Columnمحمد مبشر انوار

جمہوریت اور سیاستدان ۔۔ مبشر انوار

محمد مبشر انوار( ریاض)

طرز حکومت کوئی بھی ہو، بنیادی مقصد جمہور کی خدمت اور معاشرے کی فلاح ہی مدنظر رہتی ہے حتی کہ دور جدید میں بادشاہت یا ملوکی طرز حکومت بھی اقوام عالم کے دبائو پر عوامی فلاح و بہبود کے لئے مجبور نظر آتی ہے۔ ماضی قدیم ؍ زمانہ جاہلیت کے برعکس کہ جہاں بادشاہ فقط ذاتی مفادات بلکہ خواہشات کے پیش نظر کوئی بھی ایسا قانون بنانے میں آزاد نظر آتے ہیں جس سے مفاد عامہ کا کوئی بھی پہلو نظر نہ آتا ہو۔ بہر کیف موجودہ جمہوری نظام کا سہرا برطانوی عوام کو جاتا ہے کہ جنہوں نے صدیوں کی جہد مسلسل کے بعد جمہوریت کو یہ شکل دی ہے کہ آج طرز حکومت کوئی بھی ہو، حکمران مفاد عامہ کے متعلق سوچنے اور پالیسیاں بنانے پر مجبور ہیں۔ موجودہ جمہوری اقدار میں حکمرانوں کی جوابدہی کا عنصر بہر طور اسلامی دور حکومت اور اسلامی عقائد سے لیا گیا ہے کہ اس کے بغیر عوامی مفادات کی نگہبانی کا تصور ممکن ہی نہیں جبکہ کئی ایک محکموں کی جدید شکل بھی بہر صورت اسلامی نظام حکومت سے ہی لی گئی ہیں جنہیں مسلم حکمران اور ریاستیں ترک کر کے قعر مذلت میں گری نظر آتی ہیں تاہم یہاں ایسی ریاستیں مستثنیات میں سے ہیں کہ جو ملوکیت طرز حکومت پر قائم ہیں لیکن دور حاضر کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے، اپنے عوام کے لئے تما م تر سہولیات و آسائشیں و مواقع فراہم کرنے میں کسی بھی طرح جمہوری ممالک سے پیچھے نہیں اور نہ ہی اس میں کسی بخل کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہیں لہٰذا کسی بھی ریاست میں میسر سہولیات، آسائشیں یا مواقعوں کو جمہوریت سے مشروط کرنا بہر طور مناسب نہیں سمجھتا البتہ ان کی دستیابی کو حقیقتاً حکمرانوں کی دور اندیشی، خلوص نیت سے ضرور مشروط سمجھتا ہوں۔ خوش قسمتی سے پاکستان جمہوری اقدار سے معرض وجود میں آنے والا ملک ہے لیکن اس کی بدنصیبی ایسی ہے کہ یہ ملک چند سال بھی اپنا جمہوری تاثر قائم نہیں رکھ سکا اور یہاں ہوس اقتدار کے بھوکوں نے وہ اودھم مچایا کہ اسے نہ پارلیمانی رہنے دیا اور نہ ہی اسے صدارتی رہنے کے قابل چھوڑا ہے۔ جمہوریت کوئی بھی ہو، اس کا بنیادی اصول ہے کہ بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے، اس بنیادی اصول کی جو دھجیاں پاکستان میں اڑی ہیں، خال ہی دنیا کے کسی دوسرے ملک میں اڑی ہوں گی۔ جمہوریت کی نشوونما میں نرسری کا کردار ادا کرنے والے تعلیمی اداروں کے طلباء میں مثبت بحث و مباحثہ کا رجحان یوں ختم کیا گیا کہ بتدریج ہر سیاسی جماعت نے ان طلباء تنظیموں کو اجارہ داری کا ایسا سبق پڑھایا کہ وہ اختلاف رائے کو سرے سے برداشت کرنے کے قائل ہی نہیں رہے۔ تعلیمی اداروں میں بظاہر سیاسی عمل کے نام پر، مخصوص سوچ کے حامل افراد کو جبراً مسلط کیا گیا اور اس کے لئے ہر طرح کی غیر سیاسی سرگرمیوں کا ساتھ دیا گیا لیکن کسی بھی طور ایسے تعلیمی اداروں سے اپنا تسلط ختم کرنا گوارا نہیں کیا جبکہ سیاسی عمل تو نام ہی اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا ہے، دوسرے کی جیت کو، عددی برتری کو بخوشی تسلیم کرنے اور مستقبل میں اپنی کارکردگی کو مزید بہتر کرنے کا ہے لیکن اس کے برعکس اقتدار کے لئے دھونس، دھاندلی، جبر غرضیکہ ہر وہ حربہ جس سے جیت یقینی ہو اپنایا گیا، اس تربیت کے بعد سیاسی افق پر کیسی سیاسی قیادت نمودار ہو سکتی تھی؟۔
قومی سیاسی افق پر ویسے تو اس وقت بہت سے طالبعلم رہنما موجود ہیں لیکن حقیقتاً طلباء سیاست سے پنپنے والے سیاسی رہنما اب تقریباً ختم ہو چکے ہیں جبکہ وہ سیاسی رہنما جو اس وقت سیاست میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں، ان کی جڑیں عوام میں تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں البتہ اقتدار کی غلام گردشوں اور منبع میں ان کے تعلقات بہت وسیع اور گہرے ہیں۔ درحقیقت موجودہ سیاسی رہنمائوں کی اکثریت اس حقیقت کی قائل نظر آتی ہے کہ اقتدار تک رسائی کے لئے عوامی حمایت کا ہونا اتنا ضروری نہیں جتنا اقتدار کے محور و مرکز تک رسائی کا ہونا اہم ہے۔ اس حقیقت کے پس پردہ بھی درحقیقت ہماری تلخ ترین سیاسی تاریخ ہے کہ جس میں عوامی حمایت رکھنے والے سیاسی قاءدین کا دردناک انجام ہے جس کا سامنا کرنے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں۔ اتنی جرات و ہمت کسی بھی سیاسی رہنما میں دکھائی نہیں دیتی کہ وہ اپنے کندھوں پر اپنے سیاسی رہنما کا جنازہ اٹھائے، اپنے گھر کے دامن میں پرسہ دینے والوں کا سامنا کر سکے، یہ اتنا آسان قطعاً نہیں۔ اس کی حقیقت جاننے کے لئے لیاقت علی خان، محترمہ فاطمہ جناح، ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمان، بے نظیر بھٹو کے دردناک انجام اور ان کے وارثان سے پوچھ لیں کہ کیا وہ مزید لاشے اٹھانے کی سکت رکھتے ہیں، یقیناً ان کا جواب نفی میں ہو گا اور ہونا بھی چاہئے۔ لیاقت علی خان بابائے قوم کے قریب ترین رفقاء میں شامل تھے، ان کی عوامی مقبولیت بہر طور موجود تھی گو کہ حلقہ کی سیاست کے حوالے سے لیاقت علی خان تہی دامن تھے لیکن اس کی نوبت تو یقیناً انتخابات کے موقع پر آتی۔ محترمہ فاطمہ جناح پر کیسی اخلاق سوز انتخابی مہم اٹھاءی گئی، ان کی راہ روکنے کے لئے کیا کچھ کیا گیا، سب تاریخ اپنے دامن سے الٹ رہی ہے۔ شیخ مجیب الرحمان عوامی مقبولیت میں اپنے مد مقابل سیاستدانوں سے کہیں آگے تھے لیکن انہیں اقتدار کی بجائے علیحدگی پسند ثابت کرنے میں زور صرف کیا گیا، کیا تاریخ نے انہیں علیحدگی پسند تسلیم کیا یا آمروں کو اقتدار پسند؟ شیخ مجیب کے خلاف بھٹو کا کیا کردار رہا، اس پر کسی بحث کی ضرورت ہی نہیں کہ اظہر من الشمس ہے کہ اگر بھٹو شیخ مجیب کی اکثریت کو تسلیم کر لیتے تو یقینی طور پر آمروں کا منصوبہ ناکام ہوتا، سیاستدانوں کی فہم و فراست غالب آتی، جمہوریت مضبوط ہوتی لیکن یہ روایت جنم نہ لے سکی اور اس کیچڑ کے چھینٹوں نے سیاستدانوں کا ماتھا داغدار کیا۔
