Columnعبدالرشید مرزا

نجم ولی خان کے نام .. عبدالرشید مرزا

عبدالرشید مرزا

 

اکتوبر9 کو نجم ولی خان کا مضمون پڑھا ’’سراج الحق کے نام‘‘خوشی بھی ہوئی اور کچھ افسوس بھی، میں ضروری سمجھوں گا ان کے سوالات کے جوابات دینا۔ خوشی اس بات کی ہوئی کہ کم از کم انہوں نے یہ تو اقرار کیا کہ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق ایک اچھے آدمی ہیں، وہ نہ مالی کرپٹ ہیں اور نہ ہی اخلاقی، مجھے یہ بھی یقین ہے کہ وہ پاکستان میں اسلامی اقدار کے تحفظ کیلئے نیک دلی سے کردار ادا کرنا چاہتے ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہوا یا تو ٹرانس جینڈر ایکٹ کے مغرب میں جو اثرات مرتب ہوئے ان سے وہ لاعلم ہیں اس کیلئے ضروری تھا وہ مطالعہ کرتے میرے اس مضمون جس کا عنوان تھا’’عالمی تناظر میں ٹرانسجینڈر ایکٹ‘‘ اور وہ یہ سمجھتے کہ ایکٹ کو منظور کروانے کیلئے بڑی پارٹیز کا ساتھ ہونا ضروری ہے، جیسے پاکستان مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی جب بھی یہ مغرب کے ایجنڈے کو پورا کرنا چاہتے ہیں تو مل کر قوانین بنواتے ہیں ،اس وقت ان سب کا مائی باپ ایک ہوتا ہے، جیسے آئی ایم ایف کی محبت میں، ان تینوں نے سٹیٹ بنک آف پاکستان کے قوانین میں ترمیم کی، چلیں آج کے موضوع پر کچھ گذارشات نجم ولی کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
ٹرانس جینڈر ایکٹ پر میں نے سراج الحق امیر جماعت اسلامی پاکستان اور سینیٹر مشتاق احمد خان کا مؤقف جانا تاکہ نجم ولی کی خدمت میں مجھے بات کرنے میں آسانی رہے۔ سراج الحق کا یہ کہنا ہے کہ ہم چاہتے ہیں خواجہ سراؤں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے علیحدہ تعلیمی ادارے قائم کرنے چاہئیں، ملازمت کے مواقع اور میڈیکل کی سہولیات دینی چاہئیں، عبادت کیلئے مساجد کی تعمیر اور ان کو وظائف دینے چاہئیں اور جماعت اسلامی کی طرف سے وفاقی شرعی عدالت میں درخواست دائر کرنے والے وکیل عمران شفیق ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ہم نے سنہ 2018 میں متعارف کروائے گئے اس ایکٹ کو آئین پاکستان کی روح سے چیلنج کیااورمؤقف اختیار کیا ہے کہ انسان کو تخلیق کرنے کا حق صرف اللہ کے پاس ہے۔ اللہ نے عورت اور مرد کو تخلیق کیا۔ قدرت کی تخلیق میں بڑی حکمت ہے۔ ایک عورت کو اپنی مرضی سے مرد اور ایک مرد کو عورت بننے کا کوئی اختیار نہیں۔ ایسا کرنا خلاف شرع اور بہت ہی برائیوں کا باعث بن رہا ہے۔ اس قانون کے حوالے سے انٹرنیشنل کمیشن آف جیوریسٹ (آئی سی جے) کی طرف سے بھی اعترضات آئے ہیں جبکہ پاکستان کے انتہائی اہم آئینی ادارے اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا، میری تجویز ہے کہ جنس تبدیلی کا معاملہ میڈیکل بورڈ کی اجازت سے مشروط کیا جائے۔ میڈیکل بورڈ کی رائے کے بغیر کسی کو بھی جنس
تبدیلی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور اپنی مرضی سے صنفی شناخت اختیار کرنا نہ صرف خلافِ شریعت ہے بلکہ یہ اسلام کے قانون وراثت سے بھی متصادم ہے اور خواتین کے عفت و پاک دامنی اور ہماری روایات کے بھی خلاف ہے۔ اس پورے قانون کو از سر نو مرتب ہونا چاہیے اور قانون دان، علما، اور انٹر سیکس افراد کے حقوق کیلئے کام کرنے والے افراد، طبی ماہرین اور اسلامی نظریاتی کونسل کی رہنمائی اور سفارشات کی روشنی میں اسے تیار ہونا چاہیے۔ سرکاری رپورٹس کے مطابق کوئی 40 ہزار لوگوں نے نادرا کے سرکاری کاغذات میں جنس تبدیل کروائی ہے۔ ان میں بڑی تعداد مردوں کی ہے، جنھوں نے اپنی شناختی دستاویز میں جنس تبدیل کروائی۔ اس سے معاشرے میں بہت بڑا انتشار پھیل رہا ہے۔ چار سال بعد اس قانون میں ترمیم اس لئے ضروری سمجھی گئی کیونکہ 4 سال کا ڈیٹا سامنے آیا ہے جس سے اس قانون کی عملی شکل سامنے آئی جس سے پتا چلتا ہے کہ کتنے خواجہ سراؤں نے استفادہ حاصل کیا اور کتنے عام افراد نے جو آج تک میڈیکل دینے سے قاصر ہیں جن لوگوں نے رجسٹریشن کروائی 40 ہزار کے قریب ہے جس میں بہت کم تعداد خواجہ سراؤں کی ہے۔
