئی ایم ایف کی سربراہی ہمیشہ سے ہی امریکہ اور برطانیہ کے حمایت یافتہ ماہرین معاشیات کرتے ہیں اور وہ انہی دونوں ممالک کی سیاسی ضروریات، خواہشات اور ترجیحات کے مطابق ہر ملک کے ساتھ ڈیل کرتے اور شرائط طے کرتے ہیں اب جبکہ آئی ایم ایف کی موجودہ قیادت کو محسوس ہوا کہ پاکستان اگر چاہے تو وہ اس کے چنگل سے آسانی سے نکل کر بھی معاشی طور پر زندہ رہ سکتا ہے تو اس نے اپنے آقائوں کے مقاصد کے تحفظ کے لئے پاکستان کو چھوڑنا مناسب نہیں سمجھا۔ تبھی تو آئی ایم ایف کی جانب سے جاری مذکورہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اس معاہدے کے لئے پیشگی شرائط پر عملدرآمد کر چکا ہے۔ حالانکہ یہ سب بہت پہلے بھی ہو چکا تھا۔ مشن نے اس حوالے سے ٹیکس نیٹ ورک کو بڑھانے اور بجٹ کی منظوری کی مثالیں بھی دی ہیں۔ آئی ایم ایف نے پاکستان سے افراط زر کو قابو میں رکھنے کے لئے اقدامات اٹھانے پر بھی زور دیا ہے تا کہ عام آدمی پر بوجھ کم کیا جا سکے۔ آئی ایم ایف نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی بھی خصوصی تعریف کی ہے جس کے تحت غریب خاندانوں تک مدد کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ مشن نے یہ بھی تسلیم کر لیا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو متعدد جھٹکے لگے ہیں جس میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات نمایاں ہیں۔ آئی ایم ایف نے یہ امید بھی ظاہر کی ہے کہ اب پاکستان مختلف دیگر فورمز سے بھی قرضے حاصل کر سکے گا جس سے اسے معاشی استحکام کی طرف بڑھنے میں مدد مل سکے گی۔
پاکستان کے معاشی حالات کے تناظر میں آئی ایم ایف کے دو پروگرام بہت اہم ہیں۔ ایک سٹینڈ بائی ارینجمنٹ ( ایس بی اے) اور دوسرا ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلیٹی ( ای ایف ایف)۔ آئی ایم ایف کے مطابق سٹینڈ بائی ارینجمنٹ سے مراد ہے قلیل مدتی فنانسنگ کے ذریعے کسی ملک کی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات پوری کرنا۔ ایسے میں کم آمدنی والے ممالک کی اسی صورت میں مدد کی جاتی ہے اگر وہ ان مشکلات کو دور کریں جن کی بدولت انہیں فنڈنگ کی ضرورت پیش آئی تھی۔ اس قسم کی فنانسنگ کی مدت 12سے 24ماہ تک ہوسکتی ہے مگر 36ماہ سے تجاوز نہیں کر سکتی جبکہ فنانسنگ کی رقم ساڑھے تین سے پانچ سال میں لوٹائی جاتی ہے۔ ایس بی اے، آئی ایم ایف کا ترقی پذیر معیشتوں کے لئے مرکزی منصوبہ ہوتا ہے۔ عموماً یہ ان ملکوں کو دیا جاتا ہے جنہیں کم وقت میں ادائیگیوں میں توازن لانے کے لئے قرض کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی شرح سود عالمی مارکیٹ کے مطابق ہوتی ہے لیکن آئی ایم ایف کے مطابق یہ ہمیشہ دوسرے نجی قرضوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔ وہ ممالک جنہوں نے آئی ایم ایف سے اصلاحاتی قرض لیا ہو لیکن اس کی شرائط میں طے کیے گئے ہدف پورے نہ کر سکیں تو انہیں سہارے کے لئے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت مزید قرض دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس ای ایف ایف وسط مدتی پروگرام ہے جس کا مقصد صرف ادائیگیوں میں توازن نہیں بلکہ اس کی خاص توجہ ملک کے معاشی ڈھانچے میں اصلاحات پر بھی ہوتی ہے۔ یہ منصوبہ تین سال کا ہوتا ہے لیکن اسے ایک برس تک کی توسیع مل سکتی ہے جبکہ رقم کی واپسی چار سے دس سال کے عرصے میں کی جاتی ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق ملک کی معیشت کی خراب صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ٹھیک راہ پر لانے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے اصلاحات ضروری ہیں جس کے لئے وقت درکار ہوتا ہے اسی وجہ سے ای ایف ایف کا دورانیہ زیادہ ہے۔ ماہرین کے مطابق ایس بی اے کی مدت بھی کم ہوتی ہے، اس میں شرائط بھی کم ہوتی ہیں اور یہ اس وقت دیا جاتا ہے جب آپ پہلے سے اصلاحاتی پروگرام پر چل رہے ہوتے ہیں لیکن اس کو مکمل کرنے کے لئے آپ کو کچھ مزید مدد چاہیی ہو۔ تاہم ماہرین کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے اس پروگرام کی بحالی کے بعد بھی عوام پر مزید بوجھ پڑے گا۔ پاکستان اور آئی ایم ایف مذاکرات میں بجلی کی قیمت میں اضافہ شامل ہے۔ اسی طرح پٹرولیم مصنوعات پر لیوی زیادہ وصول کرنا بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ پروگرام کی ان شرائط کے تحت پاکستان پہلے ہی بجلی و گیس کے نرخ بڑھا چکا ہے جبکہ اضافی ٹیکس اکٹھا کرنے کے لئے تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس اور پٹرولیم مصنوعات پر لیوی کی مد میں زیادہ ٹیکس وصول کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی شرح سود میں بھی مزید اضافہ ہو گا اور اس کا مجموعی اثر عوام پر مزید مہنگائی کے بوجھ کی صورت میں پڑے گا جو کہ پہلے ہی مہنگائی کی بلند شرح میں پس رہے ہیں کیونکہ پاکستان میں ماہ مئی کے اختتام پر 38فیصد کی بلند شرح مہنگائی تھی جو پاکستان کی تاریخ میں کسی ایک مہینے میں مہنگائی کی بلند ترین شرح ہے۔ مہنگائی کی زیادتی اور عوام کی موجودہ تمام تر خراب صورتحال کے باوجود اب آئی ایم ایف کے اس معاہدے اور دوست ممالک کے وعدوں کی تکمیل کی صورت میں امید کی جاتی ہے کہ پاکستان پر آئندہ مہینوں میں ڈالروں کی بارش ہو گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button