Uncategorized

قرآن مجید کی خدمت میں علماء کرام کا کردار

.عبدالرحمان عابد راجپوت

قرآن مجید کی عظمت و رفعت کے تذکرے آسمان اور زمین کے علاوہ غار حرا اور غار ثور میں بھی ہوتے رہے ہیں جبکہ آمنہ کے لعل محمد عربیؐ نے ذات باری تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اُحد پہاڑ پر چڑ ھ کر کائنات کے لوگوں کو جو پیغام آج سے1400سو سال پہلے دیا تھا وہ پیغامِ ربانی اور توحید و رسالت کا پرتو آج بھی من و عن قرآن و حدیث کی معتبر ترین کتابوں میں محفوظ ہے اور قیامت کی دہلیز تک محفوظ رہے گا۔ قرآن مجید کا ہر ہر صفحہ اور ہر آیت ہمیں دعوتِ فکر دیتی ہے اور با آوازِ بلند پکار پکار کر ہمیں یہ نوید سناتی ہے کہ رب رحمان کی اس الہامی کتاب سے جس امت نے، جس ملک کے باشندوں نے، جس جماعتِ حقہ نے، جس اسلامی معاشرے نے، جس خاندان نے اور جس جس فردِ واحد نے انفرادی اور اجتماعی طور پر قرآن مجید کو صرف سینے سے نہیں لگایا بلکہ اس مکمل پیغامِ ربانی کی ایک ایک آیت کریمہ کو پڑھ کر سمجھ کر پھر اس پر عمل کیا وہ بندہ مومن اور معززات میری مائیں اور بہنیں کامیابی کی ان روشن قندیلوں پر براجمان ہو جایا کرتی ہیں جن کی روشنی کبھی بھی مدہم نہیں ہوتی۔ راقم الحروف نے جب یہ سطورِ بالا لکھنے کی جسارت کی تو مجھے کراچی اور سندھ بھر کے دینی مدارس میں ہونے والی دینی تقریبات جن میں تکمیلِ قرآن اور تکمیلِ صحیح البخاری کی روحانی محافل میرے سامنے ایسے آ گئیں جیسے میں اب بھی کسی خاص قرآنی اور روحانی تقریب میں موجود ہوں، میں اکثر و بیشتر کراچی کے دینی جامعات میں جاکر( Religious Press Coverage) کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں تاکہ اس مادیت پرست اور انٹرنیٹ کے جدید دور میں حضرتِ انسان قرآن و حدیث اور علومِ عالیہ کے بحر بے کراں علوم کی واقفیت حاصل کر سکے اور منفی سوچ رکھنے والے خواتین و حضرات کو ربِ کائنات صراطِ مستقیم کی راہ داریوں پر واپس لے آئے۔ اس مناسبت سے علومِ عالیہ کے طلبہ و طالبات اور معزز خواتین و حضرات کے دل و دماغ میں بسانے والے اور سمجھانے والے دینی اداروں اور دینی جامعات کے رئیس الجامعات اور مدیران جامعات معاشرے میں اہم اسلامی انقلاب برپا کرنے میں مصروف عمل ہیں جن میں سیکڑوں دینی جامعات سمیت جامعہ ستاریہ الاسلامیہ گلشن اقبال کراچی کے مدیر پروفیسر محمد سلفی، معھد السلفی گلستان جوہر کراچی کے رئیس الجامعہ مولانا علامہ عبداللہ ناصر رحمانی، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ گلشن اقبال کراچی کے مدیر شیخ ضیاء الرحمان المدنی، جامعۃ الاحسان گجر چوک منظور کالونی کے شیخ محمد احسن سلفی، اذان اسلامک انسٹیٹیوٹ کے روح ِ رواں مولانا کاشف نسیم دلکشا، بروج اسلامک انسٹیٹیوٹ کے چیف ایگزیکٹو شیخ طہٰ احمد پاشا، ادارہ قرآن و سنت جہانگیر آباد کے منتظمِ اعلیٰ محمد اشرف قریشی، سید محمد نجیب احمد، المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر، البیان اسلامک انسٹی ٹیوٹ اور جامع مسجد سعد بن ابی وقاص کے10علمائے کرام جو مدینہ اسلامک یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوکر اب کراچی اور صوبہ سندھ کے طلبہ کو قرآن و حدیث اور اسلامی علوم کی دستار فضیلت کے پرچم کو جامع مسجد سعد بن ابی وقاص ڈیفنس فیزIV( نزد نثار شہید پارک) کراچی میں سربلند کئے ہوئے ہیں۔ مدیر الجامعہ عثمان صفدر، پرنسپل ادارہ ہذا مولانا حماد امین چاولہ اور ادارہ کے جنرل منیجر پبلک ریلیشن شیخ محمد کامران یاسین و دیگر جید علماء کرام وطن عزیز کے نو نہالان وطن اور ہر عمر کے خواتین و حضرات کو قرآن و حدیث اور علوم عالیہ کے اسباق پڑھانے میں ہمہ تن مصروف عمل ہیں، ہر دینی ادارے کے علماء کرام اور المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کے تمام علماء کرام انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے وہ اہم ترین امور سر انجام دیتے ہیں جس سے دنیاوی اور اسلامی معاشرت میں محبت اور اخوت کے انمٹ نقوش ابھر آتے ہیں کیونکہ سمندر کی گہرائیوں میں گھر کرنے والا سیپ جب موتی اگل دیا کرتا ہے تو وہ بازیچہ اطفال بن جایا کرتا ہے۔ اسی طرح اگر مسلمان کے دل سے اسلام اور قرآن مجید کی حقانیت کی روح نکال دی جائے تو وہ اس درخت کی مانند ہو جایا کرتا ہے جس میں برگ و بار تو ہوں مگر اسکے دیو ہیکل تنے میں دیمک لگی ہو تو ایسا درخت اور دین سے کوسوں دور رہنے والا انسان دنیا کی تیز ہوائوں کی زد میں آکر دھڑام سے زمین بوس ہو جایا کرتا ہے۔ لیکن حضرت انسان اس عارضی زندگی میں سب کچھ حاصل کرنے کے لئے اپنے ذاتی مفادات، اپنی عادات و اطوار اپنے رہن سہن، عبادات و ذکر و اذکار کے علاوہ حقوق العباد اور حقوق اللہ کو قرآن و حدیث کی کسوٹی پر پرکھے بغیر زندگی گزارتا ہے تو ایسا انسان کبھی بھی کامیاب و کامران نہیں ہوسکتا۔ ذرا ٹھہریئے، سوچئے اور الفاظوں کی زنجیر میں خود کو جکڑ کر صبر، شکر اور قناعت کے چھوٹے چھوٹے الفاظوں پر دیر تلک غور کیجئے اور پھر اپنے قلوب و اذہان کے نہاں خانوں میں ان الفاظ کے معانی اور مطالب پر غور و فکر کر کے سوچئے کہ میں آج کہاں کھڑا ہوں۔۔۔؟ تو آپ کو اپنی ذات کے بار ے میں خود احتسابی کے عمل کرنے کا موقع مل جائے گا۔ چونکہ میں خود کو بدلتا نہیں بلکہ دنیا کے معاملات کو اور دینی حقائق کو بدلنے میں مصروف عمل رہتا ہوں جبکہ مجھے اور آپ کو شریعتِ مطہرہ، توحیدِ باری تعالیٰ اور محمدؐ عربی کا محمدی انقلاب دعوتِ فکر دیتا ہے اور بہ آوازِ بلند مجھے اور آپ کو یہ باور کراتا ہے کہ قرآن و حدیث اور صراطِ مستقیم کے صاف ستھرے اور سیدھے راستے کا ہمیں فی الفور تعین کر لینا چاہیے کیونکہ اس دنیا کے تمام راستے جو دنیا والے ہمیں دکھاتے ہیں ان پر چل کر میں اور آپ دنیا کماتے ہیں اور تادمِ زیست کماتے چلے جائیں گے اور دین سے دوری کو اپنا مقدر بناتے چلے جائیں گے جبکہ دین سے دوری ہی ہمیں شیطانی راستوں کے تعین کی نوید سناتی ہیں جس سے دور رہنا ہی ہماری بھلائی اور فلاح انسانیت کی اصل معراج ہے ۔ میں نے اور آپ نے اب تک زندگی میں بے شمار چھوٹے چھوٹے (SMS)اور میسج لکھے اور پڑھے ہوں گے۔ یہ صرف کام کی ابتداء اور انتہا کی زنجیروں سے آپس میں ملاکر پھر ہم سے ہمیشہ کے لئے بچھڑ جاتے ہیں لیکن اس کے برعکس ’’ پیغامِ ربانی‘‘ قرآن مجید کی صورت میں ہمارے پاس 24گھنٹے موجود ہے اور تادمِ مرگ ہمارے پاس موجود رہے گا۔ اس میں رب تعالیٰ نے کائنات کے ہر انسان اور اربوں نفوسِ قدسیہ کے لئے اتنے اچھے اچھے میسج تحریر کئے ہیں جنہیں میں اور آپ پڑھ کر اندھیری اور گم کردہ راہوں سے نکل کر روشنی کی ان روشن اور چمکدار راہوں پر چل پڑتے ہیں جن کے سامنے کبھی بھی اندھیری راہوں پر چلنے کا انسان سوچ بھی نہیں سکتا اس لئے کہ انسان کے اندر صراطِ مستقیم پر چل کر جو دینی اور روحانی انقلاب جنم لیتا ہے وہ دنیا کی گم کردہ راہوں میں نصیب نہیں ہوتا۔ آئیے رب تعالیٰ کائنات کے حقیقی رب رحمان کے اس پیغام کو اپنے سینے سے لگائیں تاکہ ہمارے فکر و نظر کے محور و مرکز کو حقیقی خوشی، آسودگی اور گراں قدر تقویت مل سکے جس کی جستجو اور تلاش میں ہم نکلے ہوئے ہیں، یہ حقیقی خوشیاں اور روحانی تسکین کی راہیں اس وقت ہموار ہوںگی جب جب ہم قرآن و مجید کو سمجھ کر پڑھیں گے اور اساتذہ سے مزید سمجھیں گے۔ اس الہامی کتاب کی سچائی اور حقانیت جیسے جیسے اور جب جب ہم پر عیاں ہوگی تب تب ہماری ذات کے اندر اسلامی تبدیلی رونما ہوتی ہوئی نظر آئے گی۔ پس یہی تبدیلی دراصل آپ کے فکر و عمل کو اک نئی جلا بخشے گی ۔ میں اور آپ دنیا کی تمام لذتوں سے بے نیاز ہوکر دین اسلام کی حقیقی لذتوں سے آشنا ہوجائیں گے۔
نہ جا اسکے تحمل پر کہ بے ڈھب ہے گرفت اسکی
ڈر اسکی دیر گیری سے کہ سخت ہے انتقام اسکا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button