ColumnNasir Sherazi

سیلاب لاٹری .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

گذشتہ کالم سیلاب متاثرین کی حالت زار پرنوحہ تھا۔ سیلاب کا دوسرا رخ پیش ہے۔ ازراہ کرم اسے سیلاب زدگان کے زخموںپر نمک کا درجہ نہ دیں سیلاب کے بعد ملک میں پیدا ہونے والی ہر چیز کی طرح نمک بھی بہت مہنگا ہوگیا۔ سفید آئیوڈین ملا نمک خریدنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں رہی پھر بھی وہ سب قابل صد سلام ہیںجو نمک حلال کرنے کی کوششوں کوجاری رکھے ہوئے ہیں۔ پنک نمک تو بھارت درآمد کر دیا جاتا ہے جہاں سے اسے بھارتی نمک بناکر دنیا کے کونے کونے میں پہنچادیتے ہیں۔ پنک نمک تو بہت دورکی بات ہے اب تو کوئی پنک چہرہ نظر نہیں آتا، ایک زمانہ تھاجب ہر دوسرے گھر میں ایک پنکی ہواکرتی تھی، چہروں پر لگا قدرتی غازہ ختم ہوا، اب ہر چہریپرسامان میک اپ تیار کرنیوالی کمپنیوں کا جعلی غازہ نظر آتاہے جس کے استعمال سے اچھی بھلی پنکی چند ماہ بعد کوئیل نظر آنے لگتی ہے لیکن اس کوئیل کو کوکنا نہیں آتا، باغوں میں کوکتی کوئیل کی آواز سن کر انسان سحرزدہ ہوجاتا ہے، جس کوئیل کامیں ذکرکررہا ہوںاس کی آواز سن کر انسان خوف زدہ ہوجاتا ہے یہ کوکتی کم اورکائیں کائیں زیادہ کرتی ہے اس کی آواز سن کر کانوں میں انگلیاں ٹھونس لینے کو دل کرتا ہے، پھرکانوں سے انگلیاں نکال کر ہونٹوں میں داب لینے کا مرحلہ آتا ہے، اب تو اس کوئیل نے کاٹنا بھی سیکھ لیا ہے، اس کا کاٹا بعض اوقات پانی نہیںمانگتاخ یہ تمام فنون پرائیویٹ تعلیمی اداروں، ٹی وی ڈراموں میں سکھائے جاتے ہیں۔زیادہ تر پی ایچ ڈی بھی اسی مضمون
میں ہورہی ہے نتیجتاً صرف لاہور شہر میں ایک برس کے دوران بیس ہزار طلاق کے مقدمات سامنے آئے ہیں۔ لاہور کبھی باغوں درس گاہوںکا شہر کہلاتا تھا اب لڑائی جھگڑوں ، قبضہ گروپوں اور مقدمات کاشہر بن گیاہے، باغ اور حقیقی درس گاہیںویران، عدالتیں آباد ہیں۔ واپس آتے ہیں سیلاب کی طرف۔دنیا بھرکے مختلف ملکوں کی معیشت مختلف انداز میں چلائی جاتی ہے، کسی کا انحصار مشینوں پر ہے، کوئی افرادی قوت کے زور پر آگے بڑھ رہاہے، سوئٹزرلینڈ ایساملک ہے جس کی معیشت بینکنگ پرچلتی ہے۔ دنیا بھر کے ملکوںسے ایک نمبر کمائی کم اوردو نمبر کمائی زیادہ تر اسی ملک میں لاکر مختلف بینک اکائونٹس میںچھپائی جاتی ہے،اب امریکہ، برطانیہ، کچھ اوریورپی ممالک کے ساتھ ساتھ مڈل ایسٹ ممالک بھی ادھرمتوجہ ہوئے ہیں،یوںسوئٹزر لینڈکی معیشت کو ایک خفیف سا دھچکا لگا ہے لیکن اس نے اپنے گاہکوں کو جو راز داری کی سہولت دی ہے،دیگرممالک میں دستیاب نہیں۔
پاکستان کہنے کوتو زرعی ملک ہے، لیکن عجیب زرعی ملک ہے جو اپنی خوراک بھی غیر ممالک سے درآمدکرتا ہے، ہماری معیشت کا حقیقی انحصار قدرتی آفات پرہے۔ سیلاب اور زلزلے ہماری لاٹری ہیں، زلزلہ لاٹری کئی دہائیوں بعدنکلتی ہے البتہ سیلاب لاٹری نکلتی ہی رہتی ہے کئی برس سیلاب لاٹری نہ نکلے تو ہم خشک سالی لاٹری نکال لیتے ہیں ہرلاٹری کو انسانی المیہ قراردیتے ہیںاور دنیا بھر سے امداد سمیٹتے ہیں بعض اوقات تو اتنی امداداکٹھی ہوجاتی ہے کہ ہمارے لیے کئی سال کے بجٹ بنانا آسان ہوجاتے ہیں، پھریہ امداد نیچے نہیںپہنچتی،اس کی تقسیم اوپر سے شروع ہوتی ہے اور نیچے آتے آتے یہ اتنی نیچ ہوجاتی ہے کہ فقط آٹے کے تھیلے تک رہ جاتی ہے،آٹے کا تھیلا جب ہیلی کاپٹر سے ضرورت مندوں کے لیے گرایا جاتا ہے تو زمین پر گرتے ہی پھٹ جاتا ہے یوںیہ امداد بھی خالص حالت میں ضرورت مند تک نہیں پہنچتی بلکہ مٹی میںمل کر مٹی ہوجاتی ہے، جس طرح نمک کی کانمیں جو کچھ بھی ہو وہ نمک بن جاتا ہے، شاید یہی وجہ ہے اب نمک میںبھی تاثیر نہیںرہی نمک حراموں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
