Column

تلخیاں اچھی نہیں .. یاورعباس

یاورعباس

گرمیوں کا موسم شروع ہوتے ہی سیاسی ماحول میں گرما گرمی اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ سیاسی جماعتوں کے اختلافات تصادم کی جانب بڑھتے نظر آ رہے، روایتی سیاسی مخالفت کے بیانات کی بجائے دھونس دھمکیاں اور طعنے ، میڈیا میں بدزبانیاں حد درجہ بڑھ گئی ہیں بلکہ گالم گلوچ تک نوبت آگئی، عدم برداشت اس درجہ بڑھ گئی ہے کہ مخالف کا وجود ہی برداشت نہیں ہورہا ہے ۔ سیاسی جماعتوں کی لڑائی اپنی جگہ اب تو قومی ادارے بھی نہ صرف متنازعہ ہوچکے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے آمنے کھڑے ہوگئے ہیں ، پہلے سے تباہ حال معاشی ملک کے لیے ایسے رویے مزید تباہی کا سبب ہی بن سکتے ہیں ۔ جس گھر میں لڑائیاں ہو رہی ہوں وہاں کبھی خوشحالی ، امن اور سکون نصیب نہیں ہوتا اسی طرح اگر پورے ملک میں انارکی سا ماحول پیدا ہوجائے تو پھر اس امن ، خوشحالی اور ترقی کی خواہش کرنا ایسے ہی ہے جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے ، ہمیں بحیثیت پاکستانی ہوش کے ناخن لینا چاہیے ، اداروں کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحمل سے بگڑے ہوئے معاملات کی گتھی سلجھانی چاہیے۔ اگر معاشرہ میں حقیقی جمہوریت اور انصاف ہوتی تو شاید آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتے ۔ ہم سے بعد میں آزادی حاصل کرنے والے ملک بے سرو سامانی اور خستہ حالی کے باوجود ہم سے ترقی میں بہت آگے نکل چکے ہیں، جنگ عظیم دوم کے بعد جرمنی اور یورپ کے بیشتر ملکوں کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں مگر آج وہاں کے لوگوں کا معیار زندگی اور ترقی دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ ہم شاید دہائیوں محنت کے بعد بھی ان جیسے ملک نہیں بن سکیں گے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اگر صورتحال اسی طرح رہی تو ہم صدیوں بعد بھی ترقی کرنا تو دور کی بات اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہوں گے ۔
پاکستانی اسلامی دنیا کا واحد ایٹمی اور زرعی ملک ہونے کے باوجود ، قدرتی نعمتوں اور دولت سے مالا مال ملک جسے انگریز سونے کی چڑیا کہا کرتا تھا ، آج غربت ، مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے آئی ایم ایف کا غلام بنا ہوا ہے ، جنہیں ہم اپنا دوست ملک کہتے ہیں ان سے بھی پوچھ لینا چاہیے کہ کیا وہ بھی ہمیں دوست ہی سمجھتے ہیں یا پھر ہمارے وزیراعظم شہباز شریف کے نظریے کے مطابق بھکاری ۔ ویسے بھی روز روز کسی کے در پے بھیک مانگنے جانے والے دوست نہیں ہوتے بلکہ دوست وہ ہوتے ہیں جو ضرورت پڑنے پر مانگنے کی نوبت ہی نہ آنے دیں خود ہی جیبیں بھر جائیں۔ پاکستان میں اگر اس وقت معاشی اور سیاسی بحران ہیں تو اس کی وجہ پاکستانی عوام یا پھر کوئی ایسے ناگزیر حالات نہیں ہیں بلکہ ماضی کے کرپٹ حکمران ہیں جنہوں نے عوام کا خون نچوڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ قوم ٹیکس دیتی ہے پھر قومی خزانہ کدھر گیا ، کیوں اربوں ڈالر قرض لینے کے باوجود ملک سے غربت کا خاتمہ نہیں ہوا۔ پڑھے لکھے نوجوان ملک چھوڑکر بیرون ملک کیوں مقیم ہوگئے ؟۔
شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ جب انسان کے پاس دلیل ختم ہوجاتی ہے تو پھر وہ دست و گریبان تک آجاتا ہے ، شاید یہی وجہ ہے کہ جب سے عمران خاں نے آئینی الیکشن کروانے کے لیے پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں توڑی تو پی ڈی ایم جماعتوں کے پاس جب آئینی طور پر الیکشن رکوانے کی کوئی دلیل باقی نہ رہی تو انہوںنے عدلیہ سے محاذ آرائی کا رستہ اختیار کرلیا اور الیکشن کروانے کے حکم سے نہ صرف انکار کیا بلکہ 14مئی کو الیکشن کروانے کا حکم دیا اور 14مئی کا دن خاموشی سے گزر گیا، الیکشن ہوئے نہ آئین ٹوٹا؟ کیس کا فیصلہ کیا آئے گا آئینی طور پر تو سب کو پتہ ہے کہ توہین عدالت ہی لگے گی، وزیراعظم سربراہ ہونے کی حیثیت سے فیصلہ نہ کروانے، وزیر دفاع فوج کو سکیورٹی کے لیے نہ دینے پر، وزیر خزانہ الیکشن اخراجات کے لیے فنڈز جاری نہ کرنے پر، وزیر داخلہ پولیس سکیورٹی نہ دینے پر، وزارت انصاف و قانون عدالتی عملہ فراہم نہ کرنے پر نااہل ہوسکتے ہیں، کابینہ کے متفقہ فیصلہ کی روشنی میں پوری کابینہ نااہل ہو سکتی ہے، پارلیمنٹ میں بل پاس کروانے پر پوری پارلیمنٹ نااہل ہوسکتی ہے، مگر پی ڈی ایم جماعتوں نے تو فیصلہ عوام کی عدالت سے لینے کی ٹھان لی ہے، جمہوری ملکوں میں تو عوامی عدالت الیکشن ہی ہوتی ہے، مگر ہماری خود ساختہ جمہوریت میں عوامی عدالت سپریم کورٹ کے باہر دھرنا لگا کر دی گئی کہ فیصلہ آنے کی صورت میں ردعمل دیا جائے گا۔ ادھر عمران خاں کی گرفتاری پر ملک گیر شدت پسندانہ احتجاج نے تلخیاں بڑھا دی ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور اداروں میں تلخیاں بڑھنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں شروع ہی سے جمہوریت مغربی طرز کی نہیں ہے بلکہ آمرانہ جمہوریت ہے، موروثی سیاست کی وجہ سے پارٹیوں میں جمہوریت پنپ نہ پائی، پارٹی کے اندر کسی نے کلمہ حق بلند کیا یا پھر اختلاف رائے کیا تو ایک لمحہ ضائع کئے پارٹی سے باہر پھینک دیا، دہائیوں تک پارٹی کے لیے ماریں کھانے والے اپنی زندگی تو کیا ان کی نسلیں بھی کبھی پارٹی سربراہ نہیں بن سکی مگر موروثی سیاست کی وجہ سے سیاسی جدوجہد کئے بغیر پارٹی کی سربراہی مل جاتی ہے، دوسری بڑی وجہ آئینی اداروں کا اپنی حدود میں رہتے ہوئے کام نہ کرنا ہے، ہر ادارہ سمجھتا ہے کہ اس کے بغیر ملکی مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ پہلے فوج کو کہا جاتا تھا کہ سیاسی انجینئرنگ کرتے ہیں، اب سپریم کورٹ کے ججوں کو کہا جارہا ہے کہ سیاست کرنی ہے تو استعفیٰ دیں اور سیاست کریں۔ پاکستان کے کروڑوں عوام ریاستی اداروں اور سیاستدانوں کے تجرباتی رویے کی وجہ سے شدید متاثر ہیں اور دلبرداشتہ بھی، ریاست کے ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ ملک کی معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ماضی کی غلطیوں سی سبق سیکھیں اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے تلخیاں ختم کرنے کا اعلان کریں، اگر آج جنرل الیکشن کا اعلان کر دیا جائے اور تمام ادارے غیر جانبدار ہو کر منصفانہ الیکشن کروا دیں اور اس کے بعد سیاستدان اپنی کارکردگی کی بناء پر عوام کو ریلیف دیں ، ملکی ترقی کے لیے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے چائنہ ماڈل کے قوانین بنالیں تو ہم ترقی بھی کریں گے اور معاشرہ میں امن و امان بھی قائم ہوجائے گا اور مسائل کی دلدل سے بھی نکل آئیں گے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button