Columnمحمد مبشر انوار

شہداء سے بے وفائی .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

جہاد فی سبیل اللہ میں جان کی بازی لگانے والوں کو اللہ رب العزت نے رتبہ شہادت سے نوازا ہے اور شہداء کیلئے حیات ابدی کا وعدہ کیا ہے۔ایک ایسی زندگی کہ جس میں شہید کو قبر میں بھی رزق فراہم کیا جاتا ہے ،جس کا فہم و ادراک دنیا داروں کیلئے ممکن ہی نہیں،شہیدوں کا ہر قصور معاف ہے ماسوائے قرض کہ جس کی ادائیگی بہرصورت ان کے لواحقین کو کرنی ہے۔ قبل از اسلام رتبہ شہادت سے آگہی قریباً نہ ہونے کے برابر تھی اور افواج فقط ہوس اقتدار،توسیع سلطنت یا پھر بادشاہوں؍شہنشاہوں کی خوشنودی کی خاطر میدان جنگ میں اترتی رہی ہیں،جس میں کسی نظریہ کا محرک ہونا کبھی بھی شامل نہیں رہا۔ایسا بھی نہیں کہ رزم حق و باطل کی معرکہ آرائی میںجان کی بازی لگانے والا ہر جانباز ہی رتبہ شہادت سے سرفراز ہوکہ اللہ رب العزت نے اس کا معیار بھی طے کر رکھا ہے کہ شہید اسی صورت میں ہو گا اگر اس کی نیت کاملا رضائے الٰہی کا حصول ہو،جہاد فی سبیل اللہ، مقصد حیات ہو بصورت دیگر جو بھی رضا ومنشا کسی جنگجو کی ہو گی،اسے اس کے مطابق عطا کر دیا جائے گا اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔رتبہ شہادت کے طلب گار تو سب نظر آتے ہیں لیکن اس کی شرائط پوری کرنے میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں،اس کا علم فقط اللہ رب العزت کی ذات کو ہے کہ وہی علیم و خبیر ہے اور دلوں میں چھپی خواہشات کے متعلق صرف بندہ یا بندے کا رب ہی جانتا ہے۔اسی طرح وطن عزیز کے خلاف بروئے کار آنے والی اندرونی و بیرونی دشمن طاقتوں کے خلاف صف آراء ہو کر وطن کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کے علاوہ شہریوں کی جان ومال کی حفاظت میں جان کی بازی لگانے والے کی حیثیت بھی شہید سے کم نہیں کہ وہ اپنے فرض منصبی کی ادائیگی میں وطن عزیز اور شہریوں کی حفاظت میں اپنی جان اللہ کے حضور پیش کرتا ہے بشرطیکہ اس کی نیت بھی اپنے فرض کی کماحقہ ادائیگی ہی رہی ہو۔
پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے انتہائی اہم جگہ پر واقع ہے اور مستقبل قریب میں یہ آثار واضح ہو رہے ہیں کہ اس کی اہمیت انتہائی زیادہ ہو جائے گی،اسی لیے عالمی طاقتیں کسی صورت اس کو نظرانداز نہیں کر سکتی،البتہ یہ حقیقت بھی انتہائی تلخ ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے اس حقیقت سے صرف نظر کرتے ہوئے ،عالمی طاقتوں کی منصوبہ کو نہ سمجھتے ہوئے یا اس کا حصہ بنتے ہوئے،پاکستان کو بہت سی مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان اس وقت کسی بھی صورت اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں ناکام نظر آتا ہے۔ ماضی کی بچھائی ہوئی بساط میں ،ایک چال پاکستان کے قانون نافذکرنے والوں اداروں نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور شہریوں کے بھرپور تعاون کے ساتھ ساتھ قریباً 80000قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر ناکام بنا دی تھی۔ افغانستان کے ساتھ سرحدپر جب بیر ونی دباؤ حد سے زیادہ بڑھا تھا، نہتے شہریوں کے ساتھ ساتھ مارخوروں اور افواج پاکستان کے سپوتوں نے سردھڑ کی بازی لگا کر ان دہشت گردوں کو انتہائی
کامیابی کے ساتھ نکیل ڈالی تھی ،علاقہ غیر کے نام سے معروف رقبہ کو ریاست پاکستان کے کنٹرول میں دے دیا گیا تھا اور وہاں پاکستان کی رٹ قائم کر دی گئی تھی۔ افسوس صد افسوس! کہ فقط چند سالوں میں ہی اس علاقہ سے پھر بد امنی کے ساتھ بغاوت کے بادل امڈ رہے ہیں اور ریاست پا کستان کے حکمران اس پر خاموش بیٹھے نظر آتے ہیں کہ ان کی ترجیحات میں امن و امان کی صورتحال انتہائی نچلے درجہ پر نظر آتی ہیں جبکہ اولین ترجیحات میں ان کے اپنے مقدمات سے بریت اور لوٹ مار کو تحفظ دینا ہے۔رجیم چینج آپریشن کے بعد حکمران اپنی ترجیحات پر مکمل یکسوئی کے ساتھ بھرپور طریقہ سے عمل کر رہے ہیں لیکن اس کے عوض ملکی معاشی حالات کس نہج پر جا چکے ہیں،اس تجربہ کار ٹیم کو اس سے قطعاً کوئی سروکار نہیں بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ درحقیقت اس حکومت کو اقتدار میں لانے کے مقصد ہی یہی تھا،جسے بخوبی انجام دیا جا رہا ہے۔