
مظہر چودھری
یوں تو عدم برداشت، سیاسی انتقام، مخالفت برائے مخالفت اور غیر جمہوری اقدار کو فروغ دینے والی سیاست پاکستان کے سیاسی نظام میں کوئی نئی چیز نہیں لیکن پی ٹی آئی کی شکل میں تیسری سیاسی قوت کے بتدریج طاقت پکڑنے سے ملکی سیاست محاذ آرائی اور نفرت و دشمنی کے خطرناک دور میں داخل ہو گئی ہے۔ اگرچہ2013ء میں بننے والی نواز حکومت میں پی ٹی آئی کو آئینی طور پر حزب مخالف کا کردار نہیں مل سکا تھا لیکن اس نے اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے روایتی اپوزیشن کا کردار ادا کرکے نوے کی دہائی کی سیاست کو زندہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پی ٹی آئی نے ایک طرف پہلے دھاندلی اور بعد ازاں پاناما کی آڑ میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تو دوسری جانب حکومت میں آکر احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کو ایسا رگڑا دیا کہ سیاسی رواداری اور افہام و تفہیم کی کوئی گنجائش ہی نہ رہی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اکیسویں صدی کی پہلی اور دوسری دہائی میں نوے کی دہائی میں آپس میں دست و گریباں سیاسی جماعتوں نے میثاق جمہوریت اور اٹھارویں ترمیم کی منظوری کی صورت میں سیاسی رواداری کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر بالغ النظر ہونے کا ثبوت دینا شروع کر دیا تھا۔ یہ دونوں جماعتوں کی اصولی سیاست کا ہی نتیجہ تھا کہ ( ن) لیگ کی سابقہ حکومت طویل ترین دھرنے اور پاناما کی آڑ میں ہونے والی جلسے جلوسوں کی منفی سیاست کے باوجود اپنی آئینی مدت پوری کر نے میں کامیاب رہی۔ رواداری اور افہام و تفہیم پر مبنی سیاست کا یہ منظر نامہ اگر دس سال مزید چلتا رہتا تو ملک میں جمہوری و سول بالادستی کا خواب بڑی حد تک پورا ہو چکا ہوتا لیکن پی ٹی آئی کی صورت میں لائی گئی تیسری قوت نے بہتری کے سارے امکانات ہی معدوم کر دئیے۔ پی ٹی آئی حکومت میں آکر سیاسی مخالفین کے احتساب پر سارا زور لگانے کی بجائے معیشت کے استحکام اور ترقی کی کوششیں کرتی رہتی تو اپوزیشن جماعتوں کو عمران حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی انتخابی مہم کا بنیادی نکتہ مخالفین کا احتساب ہی تھا لیکن انتخابی مہم کے دیگر نکات کے برعکس احتساب پر حد سے زیادہ زور دئیے رکھا۔ عمران حکومت نے ابتدائی دو سالوں میں ( ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کے گرد احتساب کا شکنجہ اتنی مضبوطی سے کسا کہ اپوزیشن کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں مہنگائی سمیت کسی بھی عوامی ایشو پر عملی احتجاج کی پوزیشن میں نہیں تھیں۔ ایک طرف اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سمیت مسلم لیگ ( ن) کے مرکزی رہنمائوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا جاتا رہا تو دوسری طرف سابق صدر آصف زرداری اور فریال تالپور سمیت پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کو بھی جیل کی ہوا کھانے پر مجبور کیا جاتا رہا۔ دو سال بعد حالات نے اس وقت قدرے پلٹا کھایا جب ایک درجن کے قریب اپوزیشن جماعتوں نے حکومت پر دبائو بڑھانے کے لیے تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا۔ پی ڈی ایم کا بنیادی مقصد حکومت پر دبائو بڑھانے کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ سے سیاسی و انتخابی نظام میں ہر قسم کی مداخلت بند کرنے کا مطالبہ بھی تھا۔ اس کے علاوہ پی ڈی ایم کے سات نکاتی ایکشن پلان میں حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی کوششوں سمیت قانون ساز اداروں کے اندر بیٹھ کر جدوجہد کرنے کا تذکرہ بھی شامل تھا۔ راقم کے خیال میں بہت بہتر ہوتا کہ اپوزیشن جماعتیں عدم اعتماد لانے کی بجائے پی ٹی آئی حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے دیتیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو عدم اعتماد جیسے انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور بھی عمران خان نے ہی کیا۔ عمران خان نے ایک طرف تو اپنے سوا کسی کو تسلیم نہ کرنے کی آمرانہ روش اختیار کرتے ہوئے سیاسی مخالفین سے بات چیت کے دروازے بند کئے رکھے تو دوسری طرف اپنی پسند کا آرمی چیف لا کر اگلے دس سال تک اپوزیشن جماعتوں کو اقتدار سے دور رکھنے کی حکمت عملی پر کام شروع کیا۔ یہ وہ حالات تھے کہ ماضی میں میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے والے فریق اور یکے بعد دیگرے دو سیاسی حکومتوں کی آئینی مدت پوری کرانے والی جماعتیں عدم اعتماد کے ذریعے ایک سیاسی حکومت کو وقت سے پہلے گھر بھیجنے پر مجبور ہوئیں۔ اگرچہ پارلیمانی جمہوری نظام میں عدم اعتماد کی تحریک لانا اپوزیشن جماعتوں کا آئینی حق ہوتا ہے لیکن بہتر یہی ہوتا کہ پاکستان جیسے مشکلات سے پروان چڑھتے جمہوری نظام میں عدم اعتماد جیسے آئینی حق کو استعمال کرنے کی بجائے سیاسی حکومتوں کے آئینی مدت پوری کرنے کے سلسلے کو جاری رکھا جاتا۔ اسی طرح بہت بہتر ہوتا کہ عمران خان عدم اعتماد کو اپوزیشن کا آئینی حق تسلیم کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں بطور اپوزیشن لیڈر مثبت کردار ادا کرنا شروع کر دیتے لیکن انہوں نے توقع کے عین مطابق عدم اعتماد کے ذریعے اپنی حکومت کے خاتمے کو منفی سیاست سے تعبیر کرتے ہوئے غیر جمہوری طرز عمل کا مظاہرہ شروع کر دیا۔ پہلے جلسے جلوسوں کے ذریعے حکومت پر فوری الیکشن کرانے کا دبائو ڈالا گیا تو بعد ازاں لانگ مارچ کے ذریعے لاکھوں کارکنوں کو اسلام آباد لا کر حکومت کو چلتا کرنے کے پروگرامز بنائے گئے ۔ اپوزیشن اتحاد کی جانب سے عدم اعتماد کے آئینی حق کے استعمال کے ردعمل میں پی ٹی آئی نے اپوزیشن جماعتوں سے اپنی مخالفت کو نفرت اور دشمنی میں ایسا بدلا کہ سیاسی عدم رواداری اپنی انتہائوں کو چھوتے ہوئے قتل و غارت تک جا پہنچی۔ فوری انتخابات کے مطالبے پر عمل درآمد کے لیے پی ٹی آئی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کو تحلیل کرنے جیسے انتہائی اقدام بھی اٹھائے لیکن حکومت مرکز اور صوبوں میں ایک ہی وقت میں انتخابات کرانے کے حق میں ہے۔ دیکھا جائے تو عدم اعتماد کی طرح اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اقدام بھی آئینی ہی ہے لیکن بہت بہتر ہوتا کہ گزشتہ دس بارہ سالوں سے چلتے چلاتے نظام کو پٹڑی سے اتارنے کی نوبت ہی پیش نہ آتی۔ کوئی شک نہیں کہ عدم اعتماد اور اسمبلیاں تحلیل کرنا آئینی اقدام ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان اقدامات کے نتیجے میں پیش آنے والے واقعات میں دونوں بڑے سیاسی فریقوں کی جانب سے آئین اور قانون کی خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ جمہوری اقدار کی صریحا پامالیاں دیکھنے میں آئیں۔ الیکشن کمیشن اور اعلی عدلیہ بظاہر آزاد و خود مختار ادارے ہیں لیکن اس وقت عام آدمی بھی یہ سمجھ رہا ہے کہ الیکشن کمیشن حکومت جب کہ عدالتیں پی ٹی آئی کی فیور میں کھڑی ہیں۔ بظاہر اسٹیبلشمنٹ سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی دکھائی نہیں دیتی لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی اقتدار کی رسہ کشی کی جنگ نے داخلہ و خارجہ محاذ پر اسٹیبلشمنٹ کی گرفت مزید مضبوط کر دی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی مخالفت برائے مخالفت ترک کرتے ہوئے آپس میں گفت و شنید سے سیاسی معاملات کا کوئی حل نکالیں ورنہ یہاں آئندہ بننے والی حکومتوں میں بھی عدم اعتماد، اسمبلیوں کی تحلیل اور الیکشن آگے بڑھانے جیسے اقدامات ہوتے رہیں گے۔