Column

امریکی ٹیرف کے بھارتی معیشت پر ممکنہ اثرات

امریکی ٹیرف کے بھارتی معیشت پر ممکنہ اثرات
تحریر : روہیل اکبر

بھارت دنیا کا کثیر آبادی والا ملک ہے جہاں غربت بھی حد سے زیادہ ہے اب امریکہ کی طرف سے بھارت ہر50فیصد ٹیرف لگا دیا گیا ہے، جس سے غربت اور بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے یہ ٹیرف بھارت کی جانب سے روس سے تیل کی خریداری پر عائد کیا گیا ہے بھارت پر 50فیصد ٹیرف عائد کئے جانے کی خبر نے بین الاقوامی تجارتی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ اس فیصلے کے سیاسی، معاشی اور سفارتی پہلوئوں پر نہ صرف غور کرنے کی ضرورت ہے بلکہ عام قاری کو ’’ ٹیرف‘‘ جیسے اصطلاحی الفاظ کا مفہوم بھی جاننا چاہیے کہ ٹیرف کیا ہوتا ہے؟۔ ٹیرف دراصل ایک قسم کا درآمدی ٹیکس ہوتا ہے جو ایک ملک دوسرے ملک سے آنے والی اشیا پر عائد کرتا ہے، جب کسی شے پر ٹیرف بڑھا دیا جائے تو وہ شے درآمد کنندہ ملک میں مہنگی ہو جاتی ہے، جس سے مقامی صنعت کو فروغ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر امریکہ بھارت سے آنے والے سٹیل پر 50فیصد ٹیرف عائد کرتا ہے تو بھارتی سٹیل کی قیمت امریکی منڈی میں بڑھ جائے گی، جس سے امریکی سٹیل ساز کمپنیوں کو فائدہ ہوگا اگر ہم بھارت پر 50فیصد امریکی ٹیرف کے اثرات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ یہ فیصلہ بھارت کے لیے کئی حوالوں سے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ جیسے بھارت کی بہت سی اشیا خصوصاً ٹیکسٹائل، سٹیل، کیمیکل اور فارماسیوٹیکل مصنوعات امریکہ کو برآمد کی جاتی ہیں، جن پر 50فیصد ٹیرف ان اشیا کو مہنگا کر دے گا، جس سے ان کی مانگ میں کمی آئے گی، جب برآمدات میں کمی آئے گی تو بھارتی صنعتوں میں پیداوار کم ہو گی، جس سے روزگار کے مواقع بھی محدود ہوں گے۔ برآمدات میں کمی کا براہ راست اثر بھارت کے زرمبادلہ ذخائر پر بھی پڑے گا، جو معیشت کو مزید دبائو میں ڈالے گا اور بھارت کی حکومت پر اندرونی اور بیرونی دبائو بڑھ سکتا ہے کہ وہ امریکہ سے تعلقات میں بہتری کے لیے دوبارہ مذاکرات کرے۔ امریکہ کے مطابق بھارتی مصنوعات پر ٹیرف میں اضافہ تجارتی توازن قائم کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ امریکہ کا الزام ہے کہ بھارت اپنی منڈیوں کو امریکی کمپنیوں کے لیے محدود رکھتا ہے، جبکہ امریکی منڈیوں میں بھارتی مصنوعات آزادانہ داخل ہوتی ہیں۔ امریکی پابندیوں کے بعد اب بھارت کے پاس کیا آپشنز ہیں؟۔ اس حوالہ سے بھارت WTOمیں شکایت درج کروا سکتا ہے، تاکہ اس فیصلے پر نظرثانی کی جا سکے اور بھارت بھی امریکی مصنوعات پر جوابی ٹیرف لگا کر دبائو ڈال سکتا ہی، جیسا کہ چین نے ماضی میں کیا تھا یا بھارت یورپ، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کی منڈیوں پر توجہ دے سکتا ہے، تاکہ امریکی انحصار کم کیا جا سکے یا پھر بھارت امریکہ سے سفارتی سطح پر بات چیت کے ذریعے کسی متفقہ حل کی کوشش کر سکتا ہے، اگر بھارت اس ٹیرف کو ختم کرانے میں ناکام رہا تو پھر اس کا اثر بھارت پر بہت برا پڑ سکتا ہے، کیونکہ بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جبکہ 2023ء میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت آبادی میں چین کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بننے جا رہا ہے۔ بھارت کی آبادی میں بے پناہ اضافہ کئی دہائیوں سے جاری ہے جو قدرتی وسائل، بنیادی ڈھانچے اور سماجی خدمات پر شدید دبائو ڈال رہا ہے، اگرچہ شہری علاقوں میں ترقی اور خوشحالی کے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن دیہی علاقوں میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔ دیہی آبادی کا بڑا حصہ آج بھی بنیادی سہولیات جیسے صاف پانی، صحت اور تعلیم سے محروم ہے بھارت میں غربت ایک کثیر الجہتی مسئلہ ہے، جہاں نہ صرف آمدنی میں کمی بلکہ غذائیت، تعلیم، صفائی اور دیگر بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی بھی شامل ہے۔ اگرچہ کچھ سرکاری رپورٹس میں غربت کی شرح میں کمی کا دعویٰ کیا گیا ہے، لیکن بہت سے آزاد اداروں اور ماہرین کا خیال ہے کہ اصل صورت حال زیادہ تشویشناک ہے۔ بھارت کی 1.4ارب آبادی میں سے ایک ارب سے زائد افراد انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے بھارت میں اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ امیری اور غریبی کے درمیان خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ ایک طرف ارب پتی افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف غریب طبقے کی آمدنی میں کمی واقع ہورہی ہے۔ ملک کے صرف 5فیصد لوگوں کا 60فیصد دولت پر قبضہ ہے۔ اس وقت بھارت میں غربت کا سب سے زیادہ شکار دلت اور پسماندہ ذاتیں ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو آبادی اور غربت کے درمیان ایک گہرا اور پیچیدہ تعلق ہے، بڑھتی ہوئی آبادی بے روزگاری میں اضافہ کرتی ہے۔ جس سے آمدنی میں کمی اور غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ آبادی میں اضافہ حکومت کے لیے صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے جیسی ضروریات کو پورا کرنا مشکل بنا دیتا ہے۔ بھارت کو اپنی آبادی کو ایک بوجھ کے بجائے ایک اثاثہ بنانے کے لیے کئی چیلنجوں کا سامنا ہے، نوجوانوں کی بڑی تعداد کو اگر مناسب روزگار اور مہارت فراہم نہ کی گئی تو یہ ایک سماجی اور معاشی بحران کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ بھارت کے مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ کس طرح اپنی بڑی آبادی کو ایک مثبت قوت میں تبدیل کرتا ہے۔ اگرچہ غربت میں کمی کے لیے کچھ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں لیکن اصل چیلنج غربت کو مکمل طور پر ختم کرنا اور دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہے۔ اس کے لیے بھارت کو تعلیم اور ہنر مندی میں سرمایہ کاری کے ذریعے نوجوانوں کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تعلیم اور ہنر مندی فراہم کرنا ہوگی تاکہ وہ روزگار کے مواقع سے فائدہ اٹھا سکیں جبکہ دیہی علاقوں میں غربت کو کم کرنے کے لیے زرعی اصلاحات، چھوٹے کاروباروں کی حوصلہ افزائی اور بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے پر زور دینا ہوگا، اگر ایسا نہ کیا گیا تو امریکی پابندیوں کے بعد بھارتیوں کا جینا مشکل ہو جائیگا ۔

جواب دیں

Back to top button