ColumnNasir Naqvi

مرزا غالب، ساحر لدھیانوی اور میں .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

میں اور چچا غالب کی تاریخ پیدائش ایک ہی ہے 27 دسمبر۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اسی تاریخ کو پاکستان کے ریکارڈ ہولڈر سابق وزیراعظم میاں نواز شریف بھی پیدا ہوئے تھے لیکن تاجر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس لیے انہوں نے چچا غالب اور مجھ جیسے فرش نشینوں سے جان چھڑا کر بڑی چھلانگ لگائی اور بابائے قوم کی ہم عصری کے خواب پورے کرنے کے لیے اپنی جنم پرچی پر تاریخ 25 دسمبر لکھوا لی شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ ان کے نادان دوست انہیں قائداعظم ثانی بنتے دیکھنا چاہتے تھے لیکن قسمت نے ساتھ نہ دیا۔ تین مرتبہ وزیر اعظم بنے اور نکالے گئے کوئی نہیں جانتا کہ انہوں نے سن یعنی سال کی تبدیلی کرائی کے نہیں، ویسے سال کی تبدیلی تولوگ کراتے ہیں جنہوں نے سرکاری نوکری کرنی ہو۔یہاں تو خیال یہی تھا کہ میاں شریف کے بچے تجارت کریں گے لیکن کوئی اس راز سے واقف نہیں تھا کہ میاں شریف اپنی خداداد صلاحیتوں سے بچوں کو کس کاروبار سے وابستہ کریں گے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ سرائے سلطان کے میاں شریف کے بچے کاروبار سیاست سے وابستہ ہیں اس کاروبار میں خواری تو ہے لیکن لوشے بھی بہت ہیں بڑے میاں صاحب کو پتا تھا کہ’’جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتا ہے‘‘۔حدیبیہ پیپرز کے حوالے سے ایک بڑا جھٹکا انہیں بھی برداشت کرنا پڑا پھر بھی جاتی امرا محل اور سعودی عرب میں بادشاہوں کی مہمان نوازی پر کہتے تو وہ بھی ہوں گے’’رل تے گئے آں، پر چس بڑی آئی اے‘‘۔ میں نواز شریف کے مقابلے میں میاں شریف کو زیادہ خوش قسمت اور بڑا تاجر سمجھتا ہوں آپ اتفاق کریں یا نہ کریں غور طلب بات یہ ہے کہ تقسیم ہند سے پہلے دادا رمضان کے حالات کیسے تھے گھر کے شب و روز کیسے گزرتے تھے ؟ان سے آشنا میاں شریف ہی تھے شریف برادران ہرگز نہیں ،لہٰذا ان کی پرورش اور جدوجہد پر سرائے سلطان سے براستہ برانڈر تھ روڈ برف خانہ چوک گوال منڈی سے بچوں کو تخت پنجاب اور ریاست پاکستان کا سربراہ بنانے تک گورنر پنجاب غلام جیلانی کے ناز نخرے اور خواہشات پوری کر کے ایوان صدر تک نواز شریف کی رسائی کا راستہ تو میاں شریف نے ڈھونڈا تھا پھر جنرل ضیاء الحق کا لاڈلا بیٹا بننا نواز شریف کا ہی کارنامہ ہے لیکن اس میں بیگم شفیقہ ضیاءالحق کے شفقت اور پیار کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا اسی طرح ان کی خصوصی بیٹی زین ضیاء الحق کی بھی محبت نے نواز شریف کو اہمیت دلائی ، بات کہاں سے چلی اور کدھر نکل گئی آپ صرف یہی سمجھیں کہ میں اورچاچا غالب 27 دسمبر کے پیدا ہیں۔ صرف سال کا فرق ہے ورنہ شراب نوشی کے سوا دنیاوی معاملات ایک سے ہی ہیں۔ ان کا شاعری میں اعلیٰ مقام تھا اور رہتی دنیا تک رہے گا قدر مشترک یہ بھی ہے کہ وہ دنیا سے چلے گئے،اور ہم جانے کو تیار بیٹھے ہیں،بن بلائے ہم بھی غالب کی طرح کہیں نہیں جائیں گے۔
برصغیر کے ممتاز شاعر ساحر لدھیانوی امیر گھرانے میں بھارتی شہر لدھیانہ میں پیدا ہوئے لیکن انہوں نے زندگی کا اصل حصہ شہر لاہور میں گزارا ۔معروف کالم نویس، ناول نگار اور ڈرامہ رائٹر اے حمید بتایا کرتے تھے کہ وہ اچھا بھلا پاکستانی تھا اسی زندہ دلوں کے شہر میں عام آدمی کی حیثیت سے ہم سب کے ساتھ شب روز گزارتا تھا لیکن روشن خیالی نے اسے 1947 میں تقسیم ہند پر سرحد پار کر کے بھارت جانے پر مجبور کردیا کیونکہ اسے روشن خیالی کا طعنہ دینے والے’’سرخا‘‘کہتے تھے۔ 14 اگست 1947 پر اعلان آزادی کے بعد نعرے لگے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ وہ اس نعرے سے خوف زدہ ہو گیا، سمن آباد لاہور میں تھا لیکن ڈر تھا کہ مولوی اسلام پسندےتھے،اسے سرخاکہہ کر موت کے گھاٹ اتار دیں گے یقیناً اس نے ہندو مسلم سکھ فساد بھی دیکھا تھا۔ شہر کے غیر معمولی حالات اس کی نظروں کے سامنے تھے، دوستوں نے بہت سمجھایا کہ چند دنوں کی بات ہے جلد حالات معمول پر آجائیں گے یہ لڑائی اور قتل و غارت گری نقل مکانی میں ہندوؤں اور سکھوں کے جذباتی روئیوں کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ مسلمان تو آزاد ملک لے کر مطمئن ہیں پھر بھی کوئی دوست ساحر کو ہجرت سے نہ روک سکا اور وہ پاکستان چھوڑ کر بھارت کے ہو گئے ۔میرا رشتہ لاہور ہی نہیں مادرعلمی دیال سنگھ کالج بھی ہے، جہاں کے ہم دونوں فارغ التحصیل ہیں ،وہ زمانہ جوانی سے ہی دل پھینک عاشقوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ ان کے زمانے میں دیال سنگھ کالج میں بھی لڑکیاں پڑھتی تھیں جس کا سلسلہ ممتاز شاعر عابد علی عابد نے بطور پرنسپل ایک طالبہ سے شادی کر کے ختم کر دیا تھا اس لیے ہمارے دور کے طلباء کو یہ سہولت نہیں ملی اور انہیں اس کام کے لیے اسلامیہ کالج کوپر روڈ تک کا سفر کرنا پڑتا تھا۔ اپنے دور میں ہم دونوں ڈرامے ،مشاعرے، مباحثے اور سیاست کے حوالے سے خاصے جانے پہچانے جاتے تھے۔ یقیناً وہ زیادہ ہی مقبول ہوں گے اس لیے طلبہ یونین کے انتخاب میں بلا مقابلہ صدر منتخب ہو گئے، سالوں کے فرق کے باوجود ہم ترقی پسندی کے قائل ہوتےہوئے،سرخ ہے، سرخ ہے، ایشیا سرخ ہے، نعرے لگاتے تھے لیکن ہمارے دور میں بھٹو صاحب کی حکومت کے آخری ایام تھے پھر بھی لاہور کے تمام تعلیمی اداروں میں اسلامی جمعیت طلبہ کا طوطی بولتا تھا تاہم’’سرخ ہے سبز ہے‘‘ کی لڑائی جاری تھی۔ہم دونوں طبقاتی کشمکش اور معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف کالے اصولوں کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔ہمارے دور میں سیاسی پارٹیوں کی مداخلت تعلیمی اداروں میں پہنچ چکی تھی لیکن ساحر لدھیانوی کا زمانہ پرانا تھا ان کا سچ اور اصولی سیاست انتظامیہ کو ہضم نہیں ہوئی اور سیاست کی پاداش میں انہیں کالج سے نکال دیا گیا۔ یوں وہ اسلامیہ کالج لاہور چلے گئے ترقی پسند تحریک سے وابستگی ان کے گلے کی ہڈی بنی رہی لہٰذا پاکستان سے روانگی تک ان کے دل میں خوف دوستوں نے بٹھا دیا تھا کہ رجعت پسند کسی بھی وقت انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمہاری جان لے لیں گے بس یہی ان دیکھا خطرہ تھا جس کے باعث ساحر لدھیانوی دوستوں سے منہ موڑ کر چپکے سے سرحد پار چلے گئے پھر تاریخ گواہ بن گئی کہ بھارتی فلمی دنیا کا ایک منفرد شاعر ساحر لدھیانوی ہی ہے، جس نے نہ صرف فراق ،مجروح اور بہت سے دوسروں کی موجودگی میں اپنا مقام بنایا بلکہ معاشرے کے طبقاتی نظام اور کالے اصولوں کے خلاف اپنی ترقی پسند سوچ کا پرچار نہیں چھوڑا۔دیال سنگھ کالج میں مجھے ’’سرخ سبز‘‘نعروں کا سامنا تو کرنا پڑالیکن یہ دور طلبہ یونین کے استحکام کا دور تھا اس لیے تمام تر سرگرمیوں کے باوجود مجھے کسی نے نکالنے کی جرأت نہ کی بلکہ میں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے امیدوار یاسین خان کو آزاد حیثیت سے شکست دے کر جمعیت کو ہرانے والے واحد صدارتی امیدوار کا اعزاز بھی حاصل کر لیا۔
حقیقت تو یہی ہے کہ کہاں مرزا غالب اور ساحر لدھیانوی اور کہاں مجھ جیسے ناچیز،ہم تینوںکے درمیان زمان و مکان کا بھی خاصا فرق موجود ہے، اسے یہ سمجھیں کہ جیسے بچے ایڑھیاں اونچی کر کے باپ کے جوتوں میں پاؤں ڈال کر اپنا قد بڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں میں نے بھی یہی حرکت کی ہے ورنہ میرے جیسا ادب کا طالب علم غالب اور ساحر کی بات بھی کرے تو عجیب ہی لگے گا۔ میں نے بہانے بہانے سے دنیائے ادب کے اوراق میں اپنا بھی نام شامل کرنے کی کوشش کی ہے ۔برا لگے تو نادانی سمجھ کر معاف کر دیجیے گا، میرے ساتھ تو پہلے ہی ظلم ہوا ہے کہ مرزا غالب نے میری 27 دسمبر کی پیدائش پر برا نہیں منایا لیکن دہشت گردوں نے میری سالگرہ پہلی خاتون وزیراعظم پاکستان محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کر کے بند کرادی اس لیے کہ میرے گردونواح میں ابھی بھی ترقی پسندوں اور سرخوں کا ڈیرہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button