ColumnNasir Naqvi

گرم ہوائیں ….. ناصر نقوی

ناصر نقوی

عمران حملہ کیس ابھی تک معمہ بنا ہوا ہے کارکن معظم گوندل کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آگئی ہے جس کے مطابق معظم کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی تاہم جو گولی اس کے سر پر لگی وہ پستول کی نہیں کسی بڑے اسلحہ کی ہے اس حملے میں 13سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے لیکن کسی نے میڈیکل نہیں کرایا اور جو ایف آئی آر عمران خان چاہتےتھے وہ بھی نہیں ہوسکی حالانکہ جائے وقوعہ پنجاب میں تھا اور اس سب سے بڑے صوبے میں حکومت بھی ان کے اتحادی چودھری پرویزالٰہی کی ہے۔ لانگ مارچ جاری ہے اور راولپنڈی پہنچنے پر عمران خان بھی شامل ہونے کا وعدہ کر چکے ہیں لیکن ان کے زخم کی تازگی بتا رہی ہے کہ اگر یہ ویڈیو اصلی ہے تو اس حالت میں ان کا راولپنڈی پہنچنا مشکل دکھائی دے رہا ہے دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو یہ بات محسوس ہو رہی ہے کہ صرف لانگ مارچ سست روی کا شکار نہیں ہوا سپریم کورٹ کے مقدمات میں بھی تیزی پہلے سی نہیں رہی بلکہ گزشتہ ماہ الیکشن کمیشن نے فیصلہ میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو نااہل کر کے ان کی قومی اسمبلی کی میا نوالی کی نشست کو خالی قرار دے کر فوجداری کارروائی شروع کرنے کا حکم دیا تھا اب توشہ خانہ ریفرنس ٹرائل کوٹ کو بھیج دیا گیا ہے۔ فناشل ٹائم کے انٹرویو میں سابق وزیر اعظم اپنے سائفربیانئے سے نہ صرف انکار کر گئے بلکہ اپنے ماضی کے بیانیہ سے ہی دستبردار ہوگئے اس صورتحال میں سیاسی بحران کے خاتمے میں عمران خان نے کوئی کردار ادا کرنے کی بجائے سپہ سالار کی تعیناتی کو ملک کی سیاست کا سب سے بڑا موضوع بنا دیا لیکن اس سب کے باوجود بھی ناکامی ملی ہے لہٰذا مجبوراً انہوں نے انکار کے باوجود بیک ڈور مذاکرات کے دروازے کھولے پھر بھی کچھ نہیں ہو سکا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے عمران حملہ کیس اور ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات کیلئے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کو فل کورٹ کی دو مرتبہ خط
لکھ کر درخواست کی جس پر عمران خان نے بھی خیرمقدم کیا لیکن ذرائع کے مطابق ججز کی اکثریت اس مسئلے سے دور رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھ رہی ہے پی ٹی آئی نے اس سلسلے میں جوڈیشل کمیشن بنانے کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی لیکن وہاں بھی ابتدائی کارروائی کے بعد تاریخ پڑ گئی تاہم یہ خبر بھی آگئی ہے کہ تحریک انصاف اب سپہ سالار کی تقرری کو متنازعہ نہیں بنائے گی۔ لوگ پریشان ہیں کہ یہ تبدیلی کیسے آئی؟ پہلے خان اعظم کہتے تھے یہ اہم تعیناتی صرف اور صرف وزیراعظم کا اختیار ہے پھر انہیں یاد آ گیا کہ شہباز شریف اور نواز شریف تو چور ہیں بھلا انہیں یہ اہم ذمہ داری کیوں دی جائے، نواز شریف سزا یافتہ مفرور ہیں اگر ان سے مشورہ یا مشاورت کی گئی تو وہ قانونی کارروائی کریں گے پھر موسم کی طرح کپتان نےکروٹ لی اور ذرائع کا دعویٰ ہے کہ موسم سرما کی
آمد پر بھی تمام تر کوششیں ناکام ہوگئیں۔ صدر پاکستان عارف علوی نے برملا کہہ دیا ہے کہ میں
مفاہمتی پالیسی میں کامیاب نہیں ہو سکا لہٰذا اب کوئی غلط فہمی میں نہ رہے میں کسی کی فرمائش پر نہیں ،ہر کام آئین اور قانون کے مطابق کروں گا یہ ہیں وہ گرم ہوائیں جن کے ردعمل میں خان اعظم اچانک بدلے بدلے نظر آنے لگے ہیں کچھ لوگوں کے اندازے ہیں کہ کپتان کا سافٹ ویئر حالات کے مطابق اپ ڈیٹ ہوگیا ہے لیکن یہ بھی خوش فہمی ہے۔خان نے راولپنڈی میں انہونی کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے اس لیے ذمہ داروں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وقت آنے پر عمران خان کوئی بھی ایسی حکمت عملی بنا کر یوٹرن لے سکتے ہیں ، پھر وہ ایسا جواز پیش کریں گے کہ ان کے چاہنے والے ایک نئی امید پر ساتھ کھڑے دکھائی دیں گے یہی وجہ ہے کہ خان صاحب سائفر پر بھی یوٹرن دوبارہ لے چکے ہیں وہ کہتے ہیں فنانشل ٹائم کا انٹرویو امپوٹڈ حکومت کے لفافہ صحافیوں اور نمائندوں نے توڑ مروڑ کر پیش کیا۔
