Columnعبدالرشید مرزا

یہ بازی کس نے ہاری ہے

عبد الرشید مرزا

کراچی کے مئیر کے لئے انتخابات ہوئے۔ نتائج دیکھ کر مجھے تو کراچی کے مظلوم عوام کا تاریک مستقبل نظر آیا، ایسے لگتا ہے کرپشن کی وجہ سے جن لوگوں نے پاکستان کی معیشت کو دیوالیہ ہونے کے قریب کر دیا، کراچی پر پھر وہ ہی حکمرانی کریں گے۔ ایسے سوچتے سوچتے جہاں مجھے حافظ نعیم الرحمان جیسے دیانتدار، محنتی اور کراچی کے حقوق کی جنگ لڑنے والا شخص نظر آیا تو احمد فراز کی نظم یاد آگئی:
کب یاروں کو تسلیم نہیں، کب کوئی عدو انکاری ہے
اس کوئے طلب میں ہم نے بھی دل نذر کیا جاں واری ہے
جب ساز سلاسل بجتے تھے ، ہم اپنے لہو میں سجتے تھے
وہ رِیت ابھی تک باقی ہے ، یہ رسم ابھی تک جاری ہے
زخموں سے بدن گلزار سہی پر ان کے شکستہ تیر گنو
خود ترکش والے کہہ دیں گے یہ بازی کس نے ہاری ہے
کس زعم میں تھے اپنے دشمن شاید یہ انہیں معلوم نہیں
یہ خاکِ وطن ہے جاں اپنی اور جان تو سب کو پیاری ہے
ایسے لگا جیسے حافظ نعیم الرحمان ہار کر بھی جیت گئے، پاکستان پیپلز پارٹی کے نامزد مرتضیٰ وہاب میئر کراچی منتخب ہو کر بھی ہار گئے۔ پاکستان کی سیاست پر نظر ڈالیں تو اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی ریت کوئی نئی نہیں ۔ 1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ پارٹی قومی اسمبلی کی 313نشستوں میں سے 167پر کامیابی حاصل کر کے اکثریتی جماعت بنی تھی جبکہ اس کے مد مقابل پیپلز پارٹی صرف 80نشستیں ہی حاصل کر پائی، تاہم عوامی لیگ کی اکثریت کو تسلیم نہ کیا گیا اور اقتدار عوامی لیگ کے حوالے نہ کیا اور نتیجتأ ملک دو لخت ہو گیا۔ آج بھی پیپلز پارٹی کی قیادت کا کردار ملک کو تباہی کی طرف لے کر جارہا ہے۔ اگر سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پیپلز پارٹی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے فن میں ماہر سمجھی جاتی ہے اور موجودہ دور میں سابق صدر آصف علی زرداری کو سیاسی جوڑ توڑ کا ماہر ترین کھلاڑی سمجھا جاتا ہے۔ مرتضیٰ وہاب کی کامیابی انتخابی عمل یا چند روز کا قصہ نہیں بلکہ ایک جامع منصوبہ بندی نظر آتی ہے کہ پہلے پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات کے حوالے ٹال مٹول کرتی رہی اور حتیٰ الامکان کوششیں کی گئیں کہ انتخابات تاخیر کا شکار ہوں۔ پیپلز پارٹی پر نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے بھی الزام لگایا گیا کہ ان حلقہ بندیوں سے صرف پیپلز پارٹی کو ہی فائدہ پہنچا جبکہ ایم کیو ایم، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتوں کو ان حلقہ بندیوں سے نقصان ہوا۔ ایسے لگتا ہے ملک کے ہر طبقہ، وہ صحافی ہوں یا سیاستدان، کسی کو بھی پیپلز پارٹی کی قیادت کی بددیانتی پر مبنی ادا پسند نہیں آئی، تجزیہ کار طلعت حسین کہتے ہیں کہ کراچی سونے کا انڈا دینے والی مرغی ہے، تاہم مرغی کا گلا نہیں مروڑا جاتا۔ پیپلز پارٹی نے میئر شپ کے لیے سیاسی طور پر بڑی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ ایک بڑی سیاسی جماعت کے طور پر پیپلز پارٹی کو جمہوری طرز عمل کے تحت جس کے زیادہ نمبر تھے اسے آنے دینا چاہیے تھا۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ 36کروڑ روپے میں میئر کراچی کا عہدہ پیپلز پارٹی کے لیے برا سودا نہیں ہے۔ سینئر صحافی مظہر عباس نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے لیے سادہ اکثریت کے بغیر معاملات کو لے کر چلنا آسان نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے غائب ارکان کے منظر عام پر آنے کے بعد اور کیا انہوں نے اپنا الگ فاروڈ گروپ بنا لیا ہے؟۔
سندھ کو موہنجو داڑو کے کھنڈرات سے بھی بدتر حالت میں پہنچانے والی سندھ کے چند اندرونی اضلاع کے وڈیروں کی پارٹی پیپلز پارٹی نے کراچی میں عالمگیر انقلاب اسلامی کی داعی جماعت اسلامی کے ’’مینڈیٹ‘‘ پر شب خون مارتے ہوئے میئر و ڈپٹی میئر کے عہدہ ہتھیا لئے۔ بلدیاتی انتخابات کے حتمی نتائج کے مطابق مخصوص نشستیں ملا کر پیپلز پارٹی کو کراچی میں 155، جماعت اسلامی کو 130، تحریک انصاف 63، مسلم لیگ 14، جے یو آئی 4، ٹی ایل پی کو ایک سیٹ ملی۔ میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخابات میں پی پی پی کو 173ووٹ ملے جبکہ جماعت اسلامی کو 160۔ پی پی پی کو ن لیگ کے 14اور جے یو آئی کے 4ووٹ ملے جبکہ جماعت اسلامی کو تحریک انصاف کے 63ووٹوں میں سے صرف 30ووٹ ملے،30ارکان غیر حاضر تھے۔ جماعت اسلامی نے دعویٰ کیا کہ پی پی پی نے انہیں اغوا کرلیا۔ عمران خان سے ملاقات کے بعد سے حافظ نعیم الرحمان اور جماعت اسلامی کے پاس 194ووٹ تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کب تک کرپٹ عناصر منتخب نمائندوں کی بولیاں لگاتے رہیں گے۔ کراچی مملکت کی اہم معاشی شہ رگ ہونے کے ناتے معیشت کی عالمگیریت کو جرائم پیشہ عناصر کے رحم و کرم پر رہنے پر مجبور بھی رہا ہے۔ عام جرائم کے ساتھ ساتھ غیر قانونی پرتشدد سرگرمیاں جن کا مقصد روزمرہ زندگی کے لئے پیسے کا حصول ہے، سیاست کو جرائم کے ساتھ بھی جوڑتا نظر آتا ہے۔ کراچی پاکستان کا معاشی اور مالیاتی دارالحکومت ہے، یہ جانتے ہوئے کہ اس میں ملک کی کل آبادی کا 10فیصد شامل ہے، جی ڈی پی میں کراچی 28فیصد حصہ دیتا ہے، وفاق میں 60فیصد ریونیو اور صوبہ سندھ میں 70فیصد حصہ شامل کرتا ہے، شہر قائد کے معاشی اور مالیاتی کردار میں کئی دہائیوں سے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ کراچی بلکہ پاکستان کی عالمی دہشت گردی کی پناہ گاہ کے طور پر امیج کے خراب ہونے سے رک جانے والی سرمایہ کاری ابھی تک بحال نہیں ہو سکی۔ گو کہ پاکستان اہم سمندری بندرگاہ اور پورٹ بن قاسم کا وجود کھنے کے باوجود ان ثمرات سے حقیقی معنوں میں وہ فائدہ نہیں اٹھا سکا، جو کراچی اور پاکستان کا حق تھا۔ اس کی بنیادی وجہ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم ہیں۔ جن کے لئے حبیب جالب نے کیا خوب فرمایا تھا:
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں
تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button