ColumnNasir Sherazi

کچھ بھی ہوسکتا ہے! .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

اللہ تعالیٰ نے مجھے اور میرے خاندان کوجس قدر نعمتوں سے نوازا ہے، اُس پر جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ حق تو یہ ہے کہ اُس کی عنایات بہت زیادہ اور اُس کا شکر ادا کرنے کے لیے عمر بھر بھی بہت کم ہے، مگر ایک خلش ہے جو کبھی کبھی پریشان کرتی ہے وہ یہ کہ میری میرے ہم عمروں اور ہم عصروں کی تربیت درست طریقے سے نہیں کی گئی، اگر آج ایسا سوچتا ہوں تو بس سوچ ہی سکتا ہوں کر کچھ نہیں سکتا۔ تربیت درست طور طریقوں سے کی گئی ہوتی تو آج میں صدر پاکستان ہوتا۔ صدر نہ سہی وزیراعظم پاکستان کا منصب تو بہ آسانی حاصل کرلیتا، اگر کسی وجہ سے ایسا نہ ہوسکتا تو وزیراعلیٰ تو کم ازکم بن ہی جاتا۔ یہ سب کچھ نہیں ہوسکا وجہ صرف یہ ہے کہ تربیت میں خامیاں رہ گئیں، والدین کی تمام توجہ میری تعلیم پر رہی۔
سکول داخل کرانے سے قبل گھر میں ہی قرآنی قاعدہ اور پہلا سپارہ شروع کرادیاگیا، اس کے ساتھ سمجھایاگیا کہ جسم اور لباس پاک ہونا چاہیے، جھوٹ سے پرہیز کرنا ضروری ہے، کمسنی میں ہی امانت، دیانت، صداقت کا سبق ازبرکرادیاگیا۔ شاید والدین کو خیال آگیا ہو کہ کسی بھی وقت مجھ سے دنیا نہ سہی ملک کی امامت کا کام لیا جاسکتا ہے، خودی کو بھی بہت بلند کردیاگیا تھا، گھر میں نماز پنجگانہ کی پابندی کی جاتی تھی، روزے باقاعدگی سے رکھے جاتے تھے، زکوۃ واجب اور خیرات کرنے کی توفیق حاصل تھی، یہ بھی سمجھایاگیا کہ دروازے پر کوئی فقیر بھی کچھ مانگنے آئے تو اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا ہے، بڑوں کا ادب واجب اور اساتذہ کی تکریم لازم ہے۔
سادات خاندان ہونے کے سبب چھوٹے بڑے سب دین سے محبت اور دینی تعلیم کا شوق رکھتے تھے، جب علم ہوا نمازی ادائیگی نماز کے لیے جتنے قدم مسجد کی طرف اٹھاتا ہے، فرشتے ہر قدم پر ستر نیکیاں شمار کرتے ہیں، پس یہ جاننے کے بعد تمام نمازیں مسجد میں جاکر ادا ہونے لگیں۔ فرشتے نیکیاں لکھتے تھے یا نہیں، یہ تو روز محشر اعمال نامہ دیکھ کر ہی معلوم ہوگا لیکن میں اپنے قدم گن کر اپنی نیکیوں کا حساب خود ہی لکھ لیتا تھا بلکہ ساتھ جانے والے چھوٹے بھائیوں کی نیکیوں کی جمع تفریق بھی میں نے اپنے ذمہ لے رکھی تھی۔
جسے بھی گھر میں پیاس محسوس ہوتی، بھاگ کر اُسے پانی پلاتا اور نیکیوں میں پانی پلانے کے عوض ستر اونٹوں کی قربانی کے برابر ثواب میں اضافے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیتا۔ مسجد میں مولانا کے خطبے اور درس میں جہنم کی آگ اور عذاب قبر کے بارے میں اتنا کچھ بتایاگیا کہ ایک نئی پریشانی لاحق ہوگئی وہ یہ کہ اگر میری عبادتیں قبول ہی نہ ہوئیں تو پھر کیا ہوگا۔ اسی پریشانی کو کم کرنے کے لیے میں نے نیکیوں میں اضافے کے کئی پروگرام شروع کردیئے جن میں بزرگوں یا
خواتین کو بس میں کھڑا دیکھ کر انہیں اپنی سیٹ پیش کرنا، اپنے پاکٹ منی سے بھیک مانگنے والے بچوں کو کھانے پینے کی اشیا خرید کر دینا اور ایسے ہی کئی دوسرے کام لیکن جہنم کی آگ اور عذاب قبر کے باقاعدگی اور تسلسل سے سنائے جانے والے بیانات اور خطبات کے سبب مسجد کی حاضری میں کمی آگئی، پانچ وقت کی بجائے دو وقت ، پھر ایک وقت اور پھر جمعے کے جمعے، زیادہ تر نمازوں کی ادائیگی گھر پر ہی ہونے لگی۔ وقت بیت گیا بلکہ پر لگاکر یوں اڑا کہ کبھی اڑتا ہوا نظر ہی نہ آیا۔ زمانہ تعلیم ختم ہوا ، عملی زندگی کا آغاز ہوگیا، ستم بالائے ستم، بچپن میں کی گئی وہ تمام تربیت جس کا میں ذکر کرچکا ہوں وہ شخصیت کا حصہ بن گئی، عرصہ دراز اس تربیت کے سبب بھٹکتے رہے، پھر خان آیا تو گویا زندگی میں بہار آگئی، اُس نے بتایا کہ زندگی کا اصل مقصد ہے کیا، اسے کیسے گذارنا چاہیے، سچ پوچھئے تو اُس نے زندگی اور زندہ رہنے کا مفہوم سمجھایا ہے۔ اُس کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اُس نے زندگی کے مختلف گوشوں میں چھپے ہوئے خوف سے نجات دلائی ہے، یہ اُس کا مزید بہت بڑا کارنامہ ہے، وہ دن میری زندگی کا یقیناً ایک سہانا دن تھا جس دن اُس نے بتایا کہ اُس نے نصف عمر کرکٹ کھیلتے گذار دی۔ دنیا جانتی ہے کہ کرکٹ ایئر کنڈیشنڈ بند کمروں میں تو نہیں کھیلی جاتی جہاں سخت گرمی ہو یا سخت سردی ہو ، کرکٹ تو میدانوں میں ہی کھیلی جاتی ہے۔ خان نے بتایا کہ اس نے جتنی گرمی میں مسلسل پانچ پانچ روز ٹیسٹ میچ کھیلے
