ColumnNasir Sherazi

کس کی ماں کوماسی کہیں ؟ .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

پورا ملک خون جمادینے والی سردی کی لپیٹ میں ہے، راستے دھند میں گم ہیں، بالائی علاقوں میں ندی نالوں کا پانی جم گیا ہے، کچھ جگہوںپر برف باری ہوچکی ہے، کچھ مقامات پر ہونے والی ہے، مختلف علاقوںمیںبارشوں کی متعدد مرتبہ پیش گوئی کی گئی مگرہر مرتبہ غلط ثابت ہوئی،سرد علاقوںمیں پارہ منفی گیارہ تک گرچکا ہے، سوئی گیس کی لوڈ شیڈنگ نے معاشرتی زندگی درہم برہم کردی ہے، کھانا تیار کرنے کے اوقات میں بھی صارفین کو ضرورت کے مطابق گیس نہیں مل رہی، نماز پنجگانہ کے پابند نصف شب نماز تہجد کے لیے اٹھتے ہیں اور سرد ترین پانی سے وضوع کرتے ہیں۔نصف پاکستان توانائی کے متبادل ذرائع استعمال کررہا ہے جو بہت مہنگے ہیں۔ گذشتہ ہفتے لاہورکے نواحی علاقے میں شادی کی تقریب منعقد ہوئی، دولہا دلہن نے رات اپنے کمرے کو مزید گرم کرنے کے لیے گیس ہیٹر جلایا جو ان کے محو خواب ہونے پر گیس کے کم پریشر کے سبب بجھ گیا، گیس لیک ہوتی رہی صبح ہوئی تو دولہا دلہن کی سہاگ رات ختم ہونے کے ساتھ ان کی زندگی بھی ختم ہوچکی تھی۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے، ہر برس یہ کہانی کسی نہ کسی انداز میں سامنے آتی ہے۔جاری موسم سرما میں کئی کئی روز سورج نظر نہیں آیا تھوڑی بہت حرارت اگر کہیں نظر بھی آئی تو وہ آڈیو لیک کے سبب تھی۔ ملک بھر میں سردی سے ٹھٹھرتی نوجوان اور بزرگ نسل ایک دوسرے سے دن میں تین مرتبہ استفار کرتی ہے فلاں صاحب یا فلاں صاحبہ کی کوئی اور آڈیو ریلیزہوئی یا نہیں، اُسے جواب ملتا ہے آڈیو کوچھوڑیں اب تو انکی ویڈیو بھی آچکی ہے پھر اُس ویڈیو کو دیکھنے کے لیے اتنے ہی جتن شروع ہوجاتے ہیںجتنے کبھی ماضی میں عید کا چاند چڑھنے کی خبرملنے کے بعد اسے دیکھنے کیلئے کیے جاتے تھے۔ ویڈیو میں چڑھنے والے چاند کی مقبولیت دیکھتے ہوئے عین ممکن ہے اس مرتبہ عید کا چاند خود چڑھنے سے انکار کردے پھر اُس چاند کو چڑھانے کے لیے حکومت کو کوئی نیا چاند چڑھانا پڑ جائے۔
ہیکرز کی طرف سے سرکاری، سیاسی، حکومتی اور سابق حکومتی اہم شخصیات کی آڈیوز ایک نیا درد سر ہے۔ کچھ آڈیوز ایسی ہیں جو مارکیٹ میں پہلے آئیں سرکار کی نظر بعد میںان پر پڑی۔ وفاقی حکومت نے حساس معلومات کو روکنے کے لیے تمام صوبائی حکومتوںاوروزارتوں کو اہم خط ارسال کردیا ہے لیکن ہیکرز اب بھی حکومت سے ایک قدم آگے نظر آتے ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح جرائم پیشہ افراد جرائم کی بیخ کنی کرنے والوں سے آگے رہتے ہیں۔ بعض دانشوروں کاخیال ہے کہ اقتصادی بحران اور اشیائے صرف میں قیمتوں کے تین سو فیصد اضافے سے توجہ ہٹانے کے لیے مختلف اوقات میں چھوڑے جانے والے شوشوں میں سے یہ سب کچھ بھی ایک شوشہ ہے لیکن اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ ایسے شوشوں سے وقتی تفریح تو مل سکتی ہے پیٹ کا ایندھن نہیں بھرسکتا۔ ایک سروے کے مطابق روز مرہ کی اشیاء صرف کی قیمتوں میں اضافے کے سبب دو کروڑ افرادمزید غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسی لاکھ افراد آئندہ ماہ اس فہرست میں شامل ہوجائیں گے۔ آٹے کا بحران جاری بحرانوں میں سرفہرست ہے، فی کلو آٹا 150 روپے کا ہوچکا ہے، روٹی تیس روپے کی ہوچکی، یہ اس ملک کا حال ہے جو بنیادی طور پر زرعی ملک ہونے کی پہچان رکھتا ہے لیکن ہر برس لاکھوں ٹن گندم اور چینی درآمد کرتا ہے، دوسری طرف اس کی پیداوارکا بڑا حصہ سمگل کردیا جاتا ہے،اس ناسور پر گذشتہ تیس برس سے قابو نہیں پایا جاسکا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یہ سمگلنگ امریکہ یا اسرائیل نہیں کروارہا اس کے منصوبہ ساز ملک کے اندر موجود ہیں حکومت کسی کی بھی ہو ان کے مقاصد کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں ہوتی بلکہ سمگلنگ کا حجم ہر برس بڑھتا رہتاہے۔ کچھ اعدادو شمارحیرت انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ افسوس ناک بھی ہیں ایک جاری کردہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ارکان اسمبلی کی دولت میں پچاسی فیصد اضافہ ہوا ہے، یہ اضافہ ایسے وقت میں ریکارڈ کیاگیا ہے جب ملک میں پانی ، بجلی اور گیس کی کمی کے باعث تیس فیصد کارخانے بند ہوئے ہیں، ایکسپورٹ میں کمی آئی ہے، پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکا جن شخصیات کی دولت میں اضافہ ہوا ہے وہ کس کاروبارکے ذریعے ہوا ہے کیونکہ ہرکسی کو تو غیرملکی سربراہان کی طرف سے قیمتی گھڑیاں، زیورات اور دیگر گراں قدر تحائف نہیں ملے نہ ہی انہوں نے انہیں مارکیٹ میںفروخت کیا ہے پھر معلوم نہیںہورہا کہ ’’کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے ، کون لایا ہے یہ جھمکے‘‘۔
وزیراعظم پاکستان کلائمیٹ ریزیلنٹ کانفرنس میں شرک کے لیے جینوا پہنچ چکے ہیں، پاکستان اس امید کے ساتھ اس کانفرنس میںشرکت کررہا ہے کہ اِسے یہاں سے سوا سولہ ارب ڈالر ملنے کی توقع ہے۔ اس کانفرنس کے بعد اس فنڈ سے جو کچھ بھی مل جائے وہ غنیمت ہے کیونکہ پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہوچکے ہیں جبکہ اسے مارچ کے مہینے تک آٹھ ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنا ہیں، یہاں سے جو کچھ ملے گا وہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہوگا لیکن ہم کب تک تنکے تلاش کرتے رہیں گے اور کب تک ان کے سہارے تیرتے رہیں گے، اس سوال کا جواب دینے کے لیے کوئی تیار نہیں البتہ دل بہلانے کے لیے کہانیاں بہت ہیں جو ہرکسی کے پاس ہیںاور سنائی جاتی ہیں۔
پورے ملک کے بازار آٹھ بجے اور ہوٹل دس بجے بند کرنے کا فرمان جاری تو ہوگیا لیکن اسے ملک بھرمیںپذیرائی نہیں مل سکی، کاروباری طبقہ پوچھتا ہے کہ حکومت اور حکومتی شخصیات نے اس کڑے وقت میں اپنے اخراجات کہاں اورکتنے کم کیے ہیں۔ حکومت وفاقی ہو یا صوبائی کوئی تو اس کاجواب دے کیا سو کے ہندسے کے قریب پہنچے وزراء اور مشیروںکی تعداد کم کی گئی ہے، کیا حکومتی شخصیات کے اربوں روپے کی سہولیات کم کی گئی ہیں کہیںبھی کچھ بھی نہیں بدلا، البتہ گذشتہ ماہ ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کا بل پاس ہوا ہے جو شاید اس ملک کا غریب ترین طبقہ ہے۔
ماہ دسمبر میں قومی خزانے کو پے درپے کئی جھٹکے لگے جن سے ہونے والے نقصان کو برداشت کرنے کے لیے تین ماہ میںٹریژری بلز کے ذریعے اڑتالیس کھرب روپے قرض لینے کامنصوبہ بنایاگیا ہے اس حوالے سے سٹیٹ بینک آف پاکستان مجموعی طور پر سات آکشن کا انعقاد کرے گا۔
حکومت منی بجٹ لانے اور درآمدات پر تین فیصد فلڈ ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے،جس کے نتیجے میں مہنگائی کی ایک نئی لہر آئے گی جو اپنے زور میںبہت کچھ بہا کر لے جاسکتی ہے، پھر اس کے بعد حکومت کے لیے قدم جمانا مشکل نظر آتا ہے، پس ان فیصلوں کا ایک مطلب اور بھی نکلتا ہے کہ سب نیویں نیویں ہوکر نکل جائیں گے ،پھر آنے والی حکومت یعنی نگران سیٹ اپ جانے والوں کے کھاتے میں سب کچھ ڈال کر سرخرو ہوجائے گا جبکہ قوم پوچھتی رہ جائے گی ہم کس کی ماں کو ماسی کہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button