وزیر خزانہ کا ناقدین کو کرارا جواب

پاکستانی معیشت اس وقت تاریخ کے نازک ترین موڑ پر ہے۔ اتنی مشکل صورت حال پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ وطن عزیز پر قرضوں کا بار تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے، یہاں ہر نومولود جنم لیتے ہی لاکھوں روپے کا مقروض ہوتا ہے۔ پاکستانی روپیہ تاریخ کی بدترین پستیوں سے دوچار ہے۔ اس سے قبل روپے کی اتنی زیادہ بے وقعتی کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ امریکی ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر براجمان ہے۔ مہنگائی کا بدترین طوفان قوم پر مسلط ہے اور روز افزوں اس میں کافی شدت آتی جارہی ہے۔ ہر شے کے دام آسمان پر پہنچے ہوئے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ وہ سابق حکومت کی پیدا کردہ خرابیوں پر قابو پانے کے لیے کوشاں ہے اور اس حوالے سے اُس نے بعض مشکل فیصلے بھی بحالت مجبوری کیے ہیں۔ معیشت کی بحالی کے لیے اس کی نیک نیتی سے کوششیں جاری ہیں، جن کے بدیر سہی مگر ملکی معیشت پر خوش کُن اثرات مرتب ہوں گے۔ اس پر بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے اُس پر بے جا طنز و تنقید کے نشتر برسائے جارہے ہیں۔ مہنگائی کو دعوت دینے اور اس کا طوفان بپا کرنے والے عناصر خود کو ہر بات سے بری الذمہ کرتے ہوئے تمام تر خرابیوں کا ذمے دار موجودہ حکومت کو ٹھہرا رہے ہیں۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے سے متعلق قوم کو گمراہ کرنے کی مہم بھی زوروں پر ہے۔ اس مہم کے خلاف وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے ویڈیو بیان میں کھل کر گفتگو کی ہے۔ وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ کوئی کہہ رہا ہے کہ مجھے آئی ایم ایف نے منع کر دیا ہے، مجھے آئی ایم ایف منع نہیں کر سکتا، پاکستان آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا رکن ہے کوئی بھکاری نہیں ہے۔ اسلام آباد سے جاری ویڈیو بیان میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا، وزارت خزانہ کی اہم ذمے داری پیسوں کے حوالے سے ہے، سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو الیکشن کمیشن کو 21ارب روپے دینے کا کہا ہے، سپریم کورٹ کی جانب سے وفاقی حکومت کو رقم فراہم کرنے کے لیے 10اپریل کی مہلت دی گئی ہے، عدالت نے الیکشن کمیشن کو یہ ہدایت بھی دی کہ 11اپریل تک پیش رفت سے آگاہ کیا جائے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ آج سحری سے پہلے روانہ ہوکر کل امریکا پہنچنا تھا، پرسوں سے ورلڈ بینک سے اسپرنگ میٹنگ میں شرکت کرنی تھی لیکن آئی ایم ایف اجلاس سے متعلق میڈیا پر قیاس آرائیاں ہورہی ہیں، آئی ایم ایف کی اپریل میں سپرنگز اور سالانہ میٹنگز ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آئینی بحران کی کیفیت ہے، بحیثیت قوم ہم ایک بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں، وزیراعظم کے کہنے پر میں نے دورہ امریکا ملتوی کردیا ہے، ملکی حالات کے پیش نظر واشنگٹن میں میٹنگز میں ورچوئل شرکت کروں گا۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا اہم قومی معاملات پر لوز ٹاک اور لوز تجزیہ مناسب نہیں ہے، کوئی کہہ رہا ہے کہ مجھے آئی ایم ایف نے منع کر دیا ہے، مجھے آئی ایم ایف منع نہیں کر سکتا، پاکستان آئی ایم ایف کا ممبر ہے بھکاری نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا مشکل معاشی حالات کے باوجود کوئی