ColumnImtiaz Aasi

نابغہ روزگار بیوروکریٹ کی رحلت .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو فرار نہیں، جلد یا بادیر ہم سب کو بارگاہ ایزدی میں حاضر ہونا ہے۔ چلتا پھرتا اور ہمہ وقت متحرک انسان اچانک رخصت ہو تو یقین نہیں آتا۔سعودی عرب کا حج مشن ہو یا وفاقی دارالحکومت کا سیکرٹریٹ اپنے پرائیوں میں تمیز کئے بغیر لوگوں کی خدمت کرنے والا اچانک داغ مفارقت دے تو انسان سوچوں میں گم ہو جاتا ہے۔
آفتاب اسلام راجا کا میسج دیکھ کریقین نہیں آرہا تھا کہ ایس ایم اسماعیل ہمیں اچانک چھوڑ جائے گا۔بیوروکریٹ ہوتے ہوئے وہ حج کے حوالے سے مذہبی حلقوں میں بہت عزت و توقیر کی نگاہ سے دیکھتے جاتے تھے ۔پی سی ایس کے امتحان میں پہلی اور قانون کے امتحان میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والے مہربان دوست ایس ایم اسماعیل کے مجھ ناچیز پر بے شمار احسانات ہیں۔ ایس ایم اسماعیل سراپا محبت تھے وہ اسلام آباد میںبیوروکریسی اور عوامی حلقوںکی مقبول ترین شخصیت تھے۔ دوران ملازمت ہرآنے والے کیلئے ان کے دفتر کے دروازے کھلے رہتے تھے ۔ فاروق ہارون کے بعد وہ اسلام آباد کے دوسرے ڈپٹی کمشنر تھے۔اسلام آباد میں تعینات ہوئے تو بس وہیں کے ہو کر رہ گئے ۔ راولپنڈی میں اسی کی دہائی میں وہ اسٹنٹ کمشنر تھے تو پہلی ملاقات کچھ ایسی ہوئی جو وقت گذرنے کے ساتھ دوستی میں بدل گئی ۔
اس کے کچھ عرصہ بعداسلام آباد ضلع بنا تو وہ ڈپٹی کمشنربن گئے۔گریڈ بیس میں ترقی یاب ہونے کے بعد بے نظیر بھٹو کے دور میں انہیں پیپلز پروگرام کا ڈائریکٹر جنرل بنا دیا گیا۔ایک روز ان سے ملاقات کیلئے دفتر گیا تو کہنے لگےکہ وزیراعظم سرکاری ملازمین کو پانچ مرلے کے پلاٹ دے رہی ہے تم بھی درخواست دے دو میں تمہیں پلاٹ لے دیتا ہوںمیرے انکار پر وہ حیران ہوئے۔ میںنے درخواست کی کہ مجھے حج پر جانا ہے تو کہنے لگے اگلے سال تمہیں حج پر بھیج دوں گامیرے اصرار پر انہوں نے سیکرٹری مذہبی امور محمد یوسف کو فون کر دیا ۔محمدیوسف بہت ہی ملنسار اور شریف النفس بیوروکریٹ تھے۔ہر ملنے والے سے اٹھ کر ملا کرتے بلکہ وہ عاجزی اورانکساری کا مجسمہ تھے۔ایس ایم اسماعیل کی کاوشوں سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں حرمین شریفین میں حاضری کا موقع فراہم کر دیا۔سیکرٹری صاحب مکہ مکرمہ آئے تو مجھے حجاج
کرام کی خدمت میں پیش پیش دیکھ کربہت متاثر ہوئے ۔ایس ایم اسماعیل کی قسمت نے یاوری کی اگلے سال وہ پاکستان حج مشن جدہ میں ڈائریکٹر جنرل تعینات ہوگئے ۔ حج سیزن شروع ہوتے ہی انہوں نے وزارت مذہبی امور کو پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر خالد سیف اللہ اور اس ناچیز کو حاجیوںکی خدمت کیلئے سعودی عرب بھیجنے کا سیکرٹری کو ٹیلکس بھیج دیا۔اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے مہمانوں کی خدمت کا موقع دوبارہ فراہم کیا تو میں نے بھی دن رات ایک کر دیا۔ایک رات مسجد الحرام کے قریبی علاقے جرول میں حجاج کی بسیں جمع ہوگئیں پتا چلا حاجی عمارت کی حرم شریف سے دوری کے خیال سے قیام کرنے کو تیار تھے ۔ایس ایم اسماعیل نے مجھے طلب کیا اور اس مسئلے کو حل کرنے کو کہا۔