ColumnJabaar Ch

پنجاب نہیں چھوڑیں گے! .. جبار چودھری

جبار چودھری

 

تاریخ خود کو دہراتی ہے !بالکل دہراتی ہوگی لیکن پاکستان میں تو اتنی جلدی تاریخ بنتی نہیں جتنی جلدی جلدی دہرانے لگتی ہے،ابھی پانچ ماہ پہلے ہی تو عدالت نے چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ مقررکیا تھا،ہم نے دیکھا کہ کس طرح سپریم کورٹ نے آئین کی تشریح فرماکراپنی فراست سے پنجاب کو بحران سے نکالااورحمزہ شہبازکو ہٹاکرہمیں پرویزالٰہی جیسا زیرک سیاستدان بطور وزیراعلیٰ عطا کیا تھا۔ اب چودھری صاحب ایک بار پھر عدالت میں کھڑے تھے۔ ویسے ہمیں اللہ کریم کا شکراداکرنا چاہیے جس نے ہمیں ایسی عدلیہ سے نوازرکھا ہے جوہمارے سیاستدانوں کے تصفیے کیلئے ہمہ وقت دستیاب بلکہ تاک میں رہتی ہے۔ تاریخ خود کودہرارہی ہے کہ پرویز الٰہی صرف پانچ ماہ کے قلیل عرصے میں ہی دوبارہ عدالت کو کہہ رہے ہیں کہ مائی لارڈ آپ نے بنایا تھا اب آپ ہی بچائیں۔
چودھری پرویز الٰہی کا مسئلہ وزیراعلیٰ بنے رہنے سے زیادہ اگلا سیٹ اپ ہے ۔وہ جانتے ہیں کہ ان کی اپنی پارٹی کی سیاسی اوقات اتنی ہی ہے کہ دس سیٹیں جیت گئے تھے اب پتا نہیں وہ بھی واپس آئیں گی یا جاتی رہیں گی ۔ اس لیے وہ عمران خان کو بلیک میل کرنے میں جُت گئے ہیں کہ ان کو اگلے الیکشن میں پچاس نشستیں دی جائیں۔عمران خان نے مجبورہوکر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے کمیٹی قائم کردی ہے۔یہاں بھی تاریخ خود کودہرارہی ہے ۔چودھری پرویزالٰہی کو عمران خان سے نشستیں مانگتے دیکھ کر مجھے دوہزاردو کے انتخابات یاد آگئے ۔یہ وہ وقت تھا جب پرویز مشرف نے ریفرنڈم میں ساتھ دینے کے عوض عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری سے الیکشن میں تیس تیس نشستیں دینے کا وعدہ کررکھا تھا۔ عمران خان اور قادری صاحب نے دل وجان سے پوری ایمانداری سے مشرف کا ساتھ دیا۔احتساب مارچ کیے۔ ریفر نڈم میں ساتھ دیا تاکہ جمہوری سیٹ اپ میں انہیں حصہ مل سکے۔مشرف کی آفر پرکشش تھی اور اس وقت عمران خان کو قومی اسمبلی کی تیس نشستیں ایک ساتھ مل جانا معجزے سے کم نہیں تھا۔مشرف صاحب کامیاب ریفرنڈم کے بعد صدربن گئے تو ملک میں الیکشن کا ڈول ڈال دیا گیا۔عمران خان اورقادری صاحب نے پرویز مشرف کو وعدہ یاد دلا یا توپرویزمشرف نے دونوں کو چودھری برادران کے گھر کاراستہ دکھادیا۔ جب دونوں لاہور میں ظہورالٰہی روڈ پر پہنچے تو چودھری صاحبان نے کہا کہ ’’ہاں آپ دونوں کیلئے ایک ایک سیٹ رکھی ہوئی ہے‘‘ یہ سن کر عمران خان اور قادری صاحب کا خون کھول گیا۔کہا ایسے کیسے ؟ہم سے وعدہ ہواہے۔ پوچھا کس نے کیا وعدہ؟ کہا گیا کہ پرویز مشرف نے،چودھری صاحبان نے کہا کہ جاؤ جس نے وعدہ کیا ہے اس سے لے لو!دونوں نے ایک بار پھر جی ایچ کیوسے رابطہ کیا تو وہی پرانا جواب کہ الیکشن میں سیٹیوں کا فیصلہ چودھری صاحبان کررہے ہیں جو ملے گا وہیں سے ملے گالیکن چودھری صاحبان نے دونوں کو ایک ایک سیٹ کے علاوہ مزید سیٹیں دینے سے صاف انکار کردیا۔پھر دوہزار دومیں عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری پہلی مرتبہ ایم این اے بن گئے۔اب وہی چودھری پرویز الٰہی عمران خان کے درپرہیں اور عمران خان سے کچھ نشستیں مانگ رہے ہیں ۔دیکھتے ہیں عمران خان ان سے بدلہ لیتے ہیں یا حصہ دیتے ہیں۔
پنجاب میں کیا سیاست ہورہی ہے کہ پی ٹی آئی کے پاس ایک سو اسی ارکان ہیں تو نون لیگ کے اتحاد کے پاس بھی کم وبیش اتنے ہی ارکان موجود لیکن دونوں اطراف ایسی بے بسی کہ صرف دس ارکان رکھنے والی جماعت کے رحم وکرم پر۔عمران خان خود پچھتانے پر مجبور کہ پنجاب کوپاس رکھنے کیلئے اپنے ہاتھ کاٹ کر پرویزالٰہی کو پیش کردیے ۔اپنے ایک سو اسی ارکان دس نشستوں والی پارٹی کے پیچھے باندھ دیے۔جب حکومت واپس لینے کا دل للچایا تو پرویز الٰہی اکڑ گئے۔ اندر کچھ اور باہر کچھ۔
