ColumnTajamul Hussain Hashmi

سو دن بعد کی صورت حال .. تجمل حسین ہاشمی

تجمل حسین ہاشمی

بل کے مندرجات کیا ہیں؟
حکومت کا سپریم کورٹ کے رولز میں ترمیم کے بل کے حوالے سے کہنا ہے کہ از خود نوٹس اور بینچوں کی تشکیل کے اختیارات تنقید کی زد میں آتے رہے ہیں اور بار کونسلز بھی اس پر تشویش ظاہر کرتی رہیں، حکومت کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر انٹرا کورٹ اپیل کا حق بھی ہونا چاہیے۔ قانون میں کی جانے والی ترامیم کے مندرجہ بلا نکات، بینچوں کی تشکیل، از خود نوٹس کا فیصلہ ایک کمیٹی کرے گی جس میں چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز ہوں گے، یہی کمیٹی بنیادی انسانی حقوق کے معاملات کم از کم تین ججوں پر مشتمل بینچ کو بھجوائے گی اور انٹرا کورٹ اپیل پر14روز میں سماعت ہوگی۔ ارجنٹ معاملات کے کیسز14روز کے اندر اندر سماعت کے لیے مقرر ہوں گے۔ پنجاب اور کے پی کے اسمبلی کے ٹوٹنے کے بعد سے حکومت الیکشن کرانے کے حق میں نظر نہیں آتی ۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ختم ہوئی اس کے بعد سے سیاسی معاملات خراب ہیں ، ملکی معیشت بھی خرابی کی طرف گامزن ہے، مہنگائی کا طوفان ہے، اداروں کی کش مکش کو جنگ کا نام دیا جا رہا ہے، اس جنگ کے مقاصد ہیں کیا، جس قوم کو مقدم سمجھ جا رہا ہے اس کو ان فیصلوں کی سمجھ نہیں، ان کو بینچ کےتین چار، دو تین سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ، ایسی قانونی تبدیلیوں سے غریب کو کوئی فرق نہیں، پھر فرق کن کو پڑتا ہے کیا یہ تبدیلیاں عوامی نہیں ؟ کیا اس کے مقاصد کچھ اور ہیں، عام دیہاڑی دار مزدور سی پوچھیں کہ ملک میں عدلیہ اور اسمبلی کے بیچ میں کیا چل رہا ہے ، ہمیں تو بس اتنا پتہ ہے عمران خان حکومت میں کرونا آیا اور ہم بے روزگار ہوئے، مہنگائی کا طوفان دیکھا، خان کی تسلیوں پر بھروسہ تھا لیکن گھر نہیں چل رہا تھا پھر پرانے کھلاڑیوں نے مہنگائی سے نجات دلانے کے وعدے کئے اور مہنگائی کم نہ ہوئی لیکن ایک خوف میں ڈال دیا کہ ملک ڈیفالٹ کر جائیگا، ہمیں ڈیفالٹ سمجھ نہیں آیا لیکن مہنگائی کے نام پر سیاسی تاجر مل کر لوٹ رہے ہیں، ایک آٹا سستا تھا وہ بھی اپنی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے، مزدور کو اس بات سے کیا لینا دینا کہ بینچ تین چار کا ہونا چاہئے یا دو تین کا،60فیصد غریب تو اناج سستا اور روزگار مانگ رہا ہے، کابینہ نے فنڈز کے اجرا کا معاملہ ایک مرتبہ پھر پارلیمنٹ کے سپرد کر دیا ہے، وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ ثالثی اور پنچایت لگانا سپریم کورٹ کا کام نہیں بلکہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہے ۔ فواد چودھری کا اپنی ٹویٹ میں کہنا تھا کہ آئین بیانوں اور قراردادوں سے نہیں چلتا ، فواد نے کہا کہ آئین ہی کہتا ہے اسمبلیوں کے ٹوٹنے کے بعد90دن میں الیکشن ہونے چاہئیں، حکومت سمجھتی ہے کہ سپریم کورٹ آئین اور قانون کے مطابق فیصلے نہیں کر رہی، دوسری طرف جنرل (ر) باجوہ کے حوالے سے حامد میر کے انکشافات سے مزید سوالات اور کش مکش نے جنم لیا ہے ، حکومتی حلقے خاموش ہیں ، وزیر اعظم نے13اگست کو حکومت کے ختم ہونے کی تاریخ واضح کر دی ہے، حکومت وقت کے پاس تقریباً100دن باقی ہیں۔ ان100دنوں میں بجٹ بھی پیش ہو گا ، مہنگائی کے طوفان میں مزید اضافہ ہو گا، الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے لیے فنڈز کی رقم62ارب 80کروڑ50لاکھ سے زیادہ کا تخمینہ دیا ہے جو کہ2018کے عام انتخابات کی نسبت 146فیصد زیادہ ہیں جبکہ ان13سالوں میں افراط زر5.12تک رہی اور پی ڈی ایم کے ایک سال میں افراط زر کا کانٹا35فیصد تک پہنچ گیا۔
13اگست کو اتحادی حکومت ختم ہو جائیگی، ملک میں پیدا کئے گے بحران کو کس طرح کنٹرول کیا جائے گا، عام انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا۔ اس وقت کی اپوزیشن کے پاس کون سا بیانیہ ہو گا ، عوام کے مفاد میں کون سے منصوبے لے کر آئے گی جبکہ ملک کی معاشی صورتحال انتہائی کمزور ہو چکی ہے، موجودہ بحران جیسے تیسے ختم ہو جائیگا لیکن پیدا شدہ صورتحال اگلی منتخب حکومت اور اپوزیشن کے لیے امتحان ہوں گے، وزیر اعظم شہباز شریف کو اعتماد کے180ووٹ ملے چکے ہیں، اسمبلی نے وزیر اعظم پر اعتماد کا اظہار کیا ہے ، کیا اس اعتماد سے حکومت عدالتی فیصلے سے محفوظ ہو جائے گی جس خطرے کا اندیشہ منڈلا رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button