
سی ایم رضوان
منافقت میں لتھڑا دوست نما دشمن یعنی امریکہ اور ازلی دشمن بھارت جب مل بیٹھیں اور بیٹھ کر پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کریں اور اس پراپیگنڈے پر مبنی بیانات بھی عالمی میڈیا میں جاری کر دیں تو پاکستان اور پاکستان کے محبوں کو کس قدر اذیت اور تکلیف ہوتی ہے اس کا اندازہ آج ہر محب وطن پاکستانی کو بخوبی ہو رہا ہے کیونکہ گزشتہ روز انڈین وزیر اعظم نریندر مودی اور امریکی صدر جوبائیڈن نے ایک ملاقات کے بعد وائٹ ہائوس کی جانب سے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں سرحد پار دہشتگردی اور مبینہ طور پر پراکسی گروہوں کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ یہ یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین دہشتگرد حملوں کے لئے استعمال نہیں کی جائے گی۔ اس اعلامیے میں کالعدم تنظیموں القاعدہ، داعش، لشکرِ طیبہ، جیشِ محمد اور حزب المجاہدین کے خلاف سخت کارروائی کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے ردعمل کے طور پر کہا ہے کہ ہمیں اس بات پر حیرانی ہے کہ انسداد دہشتگردی پر امریکہ کے ساتھ تعاون کے باوجود اس حوالے کو بیان کا حصہ بنایا گیا۔ دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں اور ملک کی مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنی جانیں دے کر مثال قائم کی ہے۔ بین الاقوامی برادری بھی بارہا پاکستان کی ان کوششوں اور قربانیوں کا اعتراف کر چکی ہے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ہم یہ دیکھنے سے قاصر ہیں کہ مشترکہ بیان میں کیے جانے والے دعووں سے دہشتگردی کے خلاف لڑنے کا عالمی عزم کیسے مضبوط ہو گا۔ امریکہ، انڈیا کے اس مشترکہ بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشتگردی کی عفریت کو ہرانے کے لئے جس تعاون کی ضرورت ہے اسے جیو پولٹیکل ضروریات کی وجہ سے قربان کر دیا گیا ہے۔ دفتر خارجہ نے کہا کہ ریاستی دہشتگردی کی سرپرستی کے علاوہ انڈیا نے اپنے ملک میں اقلیتوں سے ہونے والے سلوک اور کشمیر میں عوام پر جبر سے توجہ ہٹانے کے لئے دہشتگردی کا بہانہ استعمال کیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس مشترکہ اعلامیہ میں خطے میں عدم استحکام اور تنائو پیدا کرنے والے اہم ذرائع کی نشاندہی نہیں کی گئی نہ ہی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا احاطہ کیا گیا جو بین الاقوامی ذمہ داری سے روگردانی کے مترادف ہے۔ پاکستان نے امریکہ کی جانب سے انڈیا کو جدید عسکری ٹیکنالوجی کی منتقلی پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسے اقدامات خطے میں عسکری عدم توازن میں اضافہ کریں گے اور سٹریٹجک استحکام کو متاثر کریں گے۔
واضح رہے کہ یہ اعلامیہ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کے چار روزہ دورہ امریکہ کے دوران جاری کیا گیا۔ قبل ازیں وائٹ ہاس میں مودی کے استقبال کے دوران 21توپوں کی سلامی دی گئی۔ اس اعلامیے میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( ایف اے ٹی ایف) سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی فنڈنگ کے خلاف عالمی سطح پر عملداری کو مزید موثر بنایا جائے۔
