نئے اضلاع اور بہاول پور! .. محمد انور گریوال
محمد انور گریوال
حکومتِ پنجاب نے گزشتہ دنوں پانچ نئے اضلاع کے قیام کے اعلانات کئے۔ ان میں مری، تلہ گنگ، وزیرآباد، تونسہ اور کوٹ ادّو شامل ہیں۔ اِن اضلاع کے رہائشی یقیناً خوشی سے نہال ہوں گے اور حکومتِ وقت کی اِس عنایت پر شُکر و تحسین کے جذبات سے لبریز ہوں گے۔ ہونا بھی چاہیے، ترقی کس کو پسند نہیں، درجہ بندی میں بلند پروازی کون نہیں چاہتا؟ کسی بھی بڑے شہر یا بڑے ادارے کے چھوٹے یونٹ بنا دینے سے ترقی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، تقسیمِ کار سے کارِ زیست آسان ہو جاتا ہے۔ حکومتِ پنجاب کا یہ اقدام لائقِ تحسین ہے۔ مری اپنی دلکشی اور موسمی انفرادیت کی وجہ سے پسندیدہ ترین مقام ہے، گزشتہ برس بہت سے سیاح اچانک بہت زیادہ ہو جانے والی برف باری میں محصور ہو کر رہ گئے تھے، جس سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہو گئی تھیں۔ تب ہی مقتدر طبقوں میں مری کو ضلع بنانے کا اعلان سامنے آگیا تھا، تاہم عمل کی نوبت اب آئی ہے۔
اضلاع بنانے کے لیے منصوبہ بندی تو ہوتی ہی ہوگی، بے شمار اخراجات میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ اِس اہم کا م کے لیے یقیناً کوئی اشاریے بھی ہوتے ہوں گے، جن کو مدِ نظر رکھ کر کسی چھوٹے شہر کو ضلع کا درجہ دیا جانا ضروری ہوتا ہے۔ ہمارے خیال میں جس شہر کو ضلع بنایا جارہا ہو، اُس کی اہمیت و انفرادیت، پہلے سے موجود ضلعی صدر مقام سے دُوری اور شہر کی آبادی وغیرہ اہم ہیں۔ مری کو اگر کسی بھی میرٹ سے بالا تصور کر لیا جائے تو بھی دیگر چار اضلاع کے میرٹ پر صاحبانِ اقتدار کے پاس دلائل ، جواب اور جواز ضرور ہوں گے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ اقدام دور اندیشی یا منصوبہ بندی یا کسی بہت ضرورت کے تحت نہیں اٹھایا گیا، بس مری کے کندھے پر بندوق رکھ کر چار اور شکار بھی کر لیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس اقدام پر بہت سے سوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں، خاص طور پر جو شہر ضلع بنائے جانے کے مستحق ہیں اور وہ کسی حد تک میرٹ پر بھی ہیں ، اُن کی حیرانی اور پریشانی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
بہاول پور ، محرومیوں کے ضمن میں سرِ فہرست ہے۔ بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ جب پاکستان ظہور پذیر ہوا تو ریاست بہاول پور ہی تھی، جس کے فرماں روانواب سر صادق محمد خان خامس نے پاکستان کا ہاتھ تھام کر معاشی دلدل سے نکالنے میں مدد کی تھی، یہی نہیں بھارت کی بھر پور پیشکش کے باوجود پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا۔ پھر اس کی صوبائی حیثیت ’ون یونٹ‘ کے قیام کے وقت ختم کی گئی، مگر بحالی نصیب نہ ہوئی۔ ’’بحالی صوبہ بہاولپور‘‘ کی تحریک تو ایک طرف، قیامِ پاکستان سے اب تک یہاں کسی بھی طاقتور، کمزور، فوجی، جمہوری، کٹھ پتلی یا کسی بھی قسم کی حکومت کی نظرِ کرم نہیں پڑی۔ پاکستان کی سب سے بڑی اور سب سے خوشحال ریاست سے ایک پسماندہ علاقے تک کے سفر میں جہاں حکمران شامل ہیں، وہیں مقامی سیاستدانوں کا بھی کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تب سے اب تک بہاول تین اضلاع (رحیم یار خان، بہاول پور اور بہاول نگر)پر ہی مشتمل ہے۔
