Editorial

داخلی و خارجی چیلنجز اور ہماری سیاست

 

وطن عزیز میں حالیہ دنوں میں پاک فوج کے نئے سربراہ کی تقرری اور توشہ خانہ کے معاملے پر بیک وقت زوروں کی بحث جاری ہے اور مسلسل کئی روز سے ان دونوں معاملات پر نت نئے بیانیے دونوں اطراف سے سامنے آرہے ہیں، حالانکہ پاک فوج کے سربراہ کا تقرر کیسے ہوگا آئین میں سارا طریقہ کار واضح طور پر بیان کیاگیا ہے اسی طرح توشہ خانہ کیس، تو حکومت وقت نے واضح کردیا ہے کہ اِس معاملے پر چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی دونوں معاملات کے متعلق آئین اور قانون میں طریقہ موجود ہے لیکن اِس کے باوجود دونوں ہی موضوعات بحث کے لیے موضوع اول بنے ہوئے ہیں، پاک فوج کے سربراہ اور جوانوں تک سبھی افسران کی ذمہ داریاں آئین کے مطابق متعین ہیں تو نجانے کیوں ہم اِس معاملے پر بحث میں الجھے ہوئے ہیں اور درحقیقت اِس کج بحثی میں قومی سطح کے اصل مسائل جن پر سیاسی قیادت کی بلاتفریق و تمیز فوری مشاورت اور لائحہ عمل ضروری ہے، وہ سبھی اُن کی ترجیح کے اعتبار سے آخری نمبروں پر نظر آتے ہیں۔ ملک میں تاریخ کی بلند سطح پر مہنگائی کہیںزیر بحث نہیں لہٰذا عوام حالات کے رحم و کرم پر ہیں، نجی ادارے معاشی مسائل کی بجائے سکڑ رہے ہیں، روزگار کے مواقعے بڑھنے کی بجائے کم ہورہے ہیں، عالمی سطح پر نئی گروپ بندیاں ہورہی ہیں، مہنگائی اور افراط زر نے سبھی قوموں کو لپیٹ میں لے رکھا ہے، تیل فراہم کرنے والی کمپنیز نے پٹرولیم مصنوعات مہنگائی نہ کرنے پر تیل کی دستیابی کا عندیہ دے دیا ہے۔ پاکستان سٹاک مارکیٹ کاروباری لحاظ سے ہچکولے کھارہی ہے، پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ شوگر ملز نے چینی برآمد کرنے کی اجازت نہ ملنے پر کرشنگ سے انکار کردیا ہے۔ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان نے فی الحال دورہ پاکستان ملتوی کردیا ہے اور حکومت نے دورہ ملتوی ہونے کی وجہ سیاسی عدم استحکام یعنی پاکستان تحریک انصاف کے ملک گیر احتجاج کو قرار دیا ہے، چند روزقبل تک ملک بھر کی قومی شاہراہیں احتجاج کے دوران بند کی جارہی تھیں پھر احتجاج کا سلسلہ محدود کرکے اب اسلام آبادکی حد تک احتجاج کیا جارہا ہے اور آمدہ اطلاعات کے مطابق ایک دو روز میں لانگ مارچ اسلام آباد پہنچنے سے متعلق بھی اہم اعلان کیا جائے گا، پس ملک کے داخلی حالات اور عامۃ الناس کو درپیش مسائل اور داخلی چیلنجز اِس وقت سیاسی قیادت کے
درمیان تنائو اور کج بحثی کی نذر ہوچکے ہیں حالانکہ ہمارے نزدیک ملک جن داخلی اور خارجی چیلنجز کا سامنا کررہا ہے، سیاسی قیادت کی ترجیح اِس وقت یہی چیلنجز ہونے چاہئیں تھے اور بلاشبہ ہوںگے لیکن ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ سیاسی کج بحثی میں ہم قیمتی وقت ضائع کررہے ہیں حالانکہ موجودہ حالات سیاسی قیادت کی بصیرت کے امتحان کا ہے کہ سیاست دان درپیش چیلنجز سے ملک و قوم کو کیسے باہر نکالتے ہیں، پاک فوج بیک وقت سرحدوں کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے اور چند روز پہلے تک پاک فوج کو ملک بھر میں سیلاب سے متاثرہ افراد کو بچانے کے لیے مصروف رکھاگیا تھا لیکن افسوس ناک صورت حال ہے کہ سیاست برائے سیاست اور مخالفت برائے مخالفت کی لپیٹ میں ہر ادارہ لایا بھی جارہا ہے اور اِس پر لاحاصل کج بحثی بھی کی جارہی ہے حالانکہ مثبت اور تعمیری بحث بھی ہوسکتی ہے مگر ہماری سیاست میں اِس کا قحط نظر آتا ہے یا پھر ہم خود نہیں کرنا چاہتے لہٰذا بلاتوقف کہا جاسکتاہے کہ جنہوں نے ملک و قوم کی سمت کا تعین کرنا اور آگے لیکر جانا ہے اُن کی ترجیحات ایک دوجے کو سیاسی لحاظ سے زیر کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ہمارے ملک میں الزامی اور جوابی بیانیےکی کبھی کمی نہیں رہا لہٰذا فقدان رہا ہے تو حقیقی مسائل کی طرف متوجہ ہونے کا۔ہمارے ہاں داخلی انتشار اورعدم استحکام کا آغاز انتخابی عمل کے نتائج سے ہوتا ہے جب ایک جماعت اکثریت لیکر حکومت سازی کی پوزیشن میں آتی ہے تو فوراً نمبر دو اور تین اور اس کے بعد آنے والی جماعتیں انتخابی نتائج کو یکسر مسترد کرکے سارے انتخابی عمل اورکروڑوں لوگوں کے حق رائے دہی کو مشکوک بنادیتے ہیں، نو منتخب سیاسی جماعت کو اقتدار کے لیے چھوٹی جماعتوں کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ایوان میں اکثریت کے نتیجے میں اقتدارحاصل کرسکے لہٰذااُن کے ناز و نخرے اورجائز و ناجائز مطالبات ماننا بھی ضروری ہوتا ہے بصورت دیگر اقتدار ہاتھ سے جاتا ہے، دوسری طرف انتخابات کے نتائج کو مسترد کرنے والی پارٹیاں اتحاد بناکر سڑکوں پر نکل آتی ہیں اور حکومت کو ہر لحاظ سے مفلوج کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتی ہیں، ہماری سیاسی تاریخ اِس روش کی گواہ ہے کہ کسی حکومت کو آئینی مدت پوری کرنے کا موقعہ ملا تو دوسرے مسائل کھڑے ہوگئے، پس جمہوریت کی گاڑی سڑک پر تو رہی لیکن ہچکولے کھاتی ہوئی مگر میثاق جمہوریت کے باوجود کبھی سیاست دانوں نے عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا ہے اور نہ ہی سیاسی دائو پیچ لگاتے وقت ملک کے داخلی و خارجی چیلنجزکو مدنظر رکھا ہے، پس نتیجے میں ملک و قوم آگے جانے کی بجائے پیچھے جارہے ہیں اور اس حقیقت کا ادراک برملا کرنے والے بھی اصلاح احوال کے لیے سنجیدہ کوششیں کرتے نظر نہیں آتے، یہ بدقسمتی نہیں بلکہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم اُن مسائل میں اُلجھے ہوئے ہیں جو درحقیقت مسائل ہی نہیں ہیں اور آئین و قانون اُن کے متعلق بالکل واضح ہے لیکن پھر بھی وہی زیر بحث ہیں اور دوسری طرف چیلنجز مزید تقویت پکڑ رہے ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button