آئی ایم ایف سے ایک ارب سولہ کروڑ ڈالر کاقرض ملنے کے بعد جشن جاری ہے، آئی ایم ایف نے اس قرض کے لیے صرف ہماری ناک ہی نہیں ایک اور چیزبھی رگڑوائی ہے فی الحال اس کا ذکرموخرکرتے ہیں،یہ وہ چیز
ہے جوعام آدمی گزشتہ 75برس سے رگڑ رہا ہے اورابھی مزید 175برس تک اسی طرح رگڑتا نظر آئے گا مگر اس کے حالات نہیںبدلیںگے۔
جس انسانی المیے کا ذکر کرتے آج کسی لیڈر کی زبان نہیں تھکتی وہ خوب جانتا ہے کہ اس المیے سے ہمیشہ کے لیے جان چھڑانے کے لیے صرف کالا باغ ڈیم بنالیں تو اس المیے کا نام ونشان ختم اور خوشحالی کا دور شروع ہوجائے گا لیکن کسی نے اپنے زمانہ حکومت میں اس طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھا۔ کالا باغ ڈیم بن گیا تو سیلاب لاٹری ختم، ہر برس ہزاروں من گندم جو چوری چوری بیچ کھاتی جاتی ہے پھر بتایا جاتا ہے کہ سیلاب میںخراب ہوگئی جواربوں روپے سے سڑکیں صرف کاغذوں میںتعمیر ہوتی ہیں پھر پانی میں بہہ جاتی ہیں ، جو پل صرف خیالوں میں تعمیر ہوتی ہیںپھر سیلاب کی نذر ہوجاتے ہیں،کروڑوں درخت ہربرس لگتے ہیںمگرنظر نہیں آتے کیونکہ سیلاب میں بہہ جاتے ہیں پھریہ سب کچھ نہیںہوسکے ہوگا، سب سے بڑھ کر سستی بجلی بنے گی تو مہنگے پاورپلانٹ اور مہنگی بجلی خریدنے کا جواز نہیں رہے گا، ڈیزل اور پٹرول کی کھپت کم ہوجائے گی توکمیشن کم ہوجائے گا۔
جاری سیلاب لاٹری میں دنیا بھر سے ملنے والی امداد کی تفصیلات اوراطلاعات کے مطابق عالمی ادارہ پاپولیشن فنڈ سے 66کروڑ، برطانیہ سے 33کروڑ، یورپی یونین سے 30کروڑ، چین سے 6کروڑ اس کے بعد دیگر امدادی ادارے 7 کروڑ،یوایس ایڈ 24کروڑ، ایشین بینک 6ارب، امریکہ 6ارب، اقوام متحدہ 35کروڑ، عالمی بینک 82ارب روپے کی امداد بھیج چکے ہیں جوڈیڑھ کھرب روپے کے قریب بنتی ہے، بتایا گیا ہے کہ سیلاب سے 35ارب روپے کا نقصان ہوا ہے، اب حقیقی نقصان اور منافع جمع تفریق کا آسان سا سوال ہے جو اب ہم سب جانتے ہیں، اس امداد میںافواج پاکستان، اراکین قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی، مخیر حضرات کی طرف سے دی جانے والی نقد امداد شامل نہیں، مزید برآں چند گھنٹے میں ساڑھے پانچ ارب روپے جمع کرنیوالے عمران خان کی طرف سے کسی بھی وقت بینک سٹیٹمنٹ سامنے آنے پر اندازہ ہوگا کہ وعدے کتنے تھے اورحقیقتاً فنڈ کتنا آیا۔ اپوزیشن پر الزام ہے کہ وہ اپنے معاملات کی منی ٹریل نہیں دے سکی، خان صاحب کوچاہیے کہ وہ فوراً سیلاب فنڈ کی بینک سٹیٹمنٹ میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچائیں تاکہ صادق و امین کاکھویا ہوا سرٹیفکیٹ پھر مل جائے اگر وہ اس میں ناکام رہے تو اس کا جواب بھی انہیں ہی دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ’’خطرناک‘‘ ہوجائینگے، پھر بتایا کہ وہ ہر روزمزید خطرناک ہورہے ہیں، اب کہتے ہیںوہ کارنرڈ ٹائیگر بن جائیں گے،و ہرروز نئی دھمکی دیتے ہیں وہ کچھ بھی کرلیں کچھ بھی بن جائے، وزیراعظم نہیںبن سکتے، انہیں کارنرڈ ٹائیگر کا انجام تو معلوم ہی ہوگا، کچھ عجب نہیں ان کے ساتھ کئی سیاست کارنر ہوجائیں، ایساہوجائے تو ’’سیلاب لاٹری‘‘ ختم ہوجائے گی۔کالا باغ ڈیم بھی بن جائے گا اور ہمیں دنیا کے سامنے ناک اور وہ دوسری چیز نہیں رگڑنی پڑے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button