ColumnImtiaz Ahmad Shad

وَتُعِزُّ مَنْ تَشَائُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَائُ ۔۔ امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ ( اے حبیبؐ! یوں) عرض کیجئے: اے اللہ، سلطنت کے مالک! تو جسے چاہے سلطنت عطا فرما دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے‘‘ ( آل عمران:26) فارسی کی مشہور ضرب المثل ہے کہ ’’ ہر عروج کو زوال اور ہر زوال کو عروج ہے‘‘۔ اسی فلسفے کے تحت قوموں اور تہذیبوں کا عروج و زوال بھی ایک فطری عمل ہے جس میں ہر دور کے اعتبار سے کئی اسباب و عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ انسانی تاریخ قوموں کے عروج و زوال کی ان گنت مثالوں سے بھری پڑی ہے، مثلاً بنی اسرائیل دنیا کی معزز و معتبر قوم تھی جس پر انعامات ِ خداوندی کی کثرت سے فراوانی تھی لیکن جب وہ نفس پرستی اور دینی و اخلاقی طور پر دیوالیہ پن اور قوانین و حدود الٰہی سے بغاوت کی مرتکب ٹھہری تو مغلوب ہو گئی۔ قرآن کریم نے بنی اسرائیل کی سرگزشت اور دیگر اقوام کے عروج و زوال کے واقعات بڑی صراحت سے بیان فرمائے ہیں جو آج بھی اقوامِ عالم کیلئے عبرت ہیں۔ اسی طرح روما سلطنت تقریباً ایک ہزار سال قائم رہنے کے باوجود بالآخر زوال پذیر ہوئی جس کی کئی سماجی اور معاشی و اقتصادی وجوہات تھیں۔ علاوہ ازیں ایسی اقوام کی طویل فہرست ہے جنہوں نے عروج کے بعد اپنی بد اعمالیوں اور کمزوریوں کے سبب زوال کا مزہ چکھا۔ علامہ عبدالرّحمٰن ابنِ خلدون لکھتے ہیں: جس طرح انسان پہلے بچپن پھر جوانی اور بڑھاپے کے ادوار سے گزرتا ہے اسی طرح اقوام بھی اسی نشیب و فراز سے گزرتی ہیں، جس طرح زندگی کیلئے موت شرط ہے اسی طرح قوموں پہ عروج و زوال لازم ہے ۔ مزید آگے ابنِ خلدون لکھتے ہیں کہ ’’ لوگوں کی خوشحالی یا پریشانی قوموں کے عروج و زوال میں بنیادی وجہ ہوتی ہے۔ ابن خلدون کے مطابق صرف معاشی تغیر ہی نہیں بلکہ اخلاق، انسٹیٹیوٹ، نفسیاتی پریشر، سیاست، سماجی اور جغرافیائی عناصر تاریخ کے دھارے کو بدلتے ہیں یا زوال کی وجہ بنتے ہیں‘‘، جب کسی قوم میں بدعملی، بدخلقی اور نا انصافی اجتماعی طور پر آ جائے تو تباہی و بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’ اور یقیناً ہم نے تم سے پہلے کتنے ہی زمانوں کے لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا جب انہوں نے ظلم کئے حالانکہ ان کے پاس ان کے رسولٌ کھلے کھلے نشانات لے کر آئے اور وہ ایسے تھے ہی نہیں کہ ایمان لے آتے۔ اسی طرح ہم مجرم قوم کو جزا دیا کرتے ہیں‘‘ (سورۃ یونس: 14)۔ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں پر ایک ایسا دور گزرا ہے جب وہ علمی و فکری، ادبی و سائنسی، سماجی و اخلاقی اور تہذیبی و ثقافتی لحاظ سے بامِ عروج پر تھے اورعلم و حکمت، آرٹ، فنونِ لطیفہ، ایجادات، طرزِ حکومت و معاشرت، آئین سازی، جمہوریت، ریاستی نظم و نسق اور فتوحات کے میدان میں دنیا کو لیڈ کر رہے تھے اور یہ مسلم نشا ثانیہ کا دور تھا لیکن آہستہ آہستہ مسلمان زوال کی طرف بڑھنے لگے۔ مسلمانوں کا باقاعدہ زوال 11ویں صدی ہجری میں شروع ہو ا جس کے کئی اسباب اور وجوہات تھیں۔ محققین کے مطابق کمزور سیاسی و دفاعی منصوبہ بندی، علوم و ایجادات کی سرپرستی کرنے سے غَفلت، اخلاقی اقدار کی نا پاسداری، بد دیانتی، سستی و کاہلی، ترکِ فرض، بہت حد تک آمدنی اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، امت مسلمہ میں تضاد اور بے جا اختلاف مسلم اُمہ کے زوال کی بنیادی وجوہات ہیں۔ 57ممالک، کثیر زرمبادلہ، کثیر معدنی وسائل، کثیر ہیومن ریسورس، بہترین بری، فضائی و بحری افواج کے باوجود آج اُمتِ مسلمہ بحیثیتِ مجموعی زوال و پستی کا شکار ہے جس کی وجہ اپنے عظیم الشان ماضی اور اسلام کی تعلیمات و سنہری اصولوں سے غفلت و بیگانگی ہے۔ اسی لیے دوسری اقوام مسلمانوں پر سیاسی، معاشی و اقتصادی لحاظ سے غالب ہیں۔ مسلمان کم و بیش ایک ہزار سال تک دنیا کی ایک بڑی طاقت رہے ہیں۔ علم و حکمت، تدبیر و سیاست اور دولت و حشمت میں کوئی قوم اُن کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ وہ پوری دنیا پر حکومت کر رہے تھے۔ یہ بادشاہی خدا نے اُنہیں دی تھی اور خدا ہی نے اْن سے چھین لی ہے۔ َپاکستان میں اپنی اپنی انائوں میں قید افراد کو غور کرنا چاہئے کہ کتنی بڑی بڑی سلطنتیں گزریں جن کے زمانے میں کوئی تصور بھی نہ کر سکتا تھا کہ یہ بھی کبھی فنا ہوں گی لیکن اللہ، مالکْ الملک کی زبردست قوت وقدرت کا ایسا ظہور ہوا کہ آج ان کے نام و نشان مٹ گئے۔ یونان کا سکندرِ اعظم، عراق کا نمرود، ایران کا کسریٰ ونوشیرواں، ضحاک، فریدوں، جمشید، مصر کے فرعون، منگول نسل کے چنگیز اور ہلاکو خان بڑے بڑے نامور حکمران اب صرف قصے کہانیوں میں رہ گئے اور باقی ہے تو رب العالمین کا نام اور حکومت باقی ہے اور اسی کو بقا ہے۔ پاکستان آج جن تکلیف دہ مسائل کا شکار ہے یا عذاب میں مبتلا ہے تو یہ کسی کی سازش نہیں بلکہ ہماری معاشرتی ناانصافیوں کا نتیجہ ہے۔ نبی کریمؐ کے طرز زندگی میں جو تعلیمات ہماری فلاح و بہبود کیلئے موجود ہیں، ہم انہیں ہر سطح پر رخصت کئے جا رہے ہیں۔ صورت حال اس قدر بھیانک ہے کہ مساجد و خانقاہ بھی اب اس نعمت سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ جھوٹ، بددیانتی، غبن، خیانت، چوری، غصب، ملاوٹ، سود خوری، ناپ تول میں کمی، بہتان طرازی، وعدے کی خلاف ورزی اور انصاف کا قتل عام ہمارے معاشرے میں اِس قدر عام ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ بنی اسرائیل کے یہی جرائم تھے جن کی بنا پر اللہ کے نبیوںٌ نے اُن پر لعنت کی تھی اور وہ ہمیشہ کیلئے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور کر دئیے گئے۔ اس کے باوجود اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ نے واضح پیغام دیا کہ’’ اور نہ سستی کرو اور نہ غم کھائو تم ہی غالب آئو گے اگر ایمان رکھتے ہو‘‘ ( آل عمران:139) اس وقت پاکستان پر انتہائی مشکل وقت ہے اور یقینا یہ بھی گزر جائے گا مگر تاریخ میں وہی زندہ رہیں گے جو درست سمت پر کھڑے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے اعمال کئے ان کا رب ان کے ایمان کے سبب ان کی رہنمائی فرمائے گا ‘‘ ( یونس ۹)۔ یاد رہے تباہی اور بربادی کا سامان مہیا کرنے والے یقینا بے نام نشان رہیں گے جیسے پہلے والے گم نام ہو گئے۔ ظالم کو ہمیشہ یہ گمان ہوتا ہے کہ وہ ناقابل شکست ہے اور وہ اس زعم کا شکار ہو جاتا ہے کہ کوئی بھی اس کے سامنے نہیں رک سکتا۔ شاید اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ خانہ کعبہ پر حملہ آور ابراء کو بھی یہی زعم تھا مگر اللہ تعالیٰ نے چھوٹے چھوٹے پرندوں کے ذریعے اس کا اور اس کے لشکر کا نام و نشان ختم کر دیا۔ ریاست کی تباہی اور بربادی کی آخری اور حتمی نشانی یہ ہوتی ہے کہ عوام خود کو اس ریاست میں غیر محفوظ تصور کرتے ہیں اور اسی عدم تحفظ کے نتیجے میں وہ ایسا عمل ریاست کے خلاف کر جاتے ہیں جو شاید اس ریاست کے دشمن بھی نہیں کر سکتے۔ طاقت کا بے جا استعمال ریاست کو کمزور کرتا ہے اور کمزور ریاستیں سوائے زمین کے ٹکڑے اور عوامی ہجوم کے کچھ نہیں ہوا کرتی جنہیں دنیا بوجھ تصور کرتی ہے۔ سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اور ایمان والوں کو خوشخبری دیدو کہ ان کے لیے اللہ کا بڑا فضل ہے۔ اللہ پاک ہمیں زندگی میں ایمان پر استقامت اور مرتے وقت ایمان پر خاتمہ نصیب فرما کر ان بشارتوں سے مشرف فرمائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button