ColumnImtiaz Aasi

ناکامیوں کا اعتراف .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

سیاست دان ہو یا کوئی عام شخص غلطیوں کا سرزد ہونا قدرتی امر ہے۔بعض غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن کا مدوا ممکن ہے اور بعض کی تلافی برسوں میں نہیں ہوتی۔عمران خان وزیراعظم بنے تو ان کے چاہنے والوں نے خوشیوں کے شادیانے بجائے ملک میں بہار لوٹ آئے گی اور عشروں سے اقتدار پر مسلط دو خاندانوں سے ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی ۔عمران خان کی پے درپے سیاسی غلطیوں نے عوام کا وہ خواب چکنا چور کر دیا جو وہ برسوں سے اپنے ذہنوں میں بٹھائے ہوئے تھے البتہ اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی اعلیٰ ظرفی ہے۔سابق وزیراعظم نے سابق آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع دیئے جانے کو اپنی غلطی تسلیم کر لیا ہے۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کوئی نئی بات نہیں تھی ۔جنرل باجوہ سے پہلے جنرل پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں پیپلز پارٹی نے توسیع دی۔جنرل ضیاء الحق اپنی مدت ملازمت میںتوسیع لیتے رہے ۔قیام پاکستان کے بعد جنرل ایوب خان نے بھی اپنی ملازمت میںتوسیع لی۔عمران خان کے دور میں آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کا کچھ زیادہ پرچار ہوا کہ معاملہ سپریم کورٹ تک جا پہنچااور کابینہ سے ہوتا ہوا یہ معاملہ بالآخر چیف آف آرمی سٹاف کی ملازمت میں تین سالہ توسیع پر ختم ہوا۔ عمران خان سے سرزد ہونے والی غلطیوں پر نظر ڈالی جائے تو ایک طویل فہرست ہے۔سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرکے انہوں نے کوئی اچھی مثال قائم نہیں کی۔ بقول عمران خان کے اداروں کے کہنے پر چیف لیکشن کمشنر کی تقرری کرکے کوئی اچھا اقدام کیا؟عمران خان اس بات سے لاعلم تھے سکندر سلطان راجا کس بیوروکریٹ کا داماد ہے اور اس بیوروکریٹ کا نواز شریف سے کیا تعلق ہے۔ایم کیو ایم کے فروغ نسیم کو وفاقی وزیر قانون بنا کر اس بھی بڑی غلطی کی ۔تعجب ہے تحریک انصاف میں کوئی ایسا قانون دان نہیں تھا جسے وہ وزارت قانون کا قلمدان دے سکتے تھے۔ یوکرین جنگ کے دوران روس کا دورہ کرکے امریکہ کی ناراضگی مول لے کر ایک اور بڑی غلطی کی۔ وزارت عظمیٰ سے محروم ہونے کے بعد عمران خان نے اپنی سیاسی غلطیوں کی تصحیح کی بجائے انہی غلطیوں کو بار بار دہرانا ان کی سیاسی ناپختگی نہیں تو اور کیا ہے۔اداروں نے پریس کانفرن س میں عمران خان کی اس آفر کا خاص طور پر ذکر کیا جس میں انہوں نے آرمی چیف کو عدم اعتماد روکنے کی صورت میں تاحیات ملازمت میں توسیع کی پیش کش کرکے سیاسی کمزوری کا برملا اظہار کیا۔
