Column

آئین، ریاستی ادارے اور سیاستدان .. یاور عباس

یاور عباس

کسی بھی جمہوری معاشرہ میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں ۔ حکومتیں آئین عوام کی سہولت کے لیے مرتب کرتی ہیں ۔ قوانین معاشروں کی آسانی کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ آزاد اور خود مختار ممالک کے قوانین کالونی سسٹم کے قوانین سے مختلف ہوتے ہیں۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ کسی بھی ریاست یا معاشرہ میں کفر کا نظام چل سکتا ہے مگر ناانصافی کا نہیں ۔ جہاں بھی لاقانونیت ہوگی وہاں امن ناپید ہوجائے گا۔ قوانین لوگوں کو نظم و ضبط کا پابند کرتے ہیں ۔ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہے ۔ آئین کی غیر فعالیت کا خمیازہ ہم1971ء میں سانحہ مشرقی پاکستان کی صورت میں بھگت چکے ہیں۔1973ء کے آئین نے اگرچہ پاکستان کے وفاق کو مضبوط کرکے سلامتی کا ضامن بنایا مگر اسی آئین کے خالق کو چند برس بعد ہی تختہ دار تک پہنچا دیا گیا اور ملک میں آئین کو توڑ کر مارشل لائ نافذ کر دیا گیا۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو آمریت کے دور میں پھانسی دینے کے عمل کو عدالتی قتل قرار دیا گیا اور جج صاحبان نے بعد ازاں اپنے فیصلے پر افسوس بھی کیا۔ 11سال تک ملک میں مارشل لاء رہا ، آمریت کے دور سے نجات ایک فوجی ڈکٹیٹر کے دنیا سے رخصت ہونے پر ہی مل سکی۔ پھر90کی دہائی میں کوئی ایک حکومت بھی ایسی نہ گزری جس نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہو ۔ آئین پاکستان میں عوام کے ووٹوں کی طاقت سے اقتدار حاصل کرنے والے کو کبھی صدر پاکستان کی جانب سے گھر بھیج دیا جاتا رہا ۔ اکتوبر99ء میں پرویز مشرف کی شکل میں جمہوری ملک کو ایک بار پھر مارشل لاء کا سامنا کرنا پڑا اور قریباً 9سال تک پھر آمریت کی چھتری تلے جمہوری سسٹم چلتا رہا۔ یوں75سالہ آزادی میں شاید ہی کوئی ایسا عوامی دور ملا ہو جس میں وزیراعظم مکمل طور پر بااختیار ہو اور ریاستی ادارے اس کے ماتحت آئینی حدود میں اپنے اپنے فرائض منصبی تک ہی محدود رہے ہوئے ہوں۔
آزادی کے75سالوں میں ریاست کے بااختیار لوگوں نے چاہے وہ عوامی نمائندگان ہوں ، بیوروکریسی میں ہوں ، عدلیہ میں ہوں یا پھر اسٹیبلشمنٹ میں شاید ہی کبھی عوامی خوشحالی کے ایجنڈے پر کام کیا ہو۔ ہمیشہ سے ہی کرپشن کا بازار گرم رہا ۔ یہ جملہ تو سنا ہی ہوگا کہ ’’اس حمام میں سارے ننگے ہیں‘‘۔ یہ پاکستان کے ان تمام صاحبان اختیار کے لیے ہی شاید لکھا گیا ہوگا جنہوں نے اپنے اپنے دور میں مخالفین کو زیر کرنے کے لیے کرپشن کے مقدمات کے قائم کئے، جلسے جلوسوں میں تقریروں کے ذریعے مخالفین کی کرپشن کے وہ قصے سنائے مگر کارروائی کسی کیخلاف بھی نہیں کی اور جب تیسری پارٹی نے آکر ماضی کے حکمرانوں کا احتساب کرنے کی کوشش کی تو ساری جماعتیں جو ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہتی رہیں وہ اپنی اپنی کرپشن بچانے کے لیے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوگئیں۔ مختلف ریاستی اداروں سے بھی انہیں سرپرستی اور سہولت کاری ملتی رہی وگرنہ دنیا کے بیشمار ملکوں میں آج بھی سوال پوچھا جارہا ہے کہ وہ کون سا ملک ہے جہاں کرپشن کیسز میں ضمانتوں پر رہائی پانے والے وزارتیں چلارہے ہیں۔ آئین پاکستان کو لنگڑا لولا اور بے بس انہی مافیاز نے کیا ہے کہ جو اس سے استفادہ بھی کرتے ہیں اور ماضی میں انتخابات کے نام پر عوام کو بے وقوف بناکر اقتدار حاصل کرتے رہے اور پھر ملکی خزانہ سے اپنی تجوریاں بھرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کی معیشت ڈوب چکی ہے اور ملک خدانخواستہ ڈیفالٹ ہونے کے قریب ہے اور سیاست میں آنے والے بیروزگار افراد آج کھربوں پتی بن چکے ہیں، بیرون ملک انڈسٹریز چلارہے ہیں ۔ پارلیمنٹ میں موجود سبھی جماعتیں عوام کو متعدد بار بتا چکی ہیں کہ ملک میں آج تک کوئی بھی الیکشن شفاف نہیں ہوا۔ ہر الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگتے رہے مگر کبھی عوام کو مطمئن نہیں کیا گیا کہ الیکشن غیر جانبدارانہ، شفاف اور منصفانہ ہوئے ہیں ۔
آج تک ہم ریاستی ذمہ داران کے منہ سے سنتے آئے ہیں کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے مگر آج حقیقت میں نازک دور سے گزر رہا ہے کیونکہ ہماری معیشت تباہ ہوچکی ہے، سیاستدانوں کے رویوں میں عدم برداشت بڑھ چکی ہے، سابق آرمی چیف جنرل (ر) باجوہ کے دفاعی معاملات اور خصوصاً مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہوشربا انکشافات، فوج کی سیاست میں مداخلت ( حالانکہ ہر دور میں فوج کہتی آئی ہے کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں) بنیادی وجہ ہے مگر ریاست کے ذمہ داران اداروں نے کبھی اصل مسئلہ پر توجہ دی ہی نہیں کہ اس ساری تباہی کی جڑ کون ہے، کن کن لوگوں نے پاکستان کو تباہی کے اس دہانے تک پہنچایا ہے۔ سیاستدان، ججز، جرنیل، بیورو کریٹس کے خلاف کرپشن کے الزامات اور بعض پر کیسز تو سامنے آتے ہیں مگر کبھی کسی سے ریکوری ہوئی نہ ہی کوئی سزا ملی جس کی وجہ سے ایسے کرپٹ عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی ہے۔ 1973ء سے بننے والے آئین کو50سال مکمل تو ہوگئے مگر ہم ان 50سالوں کا ہی جائزہ لے لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ حکمران ہوں یا اداروں کے طاقتور لوگ، ان کی جائیدادیں، بینک بیلنس اور بیرون ملک کاروباروں میں اضافہ ہی ہوتا رہا ہے مگر ہر پاکستانی آئی ایم ایف کا مقروض اور پسماندگی کا شکار رہا ہے۔
حالیہ بحرانوں میں سب سے بڑا بحران پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد ہے، پی ڈی ایم جماعتوں نے پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے آئین کے واضح حکم کے باوجود الیکشن نہ کرانے کا فیصلہ کر لیا ہے، عدالتی حکم کو ماننے سے ہی انکار کرتے ہوئے عدلیہ اور پارلیمنٹ کو آمنے سامنے لا کھڑا کر دیا ہے، پہلے توہین عدالت پر وزیر اعظم گھر جا چکے ہیں مگر اب توہین پارلیمنٹ کی باتیں کی جارہی ہیں۔ پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کو پی ڈی ایم کی سہولت کار کہہ رہی ہے تو پی ڈی ایم جماعتیں عدلیہ کے معزز ججوں کو پی ٹی آئی کی سہولت کاری کے طعنے دے رہے ہیں۔ ریاستی اداروں کو ذمہ داری کا مظاہر ہ کرتے آئینی حدود میں رہتے ہوئے معاملات نہ صرف حل کرنے کی ضرورت ہے بلکہ خود بھی آئینی حدود کے اندر رہ کر کام کرنے کی عوام کو یقین دہانی کرائیں تو ملکی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button