کورٹ مارشل

محمد مبشر انور (ریاض)
بسا اوقات لکھنے میں کیا مشکلات پیش آتی ہیں،ان کااظہار کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا کہ اردگرد بے شمار خبریں ہونے کے باوجود،ذہن کسی ایک چیز پر مرتکز نہیں ہو پاتا اور خیالات کا اعدہام ذہن کو الجھائے رکھتا ہے،خیالات کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرنا مشکل ترین بن جاتا ہے،بہرکیف ان تمام معاملات کے باوجود،کوشش ہوتی ہے کہ بہتر تحریر و تجزیہ قارئین کے ساتھ شیئر کیا جائے۔ بنیادی طور پر دیکھیں تو پاکستان کے حالات آج بھی تقریبا وہی ہیں جو آزادی کے بعد سے ہمیں میسر ہیں کہ جمہوری طریقہ کار سے حاصل کئے گئے ملک میں جمہوری اقدار ناپید ہیں اور بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہنوز دلی دور است کہ ارباب اختیار میں ابھی تک اس کا احساس نہیں یا یوں کہہ لیں کہ میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں،کمبل مجھے نہیں چھوڑتا۔ موجودہ صورتحال میں یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ کمبل کو چھوڑنے کی کوشش ہو رہی ہے اور نہ ہی یہ کہا جاسکتا ہے کہ کمبل چھوڑ رہا ہے درحقیقت سیاسی حرکیات میں قحط الرجال کی ایسی نوبت سامنے آچکی ہے کہ خود ساختہ سیاستدان سیاسی مسائل سے نبردآزما ہونے کے لئے تیار نہیں یا ان کے درمیان فاصلے اس قدر زیادہ ہو چکے ہیں کہ وہ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے باہم مل بیٹھنے سے قاصر ہیں۔ اس کی زیادہ تر ذمہ داری عمران خان کے کندھوں پر ڈالی جاتی ہے کہ وہ واحد سیاستدان ہے جو ببانگ دہل اس امر کا اظہار کر رہا ہے کہ وہ اپنے مخالفین،جنہیں وہ چور ڈاکو اور لٹیرے کہتا ہے،ان سے مذاکرات نہیں کرے گا، دوسری طرف اس حقیقت سے بھی نظریں نہیں چرائی جا سکتی کہ گذشتہ انتخابات سے قبل یہی مؤقف مریم نواز نے بھی اپنا رکھا تھا اور ان کے بقول ’’طاقت ،طاقت سے ہی بات کرتی ہے‘‘، ’’مزاحمت سے مفاہمت کا راستہ نکلتا ہے‘‘۔جس کا نتیجہ ہم نے بخوبی دیکھا ہے کہ کس طرح نواز شریف نے ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘کا منترہ پڑھتے ہوئے،اولا عدالت عظمیٰ کے ججز اور بعد ازاں فوج کے سپہ سالار اور ڈی جی آئی ایس آئی پر سخت تنقید کرتے ہوئے، جیل کی سلاخوں سے براہ راست بیرون ملک پہنچنے کا پروانہ حاصل کیا۔ پاکستان میں یہ ایک اوپن سیکرٹ ہے کہ اقتدار کی راہداریوں میں پہنچنے کے لئے منظوری کہاں سے ملتی ہے،منصوبے کہاں بنتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کیسے کرواکر فارم 47کی حکومت بنوائی جاتی ہے۔ اس پس منظر میں فوج میں اس وقت انتہائی ہلچل پائی جاتی ہے اور موجودہ سپہ سالار کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کس طرف اشارہ کر رہے ہیں،ان کا مطمع نظر کیا ہے،وہ بھی سامنے آ جائے گا ۔
تاہم بدقسمتی یہ ہے کہ قومی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے،ہمارے سیاستدان ہوں یا ادارے ہوں،کوئی مربوط پالیسی نہیں رکھتے اور پاکستانی ایک ایسی کشتی کے سوار دکھائی دیتے ہیں کہ جس کے کھیون ہار،پتواروں کو اپنی خواہشات کے مطابق چلا رہے ہیں جبکہ کشتی بیچ منجدھار ہچکولے کھا رہی ہے۔ اشرافیہ ایسے ہزارپا کی مانند اس کے وسائل سے چمٹی ہے کہ کسی صورت ملکی ترقی اس کا مطمع نظر نہیں بلکہ جس جگہ،جس منصوبے کو کھنگالا جائے وہاں اشرافیہ کے ذاتی مفادات پوری شدومد سے سامنے دکھائی دیتے ہیں اور ملکی وسائل کو جس بے دردی سے لوٹا گیا ہے،اس نے آج ہمیں جس معاشی دلدل میں دھنسا دیا ہے،اس کا فوری طورپر کوئی نعم البدل یا متبادل دکھائی نہیں دے رہا۔بدقسمتی سے اس میں ریاستی مشینری کے ملوث ہوئے بغیر کچھ حاصل ہونا بھی ممکن نہیں،جو ریاست سے وفاداری کی بجائے،اس اشرافیہ کی ذاتی غلام بنی دکھائی دیتی ہے اور ان کے لئے آسانیاں پیدا کرتی دکھائی دیتی ہے ۔ کیوں نہ کرے کہ ریاستی مشینری کے لئے تقرریاں و تبادلے ،جو بنیادی طور پر محکمے کے سربراہ یا سینئر کا دائرہ اختیار ہے،اس پر اشرافیہ نے جبرا قبضہ کر رکھا ہے اور کسی بھی قابل افسر کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ سیاسی دباؤ کے بغیر کوئی کام کرسکے۔ یوں پوری ریاستی مشینری کو عضو معطل بنا دیا گیا ہے،اس خوف کے باعث ریاستی اہلکار’’ ڈنگ ٹپائو‘‘کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہیں،علاوہ ازیں جب اشرافیہ کے ناجائز کاموں میں مصروف ہیں تو اس بہتی گنگا سے خود بھی ہاتھ دھونے سے گریز کیوں کریں؟نتیجہ یہ ہے کہ عوام دن بدن نوسربازوں کے ہاتھوں لٹتی دکھائی دیتی ہے کہ کوئی بھی شریف شہری لٹنے کے بعد قانون نافذ کرنے والوں محکموں میں جانے سے گریز کرتا ہے اور اپنے نصیب پر صبر شکر کرکے بیٹھ جاتا ہے اور اگر کوئی چلا جائے تو سرکاری اہلکار بجائے مظلوم کی داد رسی کرنے کے،ظالم کے ساتھ سازباز