رحیم یار خان کی ایک تحصیل صادق آباد کی آبادی پنجاب کے گزشتہ بہت سالوں میں قائم ہونے والے کم از کم پندرہ ضلعی شہروں سے زیادہ ہے۔ اُسی کی دوسری تحصیل خان پور کی آبادی بھی مندرجہ بالا پندرہ اضلعی شہروں سے زیادہ ہے۔ بہاول پور کی تحصیل احمد پور شرقیہ بہاول پور سے ترپن کلومیٹر کی مسافت پر ہے، آبادی کے لحاظ سے قریباً دس اضلاع سے بڑا ہے۔ بہاول پورکی ایک تحصیل حاصل پور ہے، اُس کا بہاول پور سے فاصلہ 90کلومیٹر ہے۔ ملتان کو دیکھئے، کوئی زمانہ تھا جب خانیوال، مظفر گڑھ، لودھراں، وہاڑی وغیرہ ملتان کی تحصیلیں تھیں، اب ایک عرصہ سے ضلعی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ لودھراں کو دیکھ لیجئے، بہاول پور سے محض سولہ کلومیٹر دور ہے، ڈویژن کے اعتبار سے ملتان میں شامل ہے، بہاول پور کی دو تحصیلوں سے اب بھی اُس کی آبادی کم ہے۔
پون صدی میں بہاول پور ڈویژن میں سے کوئی بھی ضلع نہ بننا ایک بہت بڑی محرومی ہے۔ مرکزی یا صوبائی حکمرانوں پر تنقید کے ڈونگرے برسانے کے لیے تو ہم ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، اُن کے مظالم اور استحصال پر حسبِ توفیق احتجاج بھی کرتے ہیں،مگر سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ مقامی سیاستدانوں کی نااہلی ، ذاتی مفاد اور اپنے ہی حکمرانوں کی خوشامد اور چاپلوسی جیسے عناصر ہی اصل رکاوٹ ہیں۔ اِن میں یہ ہمت و جرأت نہیں ہے کہ لاہور یا اسلام آباد اپنے قائدین سے کوئی مطالبہ کر سکیں۔ رحیم یار خان میں کچھ سیاستدانوں کی اجارہ داری ہے، تو وہ اپنے لیے فائدے، عہدے اوروزارتیں وغیرہ حاصل کر کے خاموش ہو رہتے ہیں۔ اپنے ہی مفاد کے لیے یہ لوگ بہاول پور صوبہ بحالی کے نعرے بلند کرکے ووٹ وغیرہ بٹور لیتے ہیں ، اِ نہوں نے کبھی صوبہ بحالی کے لیے سنجیدہ کوشش نہیں کی، نئے اضلاع اور تحصیلوں کا مطالبہ یا منصوبہ بندی کا لفظ اِ ن سیاستدانوں کی زبانی کبھی سننے میں نہیں آیا۔حق تو ہمیشہ اُسی کو ملتا ہے، جو حق کا طلبگار ہو، حق لینے یا پھر چھیننے کا ہُنر جانتا ہو، مسکینوں، محکوموں اور غلاموں کو حق کون دیتا ہے؟ رہ گئے حقائق، تو وہ یہی ہیں کہ بہاول پور کی تحصیلیں نئے بننے والے اضلاع سے ہر لحاظ سے زیادہ مستحق اور میرٹ پر پورا اترتی ہیں کہ انہیں ضلع بنایا جائے۔ 75 برس سے پِسنے والے محسنوں کے احسان کو یاد کیا جائے۔ بہاول پور کی تحصیل احمد پور شرقیہ اور حاصل پور اور رحیم یار خان کی تحصیل خان پور کو ضلع کا درجہ دیا جائے۔ میرٹ اور انصاف کا تقاضا ہے کہ پورے صوبے کے شہروں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے۔