Column

مسکرا کر کیوں دیکھا .. روہیل اکبر

روہیل اکبر

لگتا ہے کہ ہم اس جگہ جا رہے ہیں جہاں واپسی کا راستہ نہیں ملتا لیکن شکر ہے کہ سپریم کورٹ نے ہمیں بچا لیا اور واپسی کے راستے پر ڈال دیا اور اب ہم اسی سپریم کو رٹ پر ڈنڈوں اور سوٹوں سے چڑھائی کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ چیف جسٹس نے مسکرا کر کیوں دیکھا، اس وقت ملک کی سیاسی صورتحال تو خراب ہے ہی ساتھ میں معاشی صورتحال بھی دائو پر لگی ہوئی ہے، رہی سہی کسر ورلڈ بنک کی تازہ رپورٹ نے پوری کردی، اس رپورٹ پر بات کرنے سے پہلے کچھ ذکر ان مسائل کا جن سے ہم74سال گزرنے کے باوجود نہیں نکل سکے، ہمارا ملک انتشار اور بد امنی سے باہر نہیں نکل سکا، اب بھی اگر کچھ لوگ تحمل، برداشت اور عوام دوستی کے تحت دور رس فیصلے کر لیں اور پاکستان میں سیاسی، معاشی اور دفاعی استحکام سمیت امن و امان قائم رکھنے کے لیے عوامی میثاق کا معاہدہ کرلیا جائے تو پھر کسی کو کسی کے فریج سے دہی کا ڈبہ اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی یہاں پر ہمارے بڑے بڑے سیاسی رہنمائوں نے کوئی کام کیا اور نہ ہی ہم نے، انہوں نے اپنے حصے کی لوٹ مار کی اور ہم نے اپنے جثے کے مطابق، بابائے قوم کی وفات کے بعد کوئی بھی سیاسی جماعت اپنی حدود اور حقیقی جمہوری تصور سے آگے نہ بڑھ سکی، حکمرانوں اور عوام کے درمیان پیدا ہونے والا فاصلہ غربت اور پسماندگی کے طویل سلوک کی وجہ سے ہے، عوام کو انصاف اور اختیار دیا جاتا تو کبھی شخصیت پرستی، موروثیت اور خاندانی مفادات آڑے نہ آتے حالانکہ بنیادی جمہوریت عوام کی خوشحالی سے وابستہ ہوتی ہے اور جب جمہور ہی مشکل میں ہو تو اعلیٰ اخلاقی روایات بھی دم توڑ جاتی ہے، بدقسمتی سے پاکستان میں محرومی، ناانصافی اور اختیارات کی رسہ کشی نے نظام کو ڈرائنگ روم اور محلات تک محدود کیا ہوا جب تک اختیار عوام کے پاس نہیں جاتا تب تک انصاف بھی نہیں ہوگا، آپ ابھی گزرے ہوئے چند دنوں کا حساب کر لیں ہماری املاک کو جو نقصان پہنچا وہ ناقابل بیان ہے، اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں بند کی جانے والی انٹر نیٹ کی سہولت کے باعث پاکستان کو1ارب60کروڑ روپے سے زائد کا نقصان بھی پہنچ چکا ہے۔ اس وقت پاکستان میں موبائل فون استعمال کرنے والوں کی تعداد12کروڑ50لاکھ ہے جن کا موبائل کمپنیوں کو ریونیو نہ صرف بند ہو کر رہ گیا ہے بلکہ حکومت کو بھی حصول ٹیکس کی مد میں کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ کے معزز جج صاحبان کی باتیں بھی عقل والوں کے لیے ایک پیغام ہیں، جسٹس انوار الحق پنوں نے وکیل پنجاب حکومت سے کہا کہ سیاسی انتقام ہمارے ملک میں پرانا وتیرہ ہے، ریاست اپنے رویے پر بھی نظر ثانی کرے، پولیس کی جگہ رینجرز کو بھیجیں گے اور کالر سے پکڑ کر کھینچیں گے تو عوام میں انتشار آئے گا، کیا ایسے گرفتار کیا جاسکتا ہے جس طرح آپ نے گرفتار کیا، شیشے توڑے گئے اور شیشے توڑنا غلط کام تھا، عام آدمی کسی کا دروازے توڑے تو فوری دفعہ427لگتی ہے آپ لوگوں کے گھروں میں چھاپے مار رہے ہیں، توڑ پھوڑ کر رہے ہیں، اس پر قانونی دفعہ کیوں نہیں لگتی، آپ نے سپریم کورٹ کے ساتھ پچھلے ایک سال میں کیا کیا ہے، آپ اخبارات سے چیزیں پڑھ کر عدالتوں میں پیش ہوجاتے ہیں۔ اب کچھ باتیں ورلڈ بینک کی تازہ رپورٹ کی بھی کر لیتے ہیں جس میں انہوں نے پاکستان میں انسانی سرمائے کی کمزور حالت پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان میں انسانی سرمائے کی حالت ہیومن کیپیٹل انڈیکس کے مقابلے میں جنوبی ایشیائی اوسط0.48سے بھی کم ہے۔ پاکستان میں انسانی سرمائے کے نتائج رشتہ دار اور مطلق دونوں لحاظ سے اوسط سے کم ہیں، جنوبی ایشیائی ممالک کے اسی زمرے میں بنگلہ دیش کی ایچ سی آئی ویلیو0.46ہے اور نیپال کی ایچ سی آئی ویلیو0.49ہے جبکہ سب صحارا ممالک کے لیےHCIاوسط0.40ہے اور پاکستان کے لیےHCIکی قدر 0.41ہے، پاکستان میں معاشی طور پر سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے گروپوں کے انسانی سرمائے کے نتائج ہم مرتبہ ممالک کے کم معاشی طور پر فائدہ مند گروپوں کے مقابلے میں کم ہیں، اگر انسانی سرمائے کی ترقی کی موجودہ شرح جاری رہی تو پاکستان2047ء تک اپنی فی کس جی ڈی پی (مجموعی گھریلو پیداوار) میں محض18فیصد اضافہ کر سکے گا۔ اسی طرح بچپن کی ابتدائی نشوونما کے اعدادوشمار بھی انتہائی تشویشناک ہیں صرف40سے59فیصد بچے ان کے والدین کی طرف سے درست ترقی کی راہ پر گامزن ہیں جبکہ درمیانی آمدنی والے ممالک میں اوسط75فیصد ہے، اس کے علاوہ پانچ سال سے کم عمر کے40فیصد بچے سٹنٹڈ ہوتے ہیں، 18فیصد ’’ضائع‘‘ ہوتے ہیں، پاکستان میں اس وقت سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد20.3ملین ہے، سیلاب(2022)اور وبائی امراض سے پہلے پاکستان میں غربت کی شرح75فیصد اور سیلاب کے بعد79فیصد ہوگئی ہے۔ انسانی سرمائے سے حاصل ہونے والے معاشی فوائد کا ادراک صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب لوگ اپنی صلاحیتوں اور ذہانت کو پیداواری سرگرمیوں میں استعمال کریں، محنت کے استعمال کے بعد ایچ سی آئی کی قدر مردوں کے لیے محض0.31اور خواتین کے لیے0.08ہی، جو معاشی سرگرمیوں میں مردوں اور عورتوں کی شرکت میں وسیع فرق کو ظاہر کرتی ہے، پاکستان کے معاملے میں خواتین کی لیبر فورس کی شرکت کل لیبر فورس کے فیصد کے طور پر صرف20فیصد ہے، ورلڈ بنک کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں انسانی سرمائے کی حالت میں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ملک میں انسانی سرمائے کی ابتر صورتحال کو دور کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، ’’زندگی کے چکر کے دوران انسانی سرمائے کی تعمیر‘‘ کا ایک جامع طریقہ تجویز کیا گیا ہے جو بچپن کے پہلے مرحلے میں شروع ہوتا ہے، اس مرحلے میں ماں اور بچے دونوں کی قبل از پیدائش اور بعد از پیدائش کی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے، بچے کو مائیکرو نیوٹرینٹس کی مسلسل فراہمی کی جاتی ہے تاکہ اس کا جسم جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لیے اہم تعمیراتی بلاکس حاصل کر سکے، خاندانی منصوبہ بندی اس ’’ زندگی کے چکر میں انسانی سرمائے کی تعمیر‘‘ کے پہلے مرحلے کا ایک اور ضروری حصہ ہے۔ پروگرام کا دوسرا مرحلہ بچے کی ’’سکولنگ‘‘ سے متعلق ہے جس میں امیونائزیشن اور نیوٹریشن پروگرام، والدین کی مثبت مدد، ابتدائی بچپن کی تعلیم اور پانی، صفائی اور حفظان صحت کی خدمات کا مطالبہ کیا گیا ہے جہاں تک زندگی کے بعد کے مراحل کا تعلق ہے رپورٹ میں اسکی نشاندہی بھی کہ گئی ہے کہ جامع سماجی پنشن، سستی اور قابل رسائی صحت کی دیکھ بھال اور عمر کے لحاظ سے سمارٹ انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے لیے پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے نہ کہ ہم اس بات پر ہنگامہ کر دیں کہ چیف جسٹس نے مسکرا کر کیوں دیکھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button