یاد رہے کہ یہ وہی مودی ہے جس کی وزیر اعظم بننے سے قبل امریکہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بنا پر اسے ویزا دینے سے انکار کیا تھا۔ تاہم منافقت ملاحظہ ہو کہ اب امریکہ کے لئے وہ ایک اہم اتحادی بن گیا ہے۔ بات سمجھ آ رہی ہے کہ انڈو پیسیفک خطے میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے واشنگٹن نے تاریخی اعتبار سے انڈیا کے ساتھ قربتیں بڑھائی ہیں۔ تاہم زہریلا سانپ دلی امریکہ سے تعلقات کو اس تناظر میں نہیں دیکھتا۔ کانگریس سے خطاب کے دوران اگرچہ مودی نے چین کا نام نہیں لیا تاہم یہ ضرور کہا کہ دبا اور جھگڑے کے کالے بادل انڈو پیسیفک میں اپنے سائے چھوڑ رہے ہیں۔ اس خطاب میں مودی نے روس کا نام بھی نہیں لیا جس نے یوکرین کے ساتھ جنگ شروع کی مگر یہ ضرور کہا کہ یوکرین تنازع کے ساتھ یورپ میں جنگ لوٹ آئی ہے۔ واضح رہے کہ روایتی منافقت سے کام لیتے ہوئے انڈیا نے اب تک اس جنگ پر روس پر تنقید نہیں کی۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ بھارت کا روسی دفاعی درآمدات پر انحصار ہے۔ البتہ اس جنگ نے واشنگٹن اور دلی کے درمیان تعلقات کو ضرور متاثر کیا ہے۔ لیکن بائیڈن نے بھی منافقت سے کام لیتے ہوئے اس دورے کے صرف مثبت پہلوئوں پر توجہ دی اور کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اب تک کی سب سے مضبوط سطح پر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ 21ویں صدی کے سب سے معنی خیز رشتوں میں سے ایک ہے۔ یہاں معنی خیزی کا مطلب منافقت ہی ہے جس کا نہ صرف جوبائیڈن نے اعتراف کیا بلکہ مودی نے بھی اس سے اتفاق کیا اور کانگریس کو بتایا کہ دونوں ملکوں کی دوستی پوری دنیا میں مضبوطی بڑھانے کا سبب بنے گی اور دونوں ملکوں کی عالمی و علاقائی شراکت کے لئے یہ ایک نیا موڑ ہے۔
تاہم ہر کسی نے اس دورے کا اسی جذبے سے جشن نہیں منایا۔ ناقدین کے خلاف کارروائیوں کی بنا پر انڈین وزیر اعظم تنقید کی زد میں ہے۔ اس کی ہندو قوم پرست حکومت پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے اقلیتوں کے خلاف پُرتشدد واقعات اور استحصال روکنے کے لئے ناکافی اقدام کئے ہیں۔ مودی کے دورے کے دوران امریکہ میں مظاہرے بھی ہوئے۔ وائٹ ہائوس کے باہر ایک احتجاج میں شرکا نے اس کی امریکہ آمد اور ریاستی پروٹوکول ملنے کی مخالفت کی۔ ڈیموکریٹ پارٹی کے کئی آزاد خیال ارکان نے کانگریس میں اس کی تقریر کا بائیکاٹ کیا۔ ان میں الیگزینڈرا اوکاسیو کورٹیز شامل تھیں جنہوں نے ٹوئٹر پر کہا کہ امریکہ میں اعلیٰ سفارتی پروٹوکول پر مبنی ریاستی دورے کی دعوت ایسے افراد کو نہیں دی جانی چاہیے جن کا انسانی حقوق کے اعتبار سے پریشان کن ریکارڈ ہے۔ دورہ میں تقاریر اور پریڈ کے علاوہ تجارتی میدان میں بھی پیشرفت ہوئی۔ دونوں ملکوں نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں جاری چھ مقدمات ختم کرنے پر اتفاق کیا جبکہ جنرل الیکٹ اور میکرون کے ساتھ معاہدوں کا اعلان کیا گیا۔ تاہم مودی، جس کو 2014ء میں انڈیا کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے لے کر آج تک امریکہ میں پریس کانفرنس کی جرات نہیں ہوئی تھی نے صحافیوں سے سوال جواب میں حصہ لے کر بعض امریکیوں کو ناگوار حیرت میں مبتلا کر دیا۔ جب اس سے انڈیا میں انسانی حقوق کی پامالی پر پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ میں حیران ہوں کہ آپ کہتے ہیں کہ لوگ ایسا کہتے ہیں۔ انڈیا ایک جمہوری ملک ہے۔ جمہوریت ہماری رگوں میں بستی ہے اور ملک میں امتیازی سلوک کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ مودی کے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق امریکی صدر براک اوباما نے کہا کہ ہندو اکثریتی انڈیا میں مسلم اقلیت کی سکیورٹی قابل ذکر ہے۔ اگر وہ اس وقت صدر ہوتے تو مودی سے بات کرتے اور انہیں سمجھاتے کہ اگر آپ نے اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہ کیا تو مستقبل میں انڈیا میں تقسیم پیدا ہونے کا امکان ہے۔
