Column

صدام حسین کے خون سے تحریر کردہ قرآن کہاں گیا ؟

صدام حسین کے خون سے تحریر کردہ قرآن کہاں گیا ؟
تحریر : ایم سرور صدیقی

یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ 1979ء میں برسراقتدار آنے والے صدام حسین 2003ء میں عراق میں امریکی مداخلت تک عراق کے صدر رہے۔ کہا جاتا ہے کہ عراق کے مرحوم صدر صدام حسین کے دل میں ایک انوکھی اور نرالی خواہش نے جنم لیا اسے عشق کی انتہا بھی کہا جا سکتا ہے اور پاگل پن بھی۔1990ء کی دہائی کے آخر میں صدام حسین نے ایک عجیب و غریب درخواست کے ساتھ نامور ایک خطاط ( کیلی گرافر) سے رابطہ کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ قرآن کی ایک ایسی کاپی تیار کی جائے جس میں سیاہی کی جگہ اْن کا خون استعمال ہو۔ اس کے لئے شنید ہے کہ 2سال کے عرصے تک ہر ہفتے صدام حسین ایک نرس کو اپنا بازو پیش کرتے تھے تاکہ وہ اس میں سے ان کا تازہ خون نکال سکے، جس سے قرآن حکیم کا ایک نادر اور دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا اور شاید آخری تحریر کیا جاسکے، بہرحال تاریخی اعتبار سے اس کام پر اٹھنے والے اخراجات کے ساتھ ساتھ بہت سی دیگر تفصیلات بھی متنازعہ ہیں۔ مگر بارہا سامنے آنے والے دعوئوں کے مطابق اس قرآن مجید کے 605صفحات پر (114سورتیں) لکھنے کے لیے صدام حسین کا 24لٹر خون استعمال ہوا۔ امریکہ کی جارج ٹائون یونیورسٹی میں سینٹر فار کنٹیمپریری ( ہم عصر) عرب سٹڈیز کے ڈائریکٹر جوزف ساسون کہتے ہیں کہ اس قرآن کی تکمیل کے بعد اسے بڑی دھوم دھام کے ساتھ صدام حسین کو پیش کیا گیا تھا۔ ساسون صدام حسین پر لکھی جانے والی ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ امریکہ میں کیلیفورنیا کے نیول گریجویٹ سکول میں سیاسی حکمت عملی کے پروفیسر سیموئل ہیلفونٹ کا کہنا ہے کہ ’’ صدام کو اس پر بہت فخر تھا۔ انہوں نے اس قرآن کے ساتھ بہت سی تصاویر بنوائی تھیں‘‘۔
الگ الگ صفحات پر مشتمل قرآن کریم کے اس نسخے کو بغداد کی مسجد جامع ام القرا میں رکھا گیا تھا۔ یہ مسجد بھی صدام حسین نے تعمیر کرائی تھی اور اس میں چار بڑے مینار ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس مسجد کے مینار کلاشنکوف ( اے کے 47) کی نوک سے ملتے جلتے ہیں۔ اس قرآن حکیم کی تقریب رونمائی کو عراقی اور بین الاقوامی میڈیا نے کور کیا تھا۔ 25ستمبر 2000ء کی رپورٹس کے مطابق صدام حسین نے قرآن کا یہ نسخہ اس لئے بنوایا تاکہ اللہ انہیں ان کے سیاسی سفر میں ’’ سازشوں اور خطرات‘‘ سے محفوظ رکھے، کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی پامسٹ نے ان کا زائچہ بناکر مشورہ دیا تھا اگر آپ اپنے خون سے آخری الہامی کتاب تحریر کرائیں تو تاحیات زوال سی بچ جائیں گے۔ اس زمانے میں سرکاری میڈیا کو ریلیز کئے گئے اپنے ایک خط میں صدام حسین نے کہا تھا کہ ’’ میری زندگی خطرات سے گِھری ہوئی ہے، جس میں میرا بہت زیادہ خون ضائع ہو سکتا تھا۔۔۔ مگر میرا کم ہی خون ضائع ہوا۔ پھر میں نے درخواست کی کہ خدا کی کتاب کے الفاظ میرے خون سے لکھ کر نذرانہ عقیدت پیش کیا جا سکے‘‘۔