تعلیمی لحاظ سے دیکھا جائے تو عمران خان آصف علی زردری ،نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے مقابلے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اس کے برعکس سیاسی اعتبار سے ان سے بہت پیچھے ہیں۔ آصف علی زرداری نان گریجویٹ ہوتے ہوئے قصر صدارت تک پہنچ گئے اور اپنی آئینی مدت پوری کرکے اپنے منصب سے سبکدوش ہوئے۔نواز شریف تین مرتبہ وزارت عظمیٰ پر فائز رہے ان کے خلاف جب کبھی کوئی مقدمہ بنا وہ حکمرانوں کو چکما دے کر بیرون ملک رہ کر ملکی سیاست میں سرگرم رہتے ہیں۔عمران خان جو سیاسی لحاظ سے شریف خاندان اور زرداری کے سب سے بڑے ناقد ہیں انہی کے دور اقتدار میں شریف خاندان نے اپنے خلاف فرد جرم نہیں لگنے دی لہٰذا اس سے بڑی عمران خان کی ناکامی اور کیا ہو سکتی تھی۔عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے آغاز سے آخر تک پی ڈی ایم نے انہیں کانوں کان خبر نہیں ہونے دی گویا اس سے بڑی اور عمران خان کی ناکامی کیا ہو سکتی تھی۔حال ہی میں حکومت کو مذاکرات کی دعوت دے کرعمران خان نے ایک اور بڑی غلطی کی ہے ۔حکومت اور اس کے اتحادی کسی صورت میں قبل از وقت انتخابات کرانے پر رضامند نہیں ہیں اور نہ ہی ہوں گے۔ حکومت اور اتحادیوں کواقتدار چھوڑنے کی کیا پڑی ہے انہیں ملک کی معاشی صورت حال سے کیا دل چسپی ہو سکتی ہے۔چلیں مان لیا عمران خان نے معیشت کا بیڑہ غرق کیا تھا تو موجودہ حکومت نے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے کون سے اقدامات کئے ہیں۔حکومت نے خراب معاشی حالات کے باوجود نہ تو اخراجات میں کمی کے لیے کوئی لائحہ عمل اپنایا اور نہ ہی ارکان پارلیمنٹ کی مراعات میں کمی کی۔جہاں تک اسمبلیوں سے استعفوں کا معاملہ ہے کم ازکم پنجاب حکومت کے ارکان مستعفی ہونے کو تیار نہیں ہوں گے ۔چودھری پرویز الٰہی کا ایک انٹرویو میں کہنا کہ الیکشن کمیشن اور انتخابی اصلاحات پر بات چیت اگلے سال مارچ میں ہونی چاہیے جو اس امر کا غماز ہے وہ وزارت اعلیٰ کسی قیمت پر چھوڑنے کو تیار نہیں ۔حیرت تو اس پر ہے کہ عمران خان کا لانگ مارچ کے آخری جلسے میں اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کرنے کے بعد اپنی جماعت اور اتحادیوں سے مشاورت کرنا ان کی سیاسی ناپختگی کی واضح مثال ہے۔دراصل عمران خان پر یوٹرن کا جو لیبل لگا ہے ان کا بغیر مشاورت کئے اپنے فیصلوںکا اعلان کرنا ان کی سیاسی ناکامیوں کا موجب بنا ہے۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا انتخابات ایک سال آگے جانے کا عندیہ اس بات کابین ثبوت ہے کہ حکومت قبل از وقت اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں۔ان حالات میں سابق وزیراعظم عمران خان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے جلسوں کا انعقاد جاری رکھیں ۔جہاں تک موجودہ حکومت کی ناکامیوں کا تعلق ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں عمران خان کے لیے حکومت کی ناکامیوں پر پرچار کرنے کا اس سے نادر اور کوئی موقع نہیں ہو سکتا ۔فرض کریں عمران خان خیبر پختونخوا اور پنجاب میں اسمبیلیاں توڑنے کا اعلان کر تے ہیں تو حکومت خالی نشستوں پر انتخابات کرائے گی اس طرح وفاق میں حکومت برقرار رہنے سے عمران خان کا اصل مقصد پور انہیں ہو سکے گا۔یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے اقتدار میں دو خاندانوں کی اجارہ داری ختم کرنے کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے ۔عمران خان اپنی ناکامیوں کے باوجود عوام کے مقبول ترین لیڈر ہیں شاید اسی لیے حکومت جلد انتخابات کے انعقاد سے پہلو تہی کئے ہوئے ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button