بعد ازاں پاکستان میں جمہوریت اک تماشہ بن کر رہ گئی، گو کہ تماشہ مناسب لفظ نہیں اور نہ ہی ضرورت کے مطابق خیالات کو منعکس کر پاتا ہے اور جو صحیح لفظ ہے، اس کو لکھتے ہوئے شرمندگی ہوتی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت نامی شے طاقتوروں کی رکھیل سے زیادہ نہیں کہ جسے جب چاہا عوام میں پیش کر دیا اور جب چاہا، اس سے ہاتھ کھینچ لیا۔ یہ کھیل جمہوریت کے ساتھ ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے بخوبی کھیلا تاآنکہ زرداری اور نوازشریف نے مل کر اسے آئینی تحفظ دینے کی کوشش نہیں کی بلکہ آئین میں درج کر دیا کہ آئین کو معطل کرنے والا آئین شکن ’’ غداری‘‘ کا مرتکب ہو گا۔ یہاں تک تو دونوں سیاستدانوں نے جرات کر لی کہ اب پارلیمانی جمہوریت ہی ملکی طرز حکومت ہوگا لیکن صد افسوس کہ جمہوری طور طریقوں کو ہنوز اپنانے کے لئے تیار نہیں اور عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں اور جب انہیں نظر آتا ہے کہ ان کی ماضی کی کارکردگی انہیں کسی صورت عوامی حمایت سے دوبارہ اقتدار میں نہیں لاسکتی تو سیاست کے پچھلے بدنام دروازوں سے اقتدار تک رسائی کی کوشش کرتے ہیں۔ سپورٹس مین شپ کا مظاہرہ کرنے میں انتہائی تامل اور ہچکچاہٹ کا شکار یہ روایتی سیاستدان میثاق جمہوریت کے باوجود ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے نظر آتے ہیں، حد تو یہ ہے کہ انفرادی طور پر غیر جمہوری قوت کو تنقید کا نشانہ بنانے والے، اس کے سیاسی کردار پر طعن و تشنیع کرنے والوں نے ہمیشہ اہم اور نازک موقع پر اپنے غیر جمہوری عمل سے غیر جمہوری قوت کو ہی مضبوط کیا ہے۔ موجودہ صورتحال میں بھی یہ حقیقت واضح ہے کہ کل تک اقتدار میں رہتے ہوئے عمران خان کو غیر جمہوری طاقت کے سیاسی کردار پر کوئی اعتراض نہیں تھا بلکہ ایک پیچ کا اظہار فخریہ کیا جاتا تھا، اسی طرح موجودہ حکمرانوں کو غیر جمہوری قوت کے سیاسی کردار پر کوئی اعتراض نہیں۔ آج موجودہ حکمران اور غیر جمہوری قوت ایک پیچ پر نظر آتے ہیں اور اس مستعار طاقت سے حکمران اپنے سیاسی مخالف کو کچلنے کے لئے ایسے ایسے مقدمات درج کر رہے ہیں کہ جن کا تصور ہی کسی حقیقی سیاسی و جمہوری کلچر میں ممکن نہیں۔ بغور دیکھیں تو ماضی کے دردناک انجام سے دوچار ہونے والے سیاسی رہنمائوں اور اس وقت عمران خان میں جو قدر مشترک ہے، وہ صرف اور عوامی حمایت ہے، ایسے عوامی حمایت رکھنے والے ماضی کے سیاسی رہنمائوں کا دردناک انجام بھی ایسے ہی مقدمات میں ہوا یا ان کو سرعام سزا دی گئی جبکہ دوسری طرف ہاتھ مضبوط کرنے والوں میں موجودہ حکمرانوں جیسے احباب ہی شامل تھے کہ جن کی عوامی حمایت نہ ہونے کے برابر تھی۔ کیا ایسے سیاستدان جمہوریت کے حقدار ہیں، جمہوریت کے رکھوالے یا جمہوریت کے وارث ہو سکتے ہیں؟۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button