جماعت اسلامی نے پہلے بھی اس بل کی مخالفت کی تھی۔ اس وقت جماعت اسلامی نے اس بل کے خلاف منظم مہم چلائی تھی۔ جماعت اسلامی کے پاس پارلیمان میں اتنی اکثریت نہیں تھی کہ وہ بل کو مسترد کرواتی مگر وہ اس بل پر سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطے میں رہی اور انھیں قائل کرتی رہی کہ مذکورہ بل اسلام مخالف بل ہے۔ جماعت اسلامی اس سے پہلے بھی اس بل کے خلاف پارلیمان میں ترامیم لائی تھی جنھیں اکثریتی پارٹیوں نے منظور نہیں کیا تھا۔ اب جب دیکھا کہ پانی سر سے گزر رہا ہے تو نون لیگ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے رہنما کھل کر اس بل کے حق میں سامنے آگئے ہیں تو اس کے خلاف نہ صرف یہ کہ وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کیا ہے بلکہ عوامی سطح پر بھی مہم چلا رہے ہیں۔ پاکستان میں جماعت اسلامی کے ممبرز قومی اسمبلی اور سینیٹرز نے مختلف امور پر بل پیش کئے لیکن منسوخ کر دئیے گئے کیونکہ پاکستان کے قانون ساز اداروں میں ایسے افراد کی اکثریت ہے جو وطن عزیز کو سیکولر اور لبرل بنانا چاہتے ہیں
نجم ولی آپ جس گلی اور محلے کی بات کر رہے ہیں وہاں پر آپ کا گزر نہیں ہوا، جو بدترین اخلاقی انحطاط کا شکار ہیں جہاں پر بچے، جوان، بوڑھے پورن فلموں دیکھنے میں مصروف ہیں، بے حیائی کے طوفان کو روکنے کیلئے قاضی حسین احمد مرحوم اور انصار عباسی نے عدالت سے رجوع کیا تھا لیکن آج تک کوئی جواب نہ مل سکا، اور نہ ہی کوئی قانون بن سکا۔ انہی گلی محلوں میں روزانہ 7 سو افراد نشہ کرنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں صرف شہر لاہور میں 2 سو سے زائد مقامات پر نشہ بکتا ہے لاہور کی یونیورسٹیز میں 12 ہزار طالبعلم نشہ کرتے ہیں۔ جس کی سرپرستی علاقے کا ایس ایچ او اوربااثرافراد کرتے ہیں۔ انہی گلی محلوں میں کئی زینب ریپ کا شکار ہوئیں جو ہمارے جاگیر داروں کی حویلیوں میں روزانہ کا معمول ہے سرکاری اعدادو شمار کے مطابق روزانہ 11 خواتین جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں۔ انہیں گلی محلوں میں بجلی کا بل لئے خواتین اپنی عصمت بیچنے پر مجبور ہیں۔ اس ایکٹ کا معاملہ عدالت میں بھی ہے جس میں گزشتہ حکومت کی وفاقی وزارت انسانی حقوق نے جواب داخل کرواتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ہم نے یہ بل اسلامی نظریاتی کونسل سے مشاورت کرکے بنایا ہے جبکہ اسلامی نظریاتی کونسل نے واضح طور پر اس سے انکار کردیا اور اس بل کی جنس تبدیلی کے طریقہ کار کی کھل کر مخالفت کی۔ وزارت نے یہ بھی کہا کہ یہ بل حکومت نے یوگیا کارٹا پرنسپلز کے اصولوں کے تحت بنایا ہے،یوگیا کارٹا پرنسپلز میں ہم جنس پرستی کو مکمل قانونی حمایت حاصل ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے قانون سازی اپنے معاشرے، مذہب اور قوم کو سامنے رکھ کر کرنی ہے یا یوگیا کارٹا پرنسپلز کو؟
ٹرانسجینڈر مغربی اصطلاح ہے اور یہ ایک پوری کمیونٹی کی نمائندگی کرتی ہے۔اس کمیونٹی کو خواجہ سراؤں سے کوئی ہمدردی نہیں۔ یہ وطن عزیز علامہ محمد اقبال ؒ، قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ اور سید ابوالاعلی مودودی ؒ کی کاوش اور لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں سے وجود میں آیا ٹھا، لیکن بدقسمتی سے ہمارے حکمران مغرب کو خوش کرنے کیلئے اجتماعی طور پر اکٹھے ہوتے ہیں، کبھی پاکستان کے نظریات سے کھیلتے ہیں ہمارے حکمران اور نام نہاد مذہبی جماعتیں ٹرانس جینڈر ایکٹ کا واوریلا کرکے مغرب کو خوش کرنا چاہتے ہیں تاکہ نظریہ پاکستان کو سبوتاژ کیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button