کرتی دکھائی دیتی ہے اور شریف شہری کو اس قدر زچ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے حق سے دستبردار ہوجائے۔
تاہم فی الوقت سب سے بڑی خبر یہی ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور ان کے چند ایک رفیق خاص اس وقت فوجی تحویل میں ہیں اور ان کے خلاف آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی پر کورٹ مارشل کا اعلان کیا گیا ہے،سوال مگر یہ ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو جن معاملات میں ملوث قرار دیا جا رہا ہے ،کیا وہ پہلی مرتبہ ہوئے ہیں؟اس ضمن میں سب سے فعال کردار اگر کسی ڈی جی آئی ایس آئی کا رہا ہے تو وہ مرحوم جنرل حمید گل کا رہا ہے،جنہوں نے باقاعدہ طور پر آئی جے آئی بنوانے اور اسے کامیاب کروانے کی خاطر لسانیت کا نعرہ تک اس قوم کے سامنے رکھا،بعد ازاں دیگر ڈی جی آئی ایس آئی حضرات نے اپنے جثے کے مطابق اس میں حصہ ڈالا ہے لیکن کسی بھی سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ ایسا معاملہ دیکھنے میں نہیں آیا،کیا یہ سمجھا جائے کہ ماضی میں ہونے والی تمام تر کارروائیاں فوج کی اعلیٰ قیادت کی منظوری سے ہوتی رہی ہیں؟یہاں یہ امر برمحل ہے کہ ان سابق ڈی جی حضرات نے دوران ملازمت یہ خدمات سرانجام دی جبکہ کسی بھی دوسرے سابق ڈی جی کی طرف سے بعد از مدت ملازمت ،ایک مخصوص مدت تقریبا دو سال تک خاموشی اختیار کئے رکھی، جو بعد از ملازمت لازم تصور کیا جاتا ہے البتہ یہاں یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ جنرل فیض حمید کے علاوہ دیگر حضرات کی اکثریت اپنی مدت ملازمت مکمل ہونے پر ریٹائر ہوئی جبکہ جنرل فیض حمید قبل از وقت ریٹائر ہو گئے، تو کیا دو سال کی شرط ان پر لاگو ہوتی ہے؟۔
جیسا کہ سول سروس میں کسی بھی ملازم کے قبل ازوقت ازخود مستعفی ہونے پر ،دوسال کی شرط لاگو نہیں ہوتی اور وہ مستعفی ہونے پر فوری سیاست میں حصہ لینے کا اہل ہوتا ہے، کیا فوج میں قوانین اس کے برعکس ہیں؟آرمی ایکٹ میں اگر دوسال کی شرط موجود ہے تو یقینی طور پر جنرل فیض حمید نے ان شرائط کی خلاف ورزی کی ہے ،جو اتنے بڑے آفیسر کی جانب سے نہیں کی جانی چاہئے تھی،اگر اس کے برعکس ہے تو پھر یہ سمجھا جانا چاہئے کہ فیض حمید کے خلاف کارروائی فقط سیاست میں ملوث ہونے پر نہیں ہو رہی۔وہ کیا معاملات ہیں جس کے باعث فیض حمید کے خلاف کارروائی کی جار ہی ہے،ان کے متعلق اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ یقینی طور پر ریاستی راز ہو سکتے ہیں اور ان پر کارروائی کرنا لازم ہے۔ یہاں ایک اور حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ اگر فیض حمید واقعتا صرف سیاسی معاملات میں ملوث ہونے کے باعث تحویل میں لئے گئے ہیں تو پھر اختلاف کہاں ہوسکتا ہے کہ فیض حمید کہ متعلق جو خبریں زیر گردش ہیں ،وہ تو ایسی ہیں کہ ان کے تعلقات تقریبا تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ ہی تھے اور وہ سب کے مائی باپ بنے ہوئے تھے،پھران کے خلاف کارروائی کیوں؟کیا وہ اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرر ہے تھے یا فریقین میں خلیج پیدا کررہے تھے،جس کے نتیجہ میںسیاسی عدم استحکام کے باعث ملکی امن وامان کا مسئلہ بھی پیدا ہو رہا تھا؟ بہرکیف حالات جو بھی رہے ہوں،امید یہی ہے کہ اگر فقط فیض حمید کے ذاتی مفادات کے باعث ملکی سیاست و امن و امان میں کوئی بھونچال تھا تو اب اسے تھم جانا چاہئے ،اس کی بنیاد پر مستقبل کی پیش بندی بھی کرلینی چاہئے ،خواہ اس کے لئے ایک فیض حمید ہو یا اس کی پوری ٹیم کا کورٹ مارشل کرنا پڑے ۔