میرے لیے زندگی کا یہ پہلا تجربہ تھا حجاج کی اتنی بڑی تعداد کو مطمئن کرنا اور انہیںعمارت میں ٹھہرانا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔خیر ہم ایک سعودی معلم جس کی وہ عمارت تھی، کے کارندے کے ساتھ موٹر سائیکل پر جرول پہنچ گئے تو حجاج کرام کا ہجوم لگا تھا۔ڈائریکٹر حج ملک عبدالرحمان مرحوم سعودی پولیس اور موسسہ کا عملہ بھی موجود تھا۔حجاج کے گروپ لیڈروں سے ہم نے بات چیت کرکے انہیں یقین دلایا آپ صرف اس عمارت میں ایک رات گذار لیں اگلی صبح انہیں حرم شریف کے قریب کسی عمارت میں لے جائیں گے۔اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے کئی گھنٹوں کا مسئلہ چند منٹوں میں حل ہو گیا۔
ایس ایم اسماعیل بہت خوش ہوئے کہنے لگے حاجی رات عمارت سے باہر رہتے تو میری نوکری چلی جاتی۔دراصل مکہ مکرمہ پہاڑی علاقہ ہے اور پیالہ نما شہر ہے ۔مسجد الحرام کی توسیع سے اب عمارات حرم شریف سے خاصی دور ہیں لیکن اس دور میں مسجد الحرام کو اتنی وسعت نہیں دی گئی تھی لہٰذا عمارات بہت قریب تھیں۔مکہ مکرمہ کی زگ زیگ سٹرکوں سے نفسیاتی طور پر حاجی حضرات عمارات کو حرم سے دور تصور کرتے تھے۔الحمدللہ مجھے دس مرتبہ حج کی سعادت حاصل ہوئی جس آغاز حق تعالیٰ کے خصوصی کرام اور ایس ایم اسماعیل کے تعاون سے ہوا۔ایس ایم اسماعیل میںسب سے بڑی خوبی یہ تھی وہ دن رات حاجیوں کی فلاح وبہبود میں مصروف عمل رہتے۔ بدقسمتی سے بعض امور پر وفاقی وزیر مذہبی امور مولانا عبدالستار نیازی سے اختلافات ان کی وطن واپسی کاباعث بن گئے ۔وطن واپسی پر نواز شریف کے دور میں یلیو کیب گاڑیوں کا انہیںڈائریکٹر جنرل مقر ر کر دیا گیا۔ایک روز کہنے لگے تم بھی ایک گاڑی لے لو تمہاری پہلی قسط کمپنی ادا کردے گی میرے انکار پر بہت حیران ہوئے۔ مجھے بتانے لگے صحافیوں کی ایک فہرست وزیراعظم نے بھیجی ہے انہیں گاڑیاں دے دی جائیں اور ان کی قیمت سرکاری خزانے سے ادا کی جائے۔سلمان فاروقی ان کے سیکرٹری تھے جو مواصلات کی وزارت کے انچارج تھے۔ایس ایم اسماعیل سے جو کوئی ایک مرتبہ ملتا بس انہی کا ہو کر رہ جاتا تھا۔ایک وقت تھا جب سیکرٹریٹ گروپ کے افسران کو گریڈ بیس سے ایکس میں ترقی دینے پر جمو د طاری تھا ۔ایس ایم اسماعیل نگران وزیراعظم ملک معراج خالد کے پی ایس او لگے تو ایک ہی روز میں یہ مسئلہ حل کرا دیا اور ساٹھ کے قریب سیکرٹریٹ گروپ کے افسران کو گریڈ بیس سے گریڈ ایکس میں ترقی دے دی گئی جس میں ان کا اپنا نام بھی شامل تھا۔ان کا بڑا بیٹاعزیزی ڈاکٹر جنید اسماعیل آج کل پولی کلینک ہسپتال میں نیورو سرجن ہے۔
ایس ایم اسماعیل کا شمار قابل ترین افسروں میںہوتا تھا۔اپنی اہلیہ بھابی نیلوفر کی وفات کے بعد وہ بہت افسردہ رہتے تھے ۔ آئی ایٹ کے قبرستان میں ان کی نماز جنازہ میں حاضر اور ریٹائرڈ بیوروکریٹس کا جم غفیر اس امر کا غماز تھا وہ واقعی سبھی کے پیارے تھے۔ان کے حلقہ احباب میں مظہر رفیع ،محمد یوسف ، مشکور احمد خان، قاضی علیم اللہ شامل تھے جو سب سفر آخرت پر روانہ ہو چکے ہیں ۔حق تعالیٰ ان سب کی آخرت کی منزلیں آسان فرمائے (امین) ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button