پنجاب میں سیاست بے توقیر۔ہر قاعدے قانون سے آزاد۔آئین کی آڑمیں غیر آئینی کام ۔ہر کوئی اپنی من چاہی تشریح کیے جارہا ہے ۔جمعرات کی شب آدھی رات کو گورنرپنجاب بلیغ الرحمان نے پرویزالٰہی کو ڈی نوٹیفائی کیا تو نئے تعینات چیف سیکریٹری عبداللہ سنبل نے گورنرکے احکامات کی فوری بجا آوری کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کو’’سابق‘‘ قرار دیدیا۔ پرویز الٰہی نے گورنر کے اس اقدام کو ماننے سے انکار کیا لیکن اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کرکے سند قبولیت بھی عطا کردی۔ آئین کاآرٹیکل 123کا سب آرٹیکل کہتا ہے کہ وزیراعلیٰ اس وقت تک وزیراعلیٰ رہے گا جب تک گورنرکو یہ اعتماد ہو کہ وہ اسمبلی کی اکثریت کے حمایت یافتہ ہیں گورنراگر سمجھے کہ وزیراعلیٰ کو ایوان کی اکثریت کا اعتماد حاصل نہیں تو وہ وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتا ہے۔ تو گورنر نے پرویزالٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ دیا،آپ نیت کی بات کرسکتے ہیں ویسے نیت کی بات بھی کیا کرنی کہ سب کو پتا ہے کہ یہاں سیاست اخلاقیات کو کب سے دیس نکالا دے چکی،یہاں دھاندلی کی حکومت اوردھونس کا اختیار چلتا ہے سو گورنرصاحب نے بھی اپنا اختیار استعمال کردیالیکن آئین کے اس آرٹیکل میں نیت کا کوئی عمل دخل نہیں ۔اس لیے عدالت میں بھی شاید نیت کا سوال نہیں پوچھا جائے گا ۔ویسے ایسا ہی اختیار صدر پاکستان کو بھی حاصل ہے وہ جب چاہیں ملک کے وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں۔ اب اگرعمران خان بدلہ لینا چاہیں تو اپنے صدر کو حکم جاری کرسکتے ہیں اور صدر عارف علوی فوری گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کی طرح اس پر عمل کرتے پائے جائیں گے اوراگر شہبازشریف پرویزالٰہی کی طرح اعتماد کا ووٹ لینے سے بھاگ جائیں تو وہ بھی ان کو ڈی نوٹیفائی کردیں وہ بھی بھاگ کر سپریم کورٹ سے رجوع کریں اور انصاف پائیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ سیاسی معاملہ بعد میں ہوتاہے اورعدالت پہلے تیار ہوجاتی ہے ۔کیس کی سماعت کو اتنی ہی دیر ہوتی ہے جتنی وکلا کیس تیار کرکے فائل کرنے میں لگاتے ہیں،بلکہ اب تو عدالتیں رات کو کھلنے کی مثالیں بھی بن چکی ہیں۔پرویز الٰہی کی درخواست بھی جیسے ہی دائر ہوئی ویسے ہی پانچ رکنی لارجربینچ بناکر سماعت شروع کردی گئی۔عدالت نے پرویز الٰہی سے گارنٹی مانگی کہ بحالی کی صورت میں وہ اسمبلی نہیں توڑیں گے یہ گارنٹی عدالت کو مہیاکردی گئی، اس گارنٹی پرعدالت نے پرویز الٰہی کوریلیف دے دیا اورانہیں عہدے پر بحال کرکے سماعت گیارہ جنوری تک ملتوی کردی۔
بات اعتماد اور عدم اعتماد کی بھی نہیں ہے ۔بات ہے اس سیاسی نظام کی جو لالچ کی بھینٹ چڑھ چکا۔ یہاں کوئی بھی اقتدار سے باہر رہنا ہی نہیں چاہتا۔ عمران خان سیاسی عدم استحکام سے اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجائے جارہے ہیں۔پی ٹی آئی کو گورنرکا اقدام غیر آئینی لگے جارہا ہے لیکن ان کو پرویز الٰہی اور اسپیکر کی طرف سے گورنر کا حکم نہ ماننے پر کوئی پرابلم نہیں ہے ۔ دوسری طرف حکومت ہر شعبے میں اتنی نااہل ثابت ہورہی ہے کہ نہ اس کے پاس مہنگائی کا کوئی علاج ہے نہ بے روزگاری قابومیں آرہی ہے۔ غریب ،غریب ترہوتا جارہا ہے۔حکومت کابینہ کا سائزبڑاکرنے میں لگی ہوئی ہے۔معیشت میں بہتری تو دور استحکام تک نہیں آرہا ۔اسحاق ڈار کو مقدمات اور مفروری سے تو ریلیف مل گیا لیکن جتنے ڈھول بجاکران کو لایا گیا تھا کہ وہ عوام کو ریلیف دیں گے لیکن وہ عوام ریلیف سے مسلسل محروم ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button