دنیا کے آزاد اور غیر جانبدار مبصر امریکہ، بھارت کے اس مشترکہ اعلامیے کو خطے میں استحکام کے لئے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ کشیدگی اور عدم استحکام کے کلیدی ذرائع پر توجہ دیئے بغیر جاری کردہ یہ مشترکہ اعلامیہ پہلے سے کشیدہ صورتحال کو مزید بڑھاوا دینے کے مترادف قرار دیئے جارہے ہیں۔ مبصرین دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ پیش رفت کو خطے میں امن کی کوششوں کے لئے غیر سودمند قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان بھارت میں دہشت گردی کرنے والوں کی حمایت کے الزام کو مسترد کرنے کے علاوہ ہمیشہ سے یہ کہتا آیا ہے کہ وہ اپنے ہاں موجود تمام عسکریت پسندوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ امریکہ اور انڈیا کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ان کے ایسے بیانات کوئی وقعت نہیں رکھتے اور پاکستان کشمیر میں بھارتی فورسز کی طرف سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر آواز بلند کرتے ہوئے کشمیریوں کی سفارتی حمایت جاری رکھے گا اور حق خود ارادیت کی جدوجہد کو دہشت گردی اور ان کی حمایت کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیا جانا اس کے لئے ناقابل قبول ہے۔ گو کہ امریکہ باہمی کشیدگی کو کم کرنے کے لئے پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کے عمل پر زور دیتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی کے اپنے موقف کو دہراتا آیا ہے لیکن امریکہ اور انڈیا کا تازہ ہتھکنڈہ امریکہ کی غیر جانبداری پر مہر تصدیق ثبت کر رہا ہے۔ موجودہ حالات میں امریکہ کا بھارت کی طرف جھکائو خطے کی سلامتی کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے امریکہ کی جانبداری کی بو آتی ہے۔ اگر امریکہ پاکستان اور بھارت کے معاملات میں اور کشمیریوں کی حق خودارادیت کی جنگ میں مزید غیر جانبدار نہ رہا تو خطے میں امن و استحکام کے لئے اس کا اپنا کردار مشکوک ہو جائے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کی طرف سے بھارت کی جانب جو جھکائو اوباما اور ٹرمپ انتظامیہ کے دور سے چلا آ رہا تھا اس میں موجودہ جوبائیڈن دور میں تبدیلی نہیں آئی اور اس مشترکہ اعلامیے سے جنوبی ایشیا کے استحکام اور سلامتی کو خطرہ ہے۔ امریکہ کی طرف سے پاکستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں عدم توازن کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہوگا۔ تاہم پاکستان کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ متوازن تعلقات ہوں۔ دونوں ممالک کے امریکہ سے تعلقات صحیح رہیں، پڑوسیوں سے بھی درست رہیں لیکن جس طرح سے چیزیں آگے بڑھ رہی ہیں یہ نہ تو امریکہ کے لئے اچھا ہے نہ ہی بھارت کے لئے اور نہ ہی اس خطے کے لئے۔ انسانی حقوق کے ٹھیکیدار امریکہ کو کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی جانب سے جاری انسان دشمنی کا نوٹس لینا چاہئے اور مودی کا استقبال کرنے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ وہ گجرات کے اس قصاب کا استقبال کر رہے ہیں جس کے دامن پر سیکڑوں بے گناہ انسانوں کے مذہب کے نام پر خون کے چھینٹے ہیں۔ مودی کو بھی شرم آنی چاہیے کہ وہ امریکہ میں بیٹھ کر کس منہ سے بھارت میں جمہوریت کی موجودگی کا دعویٰ کرتا ہے۔ جس بھارت میں نہ کوئی سکھ محفوظ ہے اور نہ ہی مسلمان۔