Column

ترکیہ جمہوری رویوں میں بھی قابل تقلید

محمد ناصر شریف

جمہوریت کے لغوی معنی لوگوں کی حکمرانی ’’Rule of the People ‘‘ کے ہیں۔ یہ اصطلاح دو یونانی الفاظ Demo یعنی ’’ لوگ’’ اور Kratos یعنی ’’ حکومت ’’ سے مل کر بنا ہے۔ بعض لوگ اس کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ ’’ لوگوں کی اکثریت کی بات ماننا ‘‘ لیکن درحقیقت یہ ’’ اکثریت کی اطاعت‘‘ کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یونانی مفکر ہیرو ڈوٹس (Herodotus)کہتا ہے کہ جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں۔ چنانچہ سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کا یہ قول جو جمہوریت کا نعرہ ہے ، اسی حقیقت کی عکاسی کرتاہے’’Government of the people, for the people ,،by the people ’’عوام کی حاکمیت ، عوام کے ذریعے جبکہ شہید بینظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری ’’ جمہوریت بہترین انتقام ہے’’ کے قول کیساتھ کھڑے ہیں۔ جمہوریت کی قدر کئے بغیر جمہوریت کی بقا ممکن نہیں، وقت بدل گیا ہے، حالات بدل گئے ہیں، ہمیں خود کو بھی بدلنا ہوگا۔ افلاطون اپنی شہرہ آفاق کتاب الجمہوریہ میں ریاست کی تشکیل کیلئے انسان کو اہم گردانتے ہوئے انسانی روح کو 3عناصر میں تقسیم کرتا ہے۔ جن میں عقل، جذبہ اور خواہش شامل ہیں۔ انسانی روح کے عناصر دراصل افلاطون کی مثالی ریاست کے بنیادی خدوخال میں شامل ہیں۔ افلاطون اپنی مثالی ریاست کو تین طبقات میں تقسیم کرتا ہے، جس میں دانشور(فلسفی) حکمران، فوجی طبقات اور پیشہ ور مزدور و محنت کش افراد شامل ہیں۔ افلاطون کے نزدیک ریاست کے یہ تین طبقات ہی ریاست کے نظم ونسق اور معاملات کے ذمے دار ہوں گے۔ افلاطون کے مطابق انہی طبقات کی اولادیں نسل در نسل اپنی ذمے داریاں ادا کریں گی۔ افلاطون اپنی مثالی ریاست کے خدوخال میں طرز حکمرانی کو ترجیح دیتے ہوئے اس کو تین اقسام میں تقسیم کرتا ہے، جس میں جمہوریت، بادشاہت اور اشرافیہ شامل ہیں۔ افلاطون ایک ایسی مثالی ریاست کی تشکیل کا داعی تھا جس میں ہر فرد اپنی ذمے داریوں کو ادا کرے گا۔ اب آتے ہیں ترکیہ کی جانب ترکیہ کے صدر کا انتخاب براہ راست دو طرفہ نظام کے ذریعے کیا جاتا ہے، جس کے تحت ایک امیدوار کو منتخب ہونے کیلئے مقبول ووٹوں کی سادہ اکثریت (50فیصد سے زائد) حاصل کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی بھی امیدوار مجموعی طور پر واضح اکثریت حاصل نہیں کرتا تو پہلے مرحلے سے دو سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنیوالے امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے، جس کے فاتح کو پھر منتخب قرار دیا جاتا ہے۔ ترکیہ کی صدارت کیلئے پہلا براہ راست انتخاب 2014میں ہوا تھا، جب 2007میں ایک ریفرنڈم میں سابقہ نظام کو ختم کر دیا گیا تھا جس کے تحت سربراہ مملکت کا انتخاب مقننہ، ترکی کی گرینڈ نیشنل اسمبلی کرتی تھی۔ موجودہ صدارتی انتخابات میں کسی بھی فریق کو پچاس فیصد ووٹ نہیں مل سکے لیکن وہاں کسی بھی قسم کی کشیدہ صورتحال نہیں دیکھی گئی، ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنا ایک فطری عمل ہے لیکن نفرتیں پھیلانے کا کام نہیں کیا جارہا۔ اس حوالے سے ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ وہ اب بھی یہ کانٹے دار مقابلہ جیت سکتے ہیں تاہم وہ پچاس فیصد ووٹ نہ ملنے کی صورت میں قوم کے فیصلے کا احترام کریں گے اور دوسرے مرحلے کیلئے میدان میں اترنے کو تیار ہوں گے۔ اردوان کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ترکیہ میں قومی انتخابات میں، گنتی کا عمل مکمل ہونے کو ہے، غیر سرکاری نتائج کے مطابق صدر طیب اردوان کو ملنے والے ووٹوں کی شرح حکومت بنانے کیلئے مطلوب پچاس فیصد سے کم ہوگئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ ملک میں 28مئی کو دوبارہ انتخابات کا امکان ہے۔69سالہ اردوان گزشتہ دو عشروں سے ترکیہ پر حکومت کر رہے ہیں۔ انتخابات سے قبل پولز کے مطابق اردوان اپنے حریف کمال کلچدار اوغلو سے کچھ ہی پیچھے تھے۔ حزب اختلاف کے رہنما کمال کلچدار اوغلو نے سرکاری خبر رساں ادارے انادولو پر انتخابی نتائج میں ہیرا پھیری کا الزام عائد کیا۔ ان کے مطابق ایک وقت تک انہیں انتخاب میں سبقت حاصل تھی۔ حزب مخالف کی جماعتوں نے سرکاری خبر رساں ایجنسی پر تعصب برتنے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ترکی میں صدارتی انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت کو جمہوریت کی فتح قرار دیا ہے، ناصر کنعانی نے ترکی میں انتخابی مہم کے انعقاد کے بارے میں کہا کہ اتوار کو ہونیوالے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں ترکی کے عوام کی بھرپور شرکت اور اس کا کامیاب انعقاد اس پڑوسی مسلم ملک میں جمہوریت کی فتح کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس فتح پر ترکی کے عوام، منتظمین، قائدین اور سیاسی جماعتوں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور ان کی سربلندی کیلئے دعاگو ہیں۔ ادھر یورپی یونین نے ترکیہ میں اتوار 14مئی کو ہونیوالے پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کے انعقاد کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس الیکشن میں ووٹنگ کا زیادہ ٹرن آئوٹ، ترک عوام کے ووٹ کے اپنے جمہوری حق کو استعمال کرنے کے عزم کی واضح علامت ہے۔یورپین یونین کی جانب سے یورپین خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل اور یورپین کمشنر برائے انلارجمنٹ اولیوے وار ہیلیے نے برسلز سے جاری ہونے والے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ ہم OSCEاور کونسل آف یورپ، بین الاقوامی انتخابی مشاہدے کے مشن کے ابتدائی نتائج کو نوٹ کرتے ہیں اور ترک حکام سے نشاندہی کی گئی خامیوں کو دور کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین برابری کے میدان میں شفاف، جامع اور قابل اعتماد انتخابات کی ضرورت کو انتہائی اہمیت دیتا ہے۔ یورپی یونین آنیوالی پارلیمنٹ کیساتھ اپنا کام شروع کرنے کا منتظر ہے۔ اس کے برعکس پاکستانی معاشرہ آج سیاسی اور اقتصادی حالات کی وجہ سے آئی سی یو میں ہے، سیاستدان ،سکیورٹی ادارے، عدلیہ میدان مارنے کیلئے یکسو ہیں اور مرض کی تشخیص، اس کا آپریشن اور مریضوں کی حالت بدلنا ان کا مقصد ہی نہیں ہے۔ پاکستان میں لاچار اور کمزور فرد کو گنہگار تصور کیا جاتا ہے، سیاست اور اقتصادی میدان میں اشرافیہ کا قبضہ ہے۔ جس کی وجہ سے حالات بد سے بدتر کی جانب جارہے ہیں، حکمرانوں اور تمام سٹیک ہولڈرز کو چاہئے کہ پاکستان کو جمہوری راستے پر گامزن کریں، ایک دوسرے سے بازی لے جانے اور میدان مارنے کے چکر میں ناصرف اپنا نقصان کریں گے بلکہ ملک کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچائیں گے۔ ترکیہ کی مثال آپ کے سامنے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button