مراسلے میں موجود یقین دہانی کہ عمران خان حکومت گرانے کے عوض پاکستان کی غلطیاں معاف کر دی جائیں گی اور پاکستان کو بھرپور معاشی مددفراہم کی جائے گی ،کے برعکس پاکستان کو معاشی دلدل میں گرادیا گیا ہے۔پاکستان کی سالمیت کو صرف اسی ایک نکتہ پر شدید نقصان پہنچایا جا سکتا ہے لیکن عالمی طاقت کو پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اور پڑوس میں موجود معاشی طاقت کی پاکستان سے قربت کا بخوبی احساس ہے،گو کہ پڑوسی معاشی طاقت کی پاکستان سے قربت بہرطور اس کے ریاستی مفادات سے وابستہ ہے،لہٰذا ان مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے، پاکستان میں ایک بار پھر امن و امان کی صورتحال کو دگر گوںکیا جا چکا ہے۔اسلام آباد میں اتفاقاً ناکام کی جانے والی ایک خود کش واردات سنگین صورتحال کی عکاسی کر رہی ہے لیکن حکومت پاکستان کا اس وقت سارا زور عمران خان کی طاقت کچلنے پر صرف ہو رہا ہے۔
گذشتہ چند سال پر امن گذارنے کے بعد،پاکستان ایک بار پھر بد امنی کی بھینٹ چڑھتا نظر آ رہا ہے جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سجیلے جوان ایک بار پھر مادر وطن کیلئے جانوں کے نذرانے پیش کرتے نظر آ رہے ہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ اس مشکل صورتحال میں کیا اقدامات کر رہی ہے؟کیا یہ ممکن ہے کہ اس بدامنی کو فقط غیر ،بغیر اندرونی سہولت کاروں کے ،ہوا دے سکیں؟یہ کیسے ممکن ہے کہ بیرونی عناصر یہ سارے مراحل بغیر کسی سہولت کاری یوں آسانی سے سر انجام دے لیں؟سول ادارے کہاں ہیں اور ان کی پیشہ ورانہ مہارت کہاں ہے؟کیا وہ صرف سیاسی اشرافیہ کے تحفظ و پروٹوکول کے فرائض کی ادائیگی کیلئے ہے ؟یا اس کا کام صرف اتنا ہے کہ حکمرانوں کی لوٹ مار میں سہولت کاری کرتی رہے اوراگر کوئی کسٹم انسپکٹر اعجاز جرأت رندانہ کا مظاہرہ کرے تو اس کے دردناک انجام پر سب صم بکم ہو جائیں؟قوانین موجود ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ان پر عملدرآمد صرف کمزوروں کیلئے ہوتا ہے جبکہ طاقتور قانون کے شکنجے میں پھنسنے لگے تو قانون کی تعریف ہی بدل دی جاتی ہے،اگر پارلیمنٹ اتنی ہی طاقتور ہے اور اتنی ہی عقلمند ہے تو بہتر یہی ہے کہ موجودہ حکمران ،جو خیر جنرل ضیاء کی ہی باقیات میں سے ہیں بعینہ 1984کے ریفرنڈم کے سوال کی طرز پر ہی،پارلیمنٹ سے ہمیشہ کیلئے اپنی حکمرانی منظور کروا لیں اور اگر ممکن ہو تو عدالتوں سے بھی اس پر مہر تصدیق ثبت کروا کر ہمیشہ کیلئے پاکستانی وسائل کو لوٹنے کا لائسنس حاصل کرلیں اور پاکستانیوں کیلئے مسائل کا انبار کھڑا کرکے بے شک اپنے وطن(بیرون ملک) سدھار جائیں۔بدقسمتی سے اس وقت یہی آثار نظر آ رہے کہ بیرونی طاقت نے صرف ایک محاذ پر حملہ نہیں کیا بلکہ بنیادوں سے ہلانے کے منصوبہ پر زور و شور سے عملدرآمد جاری ہے اور کہیں سے ایسی کوئی صورت نظر نہیں آرہی کہ پاکستان اس کا مقابلہ کر رہا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل گر رہے ہیں،معاشی صورتحال بدترین بلکہ خوفناک صورتحال کی عکاسی کر رہی ہے،امن و امان بتدریج مخدوش ہوتا نظر آ رہا ہے،وطن کی مٹی پر اس کے بیٹے اور نہتے شہری قربان ہو رہے ہیں لیکن حکمران نیرو کی بانسری بجاتے نظر آتے ہیں۔اس کا منطقی انجام کیا ہو سکتا ہے؟تاریخ کے اوراق میں جھانکیں تو ایسی کئی ایک مثالیں نظر آتی ہیں کہ جب کوتاہ اندیش حکمرانوں نے شہداء کی قربانیوں سے بیوفائی کی تو میدان جنگ میں جیتی ہوئی بازیاں ہار دیں اور جیتے ہوئے علاقوں سے بیدخل ہو گئے۔شہداء کی قربانیوں سے حاصل کردہ فتوحات کو دائمی بنانے کیلئے حکمرانوں کی نیک نیتی کا بہت بڑا عمل دخل ہوتا ہے،جو پاکستان میں فی الوقت نظر نہیں آتا،قانون قدرت کو تبدیل کرنے کی جرأت کسی میں نہیں اور نہ قانون قدرت کسی کیلئے تبدیل ہوتے ہیں،شہداء اپنا فرض نبھا چکے اور نبھا رہے ہیں،جس کا اجر انہیں اللہ کی ذات عطا کرے گی جبکہ شہداء سے بیوفائی کی سزا بیوفاؤں کو تو ملے گی ہی لیکن بے قصور عوام بھی اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button