کچھ لوگ کا خیال ہے کہ انہوں نے ایسا اس لئے کیا کیونکہ وہ اس دور میں اپنی ذات کو درپیش بحرانوں سے گزر رہے تھے اس لئے ان کا خیال ہے کہ وہ اللہ کے حضور اپنے خون کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ وہ ایسا اس لئے کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ ستمبر 1996ء کے ایک حملے میں اپنے بیٹے عدی صدام حسین کے بچ جانے پر خدا کے شکر گزار تھے۔ مگر ساسون کے مطابق ’’ سیاسی مقاصد کے لئے مذہب کا استعمال‘‘ کیا گیا تھا۔ ساسون کہتے ہیں کہ خون سے لکھا گیا قرآن ایک مثال ہے کہ کیسے کوئی آمر اپنا سیاسی مقصد حاصل کرنے کے لیے کسی بھی چیز کو استعمال کر سکتا ہے، چاہے وہ مذہب ہی کیوں نہ ہو۔ وہ کہتے ہیں1990ء کی دہائی میں ایران کے ساتھ جنگ کے اختتام پر صدام کو احساس ہوا کہ ایرانی مذہبی سوچ پورے عراق میں پھیلتی جائے گی۔ انہوں نے کْھل کر یہ کہا کہ بعث پارٹی کے نوجوان بنیاد پرستی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ ساسون کے مطابق مجھے نہیں لگتا کہ وہ واقعی زیادہ مذہبی ہو گئے تھے۔ انہوں نے سیاسی مقاصد کے لئے یہ دکھاوا شروع کر دیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مساجد تعمیر کرائیں اور ایک بڑی یونیورسٹی بھی جسے وہ قرآن کی تعلیم کا بڑا ادارہ کہتے تھے۔ ان کی نظر میں یہ خیال بہت اچھا تھا کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ وہ اس سے لوگوں کو اپنی جماعت کی حمایت کے لئے مائل کر سکیں گے۔ وہ قرآن کو ایسے پڑھیں گے جس سے وہ انہیں اپنا رہنما مان سکیں۔ اس سے ان کے لئے آسانی ہو جائے گی کہ وہ عوام کو مذہب کے ذریعے کنٹرول کر سکیں۔ وہ اس کی مثال دیتے ہیں کہ صدام حسین نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے خواتین سے متعلق اپنا رویہ تبدیل کیا۔ جب وہ 1968ء میں سیاست میں آئے تو روایات پر ہنستے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ خواتین کے پاس بھی ووٹ کا حق ہو، مزدوروں کو حقوق ملیں اور سب کے لیے تعلیم کے مواقع پیدا ہوں۔ وہ معاشرے میں عورتوں کے کردار کے حقیقی محافظ تھے لیکن 1990ء میں انہوں نے اپنا لہجہ تبدیل کیا اور کہنا شروع کیا کہ عورتوں کی جگہ گھر ہے اور ان کا کام زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کی دو وجوہات تھیں۔ مذہبی جنون اور بے روزگاری بڑھ رہی تھی۔ کویت کے ساتھ جنگ میں سات لاکھ فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ ساسون کے مطابق وہ چاہتے تھے کہ خواتین کی نوکریاں مردوں کو مل جائیں ( جیسے پہلی عالمی جنگ کے بعد یورپ میں ہوا تھا) تاکہ بے روزگاری کے باعث معاشرے میں پیدا ہونے والا تنائو کم ہو سکے۔
آخری الہامی کتاب قرآن حکیم کا نسخہ تحریر کرنے کے لئے 24لٹر خون کے دعویٰ سے متعلق ہیل فونٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’’ خون میں کچھ کیمیائی مادے ملائے گئے تاکہ اسے سیاہی کے طور پر استعمال کیا جا سکے اور وہ تادیر محفوظ رہ سکے‘‘۔ لیکن کیا یہ واقعی صدام حسین کا خون تھا؟، ساسون کے مطابق ممکن ہے کہ صدام نے کچھ خون اس کے لئے دیا تھا کیونکہ اتنے زیادہ صفحات کے لئے بہت زیادہ خون درکار تھا۔ ایک اندازے کے مطابق ایک شخص سال میں چار مرتبہ 470ملی لٹر خون تک کا عطیہ کر سکتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار میں بتایا گیا کہ صدام نے یہ تمام خون دو سے تین برس کے دوران عطیہ کیا جو بظاہر ناممکن لگتا ہے۔ ماہرین کے مطابق انہیں کچھ چیزوں کا ڈر اور وہم تھا۔ مثلاً وہ روایت کے برعکس صدارتی محل آنے والے لوگوں سے ہاتھ ملاتے تھے اور نہ ہی گلے ملتے تھے۔ ساسون کہتے ہیں کہ انہیں فلو ( نزلہ) ہونے کا ڈر لگا رہتا تھا۔ جب وہ رات کے کھانے پر جاتے تو کچھ بھی کھاتے پیتے نہیں تھے۔ صدارتی محل میں ان کا اپنا شیف تھا اور ایک لیب میں کھانے میں زہر کی ملاوٹ کی جانچ کی جاتی تھی۔ میں ان کے قریب ہونے کے باوجود یقین سے تو نہیں کہہ سکتا لیکن یہ امکان بہت کم ہے کہ انہوں نے ( قرآن لکھنے کے لئے) سارا خون خود عطیہ کیا ہو۔
2003ء میں صدام حسین کے زوال کے بعد خون سے لکھے گئے قرآن کے اس نسخے کو چھپا دیا گیا۔ اسے اسی مسجد میں تین دروازوں کے اندر محفوظ کر لیا گیا تاکہ اس سے اْن کے تعلق کو ختم کیا جا سکے۔ ہر صفحے کو بلٹ پروف شیشے کے خانوں میں رکھا گیا تھا۔ قرآن پاک کے نسخے کو حاصل کرنے کے لئے ترک بادشاہوں کی تکنیک استعمال کی گئی تھی اس کے لئے تین چابیاں درکار تھیں اور قرآن کے تمام صفحات ایک ہی جگہ پر محفوظ نہیں کئے گئے تھے۔ امریکی مداخلت کے بعد ان صفحوں کی نگرانی پر مامور ایک شخص نے برطانوی اخبار دی گارڈین کو بتایا تھا کہ ’’ نسخے کو حاصل کرنے کے لئے تین چابیاں درکار ہوتی ہیں۔۔۔ ایک میرے پاس ہے، ایک علاقے کے پولیس سربراہ کے پاس اور تیسری بغداد کے کسی دوسرے حصے میں رکھی گئی ہے‘‘۔ صحافی کو اس نسخے تک رسائی نہیں دی گئی تھی اور اسے بتایا گیا کہ ’’ اس کے لئے کمیٹی کی خصوصی اجازت درکار ہے‘‘۔ سنہ 2003میں صدام حسین کے زوال کے بعد خون سے لکھے گئے قرآن کے اس نسخے کو چھپا دیا گیا۔ اس ناد ر نسخے کے ( کیلی گرافر) خطاط عباس شاکر جودی نے اپنے آبائی وطن عراق کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا تھا اور کم از کم ایک دہائی قبل تک وہ امریکی ریاست ورجینیا میں مقیم تھے۔ 2003ء کے بعد عراق سے صدام کی کئی یادگاریں ہٹا دی گئی ہیں۔ ان کی وراثت کو مٹانے کے لئے ان سے وابستہ متعدد عمارتوں کے نام تبدیل کیے گئے مگر قرآن کے حوالے سے حکام اس مخمصے کا شکار ہوئے کہ اسے ختم کر دیا جائے یا چھپا دیا جائے۔ ہیلفونٹ کے مطابق یہ مذہبی مسئلہ بن گیا ہے۔ ایک طرف اسے بیشتر مذہبی سکالر گستاخانہ سمجھتے ہیں ( جسم سے نکلنے والے خون کو ناپاک سمجھا جاتا ہے) جبکہ اسلامی تاریخ میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی ( کہ خون سی قرآن لکھا گیا ہو)۔ دوسری طرف اسلامی روایت میں قرآن خدا کا کلام ہے۔ لہذا آپ اسے تباہ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فی الوقت سب سے بہتر یہ سمجھا گیا کہ اسے وہیں چھوڑ دیں، جہاں یہ تھا یعنی نظر میں نہ ہونے سے یہ اپنی اہمیت کھو دے گا۔ یہ قرآن اب کہاں ہے؟ آپ بھی یہ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ قرآن کیا اب بھی بغداد کی اس مسجد میں چھپا کر رکھا گیا ہے یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ عراق میں امریکی حملے کے دوران کہیں وہ تلف نہ ہو گیا ہو یا پھر جن کے پاس چابیاں تھیں، وہ اس لئے خاموش رہے کہ کہیں صدام حسین سے تعلق کے باعث وہ کہیں زیر عتاب نہ آجائیں، بہرحال اس نادر قرآن حکیم کا نسخہ کہاں ہے کوئی جانتا۔

 

ایم سرور صدیقی

جواب دیں

Back to top button