Column

ووٹ کی طاقت اور ہمارا مستقبل

روہیل اکبر
لاہور میں داتا صاحب کے سامنے پناہ گاہ کے قریب ایک بزرگ سردی سے مر گیا اور ہمارے حکمران اپنے گرم کمروں میں خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے اور پوری قوم تماشا دیکھتی رہی پاکستان کو آزاد ہوئے 76سال ہوگئے لیکن ہم ابھی بھی غربت کے قیدی ہیں بنے ہوئے ہیں ہمارے حکمرانوں نے غریب لوگوں کے نام پر سیاست کی ایک بار نہیں تین تین بار نہ صرف حکمرانی کے مزے لوٹے بلکہ قومی وسائل کو بھی بے دردی سے لوٹا اور آج ہم اپنے بزرگوں کو چھت فراہم کرنے میں بھی ناکام ہیں اس شدید سردی میں آج بھی لاہور اور کراچی کے فٹ پاتھوں پر بے سہارا پاکستانی موت کا انتظار کر رہے ہیں ہمارے ادارے اپنا کام کرتے ہیں اور نہ ہی ہماری حکومتیں انکا سوچتی ہیں پی ٹی آئی دور میں پناہ گاہیں بنی تو مخالفین نے شور برپا کر دیا آج اگر یہ پناہ گاہیں بھی نا ہوتی تو ان لوگوں کا کیا حشر ہونا تھا جو ان میں آکر رات سکون سے گزار لیتے ہیں الیکشن آرہے ہیں اور جماعت اپنے رنگین نعروں سے میدان میں ہے بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ اپنے نانا کے منشور روٹی کپڑا اور مکان کو عملی جامہ پہنائوںگا حالانکہ کراچی اور اندرون سندھ کے رہائشی ان تینوں چیزوں سی محروم ہیں استحکام پارٹی نئے لولی پاپ سے میدان میں ہے حالانکہ اس پارٹی میں سب وہی لوگ ہیں جن پر چینی چوری، پراپرٹی مافیا اور لوٹ مار کے الزامات لگے مسلم لیگ ن والے تو خیر سے اپنی منی ٹریل کا بھی جواب نہ دے سکے اور پی ٹی آئی کو ان سب نے مل جل کر دیوار سے لگا رکھا ہے الیکشن بھی قریب ہیں اور عوامی ردعمل دیکھتے ہوئے اسے التوا میں ڈالنے والے بھی سرگرم ہیں نگران حکومت اور ان سے قبل پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت نے ملک پر قرضوں کا جو بوجھ ڈال دیا ہے اس سے بھی آنے والے دنوں میں مشکلات بڑھ جائیں گی اتحادی اور نگران حکومت میں نومبر2022سے نومبر2023کے صرف ایک سال کے دوران مرکزی حکومت کے قرضوں میں بارہ ہزار چار سو تیس ارب روپے کا بڑا اضافہ کر دیا ہے جس کے بعد حکومت کا قرضہ بڑھ کر63390 ( ترسٹھ ہزار تین سو نوے) ارب روپے پر پہنچ گیا اتحادی حکومت کے آخری ساڑھے آٹھ ماہ اور نگران حکومت کے پہلے ساڑھے تین ماہ کی مدت میں مرکزی حکومت کا قرضہ12 ہزار430ارب روپے بڑھ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملکی قرضوں کے حوالہ سے جو رپورٹ جاری کی اسی کے مطابق 5ماہ جولائی تا نومبر کے دوران وفاقی حکومت کے قرضوں میں 2ہزار549ارب روپے جبکہ اکتوبر کے مقابلے نومبر2023میں وفاقی حکومت کے قرض میں 907ارب روپے کا اضافہ ہوا وفاقی حکومت کا قرضہ نومبر 2023تک63ہزار390ارب روپے ہوگیا جس میں مقامی قرض40ہزار 956ارب اور غیر ملکی قرضے کا حصہ22ہزار434ارب روپے ہے قرض کی یہ رقم جاتی کہا ہے اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے مشکل ہمیں اس وقت ہوتی ہے جب ہم نے لیے گئے قرضوں کی واپسی کرنا ہوتی ہے پھر حکومت عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھا دیتی ہے جس سے غربت میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور بے روزگاری میں بھی ان حالات میں حکومت حالات سے تنگ آئے بزرگوں کو بھی سڑکوں پر لاوارث چھوڑ دیتی ہے خیر یہ ہمارے حکمرانوں کے لیے معمول کی باتیں ہیں غریب لوگ نہ ہوں تو پھر ان کی سیاست کیسے چلے گئی کیونکہ ہر الیکشن پر انہوں نے غریبوں کی تقدیر بدلنے کا نعرہ ہی لگانا ہوتا ہے لیکن اس بار الیکشن میں کچھ نیا ہونے جارہا ہے کیونکہ ہمارے ملک کی آبادی ساٹھ فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے جو جھوٹی سیاست، مفاد پرستی اور موروثیت سے تنگ آچکے ہیں ہے ہماری اس نسل کو روشن مستقبل اور ترقی یافتہ پاکستان چاہئے بار بارجھوٹے وعدے اور دعوے کرنے والوں سے یہ لوگ تنگ آچکے ہیں اور اس کا فیصلہ الیکشن والے دن ہوگا لیکن اس دن گھر سے نکلتے ہوئے اس بات پر غور ضرور کرنا چاہیے کہ ووٹ قومی امانت اور فریضہ ہے اور اس کا صحیح استعمال ہر پاکستانی کا حق اور ذمہ داری ہے ووٹ کے صحیح استعمال سے ہی ہے ہم اپنے مستقبل کے لئے بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں پاکستان میں خواتین نصف آبادی سے زیادہ ہیں اور ان کے ووٹ کی اہمیت مسلمہ ہے اور خواتین ملک کے لئے مخلص قیادت اور نمائندوں کے انتخاب میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں اس سلسلے میں خواتین کے ووٹ کی اہمیت کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے کیونکہ نصف آبادی سے زائد ہونے کا مطلب ہے کہ تمام ووٹوں کا نصف اور اگر رجسٹرڈ خواتین کو ووٹ کاسٹ کرنے سے نہیں روکا جاتا اور تمام ووٹ کاسٹ ہوتے ہیں تو خواتین کے ووٹ ہی آئندہ انتخابات میں فیصلہ کن ثابت ہوں گے اور اس سلسلہ میں خواتین کے ووٹ کی طاقت اور استعمال سے متعلق آگاہی کے لئے تعلیمی شعور اجاگر کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے کیونکہ ایک خاتون جتنا مشکل وقت دیکھتی ہے شائد ہی کوئی اور اس دور سے گزرتا ہو گھروں میں کام کرنے والی خواتین دن بھر مختلف گھروں میں جا جاکر کام کرتی ہیں تب جاکر کہیں انکی روزی روٹی کا سلسلہ شروع ہو پاتا ہے جبکہ ان کے بچے اعلیٰ تعلیم سے کوسوں دور رہتے ہیں کیا یہ ہماری مائیں اور بہنیں پاکستانی نہیں ہیں یا ان کے کوئی حقوق نہیں اس لیے ہماری خواتین کو چاہیے کہ وہ ایسے امیدواروں کو ووٹ دیں جو حقیقی معنوں میں پاکستان اور پاکستانیوں کا درد رکھتا ہو کیونکہ انتخابات میں ووٹ کے ذریعے ہی ہم اپنے اچھے برے کا فیصلہ کرتے ہیں ووٹ کے صحیح استعمال سے اچھی اور مخلص قیادت کو لایا جاسکتا ہے جبکہ دوسری جانب غلط استعمال سے غلط لوگ بھی اسمبلیوں میں آ سکتے ہیں اس لئے وطن کی ترقی و خوشحالی کے لئے مخلص قیادت کو منتخب کریں اور اس کے لئے ووٹ کا صحیح استعمال نہایت اہم ہے اسکے ساتھ ساتھ معاشرے میں حق رائے دہی کے استعمال کی اہمیت کو اجاگر کرنا بھی اشد ضروری ہے آنے والے الیکشن میں خواتین سمیت ہر فرد کا ایک ایک ووٹ نہایت اہم ہے ملک بھر میں ووٹ کے صحیح استعمال کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اب عوام باشعور ہو چکے ہیں اور انہیں اپنے اچھے برے کی پہچان بخوبی ہو گئی ہے عوام اب اُن نام نہاد نمائندوں اور کھوکھلے نعرے لگانے والے مفاد پرستوں کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے جنہوں نے کئی دہائیوں سے عوام کے حقوق غصب کئے اور عوم کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھا امید ہے کہ الیکشن میں عوام اپنے حق رائے دہی کا بھرپور استعمال کریں گے اور ووٹ کے ذریعے انتخاب کرتے ہوئے اُن نام نہاد نمائندوں اور لیڈروں کو مسترد کر دیں گے جنہوں نے کئی دہائیوں سے عوام کو بیوقوف بنایا ہوا ہے جو ہمیشہ اپنے مفادات پر توجہ دیتے ہیں اور بزرگوں کو فٹ پاتھوں پر مرنے کے لیے لاوارث چھوڑ دیتے ہیں اس لیے ہمارے مستقبل کا انحصار ہماری نوجوان نسل کے ہاتھ میں کہ وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے ملک بچا لیں یا مزید برباد کر لیں۔

جواب دیں

Back to top button