ایک بھی بین الاقوامی ادائیگی ایک منٹ بھی لیٹ نہیں کی، پاکستان نے 11ارب ڈالر کی عالمی ادائیگیاں کی ہیں، آئی ایم ایف کی جتنی کیوریز آئیں سب کا تسلی بخش جواب دیا ہے، آئی ایم ایف سے سٹاف لیول معاہدہ ہونے والا ہے، ایک دوست ملک آئی ایم ایف کو 2ارب ڈالر کی ادائیگی کی تصدیق کرچکا ہے اور ایک دوست ملک کی جانب سے ایک ارب ڈالر کی تصدیق کا انتظار ہے۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا 2017میں مسلم لیگ ن نے پاکستان کو دُنیا کی 24ویں معیشت بنا دیا تھا لیکن پچھلی حکومت نے پاکستان کو 24ویں معیشت سے 47ویں معیشت بنا دیا، پاکستان اس بھنور سے نکلے گا، پاکستان کو دوبارہ سے 24ویں معیشت بنانے کی طرف سمت تبدیل کریں گے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اُن لوگوں کو آئینہ دکھا دیا ہے جو پس پردہ رہتے ہوئے قومی مفاد کے خلاف ناپسندیدہ سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں۔ یہ طرز عمل کسی طور مناسب نہیں گردانا جاسکتا۔ حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ وطن عزیز کے متعلق مثبت بیانیے پیش کیے جائیں۔ ایسی منفی باتیں اور پراپیگنڈا مہمات سے اجتناب کیا جائے، جس سے ملکی ساکھ پر بُرے اثرات مرتب ہوتے ہوں۔ اس میں شبہ نہیں کہ حالات مشکل ضرور ہیں، لیکن ان سے احسن طریقے سے نمٹا جائے تو معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس عزم کا اعادہ وزیر خزانہ نے اپنے ویڈیو بیان میں بھی کیا ہے۔ انہوں نے ملکی معیشت کے بھنور سے نکل جانے کا عزم ظاہر کیا ہے اور ان شاء اللہ ایسا ضرور ہوگا۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا رکن ہے، بھکاری نہیں اور اہم قومی معاملات پر لوز ٹاک اور لوز تجزیے کو نامناسب قرار دیا۔ پاکستان کی جانب سے 11ارب ڈالر کی ادائیگی یقینی طور پر بڑی کامیابی گردانی جاسکتی ہے، جس کا کریڈٹ موجودہ حکومت کو جاتا ہے۔ موجودہ حکومت نے کفایت شعاری پر بھی توجہ دی ہے اور بیوروکریسی کی مراعات میں خاطر خواہ کمی کو ممکن بنایا ہے۔ دُنیا یاد رکھے کہ پاکستان تا قیامت قائم رہنے کے لیے وجود میں آیا تھا اور اس کے حصول کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی زندگیوں کو قربان کر دیا تھا۔ یہ کبھی تباہی و بربادی سے دوچار نہیں ہوسکتا۔ اس کی معیشت ضرور مشکل حالات سے نکلے گی۔ حکومت کو معیشت کی بہتری کے لیے راست اقدامات ممکن بنانے کی ضرورت ہے۔ کفایت شعاری کی ریت مزید مضبوط کی جائے۔ حکومتی اخراجات میں مزید کمی یقینی بنائی جائے۔ ملک بیش بہا وسائل سے مالا مال ہے۔ ملکی وسائل سی مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ یہاں کی زمینیں سونا اُگلتی ہیں۔ زراعت معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس شعبے پر خصوصی توجہ دینے اور زرعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافے کے لیے حکومت کو اقدامات کرنے چاہئیں۔ ملکی برآمدات میں زیادہ سے زیادہ اضافے کے لیے اقدامات کیے جائیں جبکہ درآمدات میں خاطرخواہ کمی لائی جائے۔ اس کے علاوہ ارض پاک کی سر زمینوں میں قدرت کے بیش قیمت خزینے مدفن ہیں۔ ان کو صحیح طور پر بروئے کار لایا جائے۔ کُل ملکی معیشت کا دارومدار وسائل پر منتقل کیا جائے۔ پاکستان قدرت کے انمول مقامات کی حامل سرزمین ہے۔ اس تناظر میں سیاحت کے فروغ کے لیے سنجیدہ کوششیں ناگزیر ہیں۔ اگر وسائل کے اندر رہتے ہوئے حکومت مسائل کا حل نکالنے میں سرخرو رہی تو یہ ملک و قوم کی بڑی خدمت شمار ہوگی۔