سیاسی بحران بھی ہیں اور سیاسی کشیدگی بھی بڑھ رہی ہے کسی میں جرأت نہیں جو قوم کو یقین دہانی کرائے کہ معاملات میں بہتری آ رہی ہے اور مذاکرات حالات کے مثبت نتائج نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔مایوسی، خوف اور پریشانی والی کوئی بات نہیں، سب اچھا ہے ،لانگ مارچ میں سست روی ضرور آئی ہے لیکن عمران خان کی شمولیت سے سیاسی عمل میں تیزی آئے گی لیکن جنرل فیض علی چشتی نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں آکر لوگوں کو چونکا دیا انہوں نے یہ بات بھی تسلیم کی کہ سیاسی معاملہ تصادم کی طرف بڑھ رہا ہے ملکی استحکام نہ صرف خطرے میں ہے بلکہ مشکل ترین حالات کی نشاندہی ہو رہی ہے اگر ایسا ہوا تو ماورائے آئین اقدامات بھی ہو سکتے ہیں یعنی ایک اور گرم ہوا کا جھونکا آ سکتا ہے۔
اب جمہوریت اور ریاست دونوں خطرے میں ہیں اس لیے ملک کے تمام سیاسی رہنماؤں کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہے جنرل ریٹائرڈ فیض علی چشتی کا اچانک رونما ہونا اور پھر صحافیوں سے خطاب معنی خیز ہے وہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی ایک انتہائی اہم خدمات انجام دے چکے ہیں ان کے ارشادات کا کیا مطلب ہے وہ اس پریس کانفرنس سے کس کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ اس بات سے قطع نظر ان کا میڈیا کے سامنے آنا اور کچھ کہنا،اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ ان کا انفرادی کھیل نہیںبلکہ حالات اور واقعات کی روشنی میں اعلیٰ سطح کی مشاورت کے بعد ایسا کیا گیا ہے۔ ان کے الفاظ پر غور کیا جائے کہ حویلی یا گھر کے دو بھائی لڑ پڑیں تو چوکیدار کبھی خاموش نہیں رہ سکتا یقیناً قابل غور ہے، کوئی بھی ذی شعور چوکیدار کو اپنے گھر میں مداخلت کی اجازت نہیں دے سکتا لیکن اگر اسے صرف اشارہ سمجھا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ جب بھائی سے بھائی لڑیں اور ناحق خون بہنے کا خدشہ لاحق ہوجائے تو وفادار چوکیدار ہرگز تماشائی نہیں بنا رہے گا۔ بات سمجھ آگئی؟ خیر ہو آپ کی !اللہ کرے ہمارے سیاسی رہنماؤں کو بھی یہ بات سمجھ آجائے تاکہ وہ خطرے کو بھانپتے ہوئے سیاسی افہام وتفہیم کا مظاہرہ کرکے ملک و ملت کے اجتماعی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ضد اور انا چھوڑ کر ملک کو موجودہ سیاسی بحران سے نکالنے کیلئے کوئی راستہ ڈھونڈ لیں ابھی وقت ہے اگر کسی نے بھی اوقات سے باہر نکلنے کی کوشش کی تو پھر بنا بنایا کھیل بگڑ سکتا ہے یعنی
ڈنڈا پیر وگڑیاں تگڑیاں دا
موسم میں خنکی بڑھ رہی ہے لیکن سیاسی ماحول کی گرمی کم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ،سیاسی چال کے ماہرین ستمبر سے نومبر تک کی سہ ماہی کوپاکستانی سیاست اور سیاستدانوں کیلئے انتہائی اہم قرار دیا کرتے تھے اور نومبر ختم ہونے والا ہے۔سیاسی پنڈت شیخ رشید احمد بھی ایک سے زیادہ مرتبہ جمہوریت کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بجا چکے ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ آئین اور قانون کی پاسداری کرتے ہوئے الیکشن 2023میں اگست کے بعد ہوں گے اور سپہ سالار کی تقرری بھی وزیراعظم کا اختیار ہے اس لیے ان دونوں معاملات میں تبدیلی فی الحال ممکن نہیں پھر بھی حقیقت یہی ہے کہ سیاست میں کوئی چیز حتمی نہیں ہوتی اس انداز سے ہٹ کر کچھ نیا بھی ہو سکتا ہے لہٰذا نومبر کا آخری ہفتہ انتہائی اہم قرار دیا جارہا ہے بلکہ 29 نومبر کے بعد بھی بہت کچھ ہونے کےنمایاں چانس موجود ہیں۔موجودہ حالات کا تقاضہ ہے کہ سیاسی بحران کے خاتمے کیلئے جو ش سے زیادہ ہوش سے کام لیا جائے جمہوریت کے بنیادی اصولوں رواداری اوربرداشت کو پروان چڑھایا جائے تاکہ جلد از جلد سیاسی بحران سے نجات ملے اور اس کے بعد بھی بڑا امتحان معاشی بحران ہوگا جو صرف اور صرف اتحاد و اتفاق سے مشترکہ جدوجہد کے ذریعے ختم کیا جاسکے گا۔موجودہ’’گرم ہوائیں‘‘ حکومتوں کی ناقص منصوبہ بندی اور ہماری اپنی کوتاہیوں کا کارنامہ ہے جس کا خاتمہ احساس ذمہ داری اور قدم سے قدم ملا کر کیا جا سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button