ہیں، اِس نے اسے گرمی کا عادی بنادیا ہے، اب اگر اُسے اٹھاکر جہنم میں بھی ڈال دیا جائے تو اُسے وہاں گرمی نہیں لگے گی۔ ہم سب بھائیوں کو بچپن ہی سے کرکٹ کا بہت شوق تھا، لہٰذا سب نے خوب کرکٹ کھیلی، اُس زمانے میں کرکٹ شرفا اور تعلیم یافتہ گھرانوں کا شوق ہوتا تھا، اپنی کرکٹ کو یاد کیا تو یہ سوچ کر دل بہت مسرور ہوا کہ ہمیں بھی اگر جہنم میں ڈال دیاگیا تو خیر ہے، وہاں بھی زیادہ نہیں بس اتنی ہی گرمی ہوگی جتنی کرکٹ کے میدان میں کھیلتے ہوئے لگتی ہے۔ بچپن کا دوسرا خوف قبر کا تھا، خان نے اِس معاملے میں بھی ہمارے علم میں اضافہ کرکے یہ خوف ختم کردیا ، جس کے لیے اُس کا جتنا بھی شکریہ ادا کروں، کم ہے۔ خان نے بتایا کہ صحیح معنوں میں سکون تو قبر میں جاکر ملتا ہے، یہ جان کر مجھے اپنی کم علمی پر بہت افسوس کہ خواہ مخواہ ڈر ڈر کر عمر کا اہم ترین حصہ گھٹ گھٹ کر رہے اور اِسے ضائع کردیا، خان کی بیان کردہ تعریف سے لگتا ہے قبر بھی قریباً سٹوڈیو اپارٹمنٹ کی طرح ہوگی، ایک کونہ آرام کا دوسرا کونہ صوفوں میز سے آراستہ، ایک طرف چھوٹا بیڈروم سائز فریج، دوسری طرف گرماگرم چائے کافی کے لیے ’’پریس اینڈ پور‘‘ جب چاہو اپنے لیے ٹھنڈا گرم جو چاہو بنالو، اب سمجھ آیا کہ ہر وقت سچ بولنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں، صبح شام جھوٹ بولنا چاہیے، بات کہہ کر اِس سے پھر جانا، لوگوں کی جیبیں کاٹنااپنی جیب بچاکر رکھنا بلکہ اپنی جیب میں کبھی پرس نہ رکھنا، وقت ، زمانے اور اپنی ضرورت کے تحت بھیس بدلتے رہنا، بڑا فائدہ مند ہوتا ہے۔ عوام میں جائو تو میلی سلوٹوں والی شلوار قمیص، طبقہ امرا میں ملاقات کرنی ہو مہنگے ملبوسات، امریکہ اور یورپ سے آئے لوگوں سے ملنا ہو تو ٹی شرٹ اور جینز تاکہ ہر ملنے والے کو تاثر ملے ، ہائے یہ تو ہم جیسا ہے۔ سب سے اہم کام جو کبھی ہم نے کیا نہ اکثر پاکستانی کرتے ہیں، وہ یہ کہ گھر میں کم ازکم دو کتے ضرور ہونے چاہئیں، ان کے ساتھ تصویریں بنوانا اور ان کی خدمت کرتے ویڈیوز بنوانا بھی بہت ضروری ہے، جو لوگ ایسا نہیں کرتے ان کو دنیا پینڈو سمجھتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ صنف نازک آپ کو پاس پھٹکنے نہیں دیتی، ایک اور سبق بھی ملتا ہے کہ شادی وادی نہایت فضول کام ہے، گھومو پھرو، موج میلہ کرو، ہر روز نیا تجربہ، زہن و دل کو جوان رکھتا ہے۔ شادی کرنے کے لیے ماں باپ، بہن بھائی اصرار بھی کریں تو چالیس برس کی عمر کے بعد کرو اور خواہ مخواہ کسی غریب رشتہ دار پر ترس کھاکر اس کے یہاں نہیں بلکہ امیرو کبیر خاندان میں کرو، ہمت و حوصلہ ہو تو بار بار کرو اور فل ٹائم کے علاوہ پارٹ ٹائم بھی کرو، میں گردش حالات کے سبب دل برداشتہ نہیں ہوں، نہ ہی چڑیوں نے کھیت مکمل طور پر چگ لیا ہے کہ پچھتاوا شروع ہوجائے، حقیقت یہ ہے کہ اب پرانے سیاست دانوں کی دوسری نسل ان تمام عہدوں پر نظریں جمائے بیٹھی ہے جن پر میری نظر ہے، ایک طرف بلاول بھٹو ہے، دوسری طرف مریم اور حمزہ شہباز ہیں، مونس الٰہی اور سالک کے علاوہ میرے بڑے بھائی کا چانس ابھی ختم نہیں ہوا، کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن خراب تربیت کے سبب میں اس دوڑ سے آئوٹ ہوں۔ آپ اپنے بچوں کی تربیت پر دھیان دیں تاکہ وہ کل کلاں اقتدار کے اہل بن سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button