ColumnImran Riaz

شرقپور شریف کے ضمنی انتخابات .. عمران ریاض

عمران ریاض

 

پی پی 139 ڈسٹرکٹ شیخوپورہ کی تحصیل شرقپور شریف اور اسکے گرد و نواح کے دیہاتوں پر مشتمل صوبائی حلقہ ہے جس میں 11 ستمبر اتوار کے روز میاں جلیل احمد شرقپوری کی طرف سے پنجاب اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کے بعد ضمنی الیکشن ہورہا ہے، اس حلقے کی سیاست کا مختصر پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ 1985 اور 1988 میں مسلم لیگی امیدوار حاجی افتخار بھنگو رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے پھر 1990 میں مسلم لیگ کا ٹکٹ ملک سرفراز نے لیا اور منتخب ہوگئے ۔ 1993 اور 1997 میں پھر مسلم لیگ کی ٹکٹٹ پر میاں سعید احمد شرقپوری منتخب ہوئے۔ 2002 میںرائو جہانزیب نون لیگ کے ٹکٹ پر رکن پنجاب اسمبلی بنے بعد ازں 2008 اور 2013 میں حاجی علی اصغر منڈا پہلی ٹرم میں نون لیگ کے امیدوار کے طور اور دوسری ٹرم میں آزاد حیثیت سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 2018 کے الیکشن میںاسی حلقہ سے سابقہ ایم این اے اور سابق ضلع ناظم میاں جلیل شرقپوری ایم پی اے بنے۔2018 کے الیکشن کے موقع پر کچھ واقعات ڈرامائی انداز میں ہوئے مثال کے طور پر میاں جلیل احمد شرقپوری نے ایم این اے کی سیٹ پر نون لیگ کے امیدوار رانا تنویر حسین کے مقابلے میں تحریک انصاف کی ٹکٹ کے لیے اپلائی کیا لیکن یہ ٹکٹ سابق ایم پی اے جو نون لیگ چھوڑ کر پی ٹی آئی جائن کر چکے تھے، انکا مل گیا تو رانا تنویر حسین نے موقع دیکھتے ہوئے میاں جلیل شرقپوری کو صوبائی ٹکٹ دیکر اپنے پینل میں شامل کر لیا۔اس طرح الیکشن میں قومی اور صوبائی نشستوں پر نون لیگی امیدوار رانا تنویر حسین اور میاں جلیل شرقپوری منتخب ہوگئے لیکن چونکہ پنجاب اور مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومتیں قائم ہوئیں تو ضلعی اور مقامی انتظامیہ پر حاجی علی اصضر منڈا کا اثرورسوخ چلنے لگا جواگرچہ الیکشن تو ہار گئے تھے مگرپی ٹی آئی کا ٹکٹ ہولڈر ہونے کی وجہ سے ضلعی انتظامیہ انکے زیر اثر آگئی۔ یہ صورتحال دیکھتے ہوئے میاں جلیل شرقپوری نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے راہ و رسم بڑھاتے ہوئے انہیں اپنی حمایت کا یقین دلایا اور نہ صرف ترقیاتی منصوبے لینے میں کامیاب رہے بلکہ آہستہ آہستہ انہوں نے ضلعی انتظامیہ پر اپنا مکمل اثر رسوخ قائم کر لیا اور حاجی علی اصغر منڈا کوآوٹ کرنے کامیاب ہوگئے بعدازاں جب نواز شریف نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بولنا شروع کیا تو جلیل شرقپوری نے نواز شریف کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے انکے خلاف علم بغاوت بلند کردیا۔
اس حلقے میں میں ہونے والا الیکشن پرو رانا تنویر اور اینٹی رانا تنویر ہو رہا ہے، بلاشبہ رانا تنویر حسین بڑے سیاسی قد کاٹھ کی سیاسی شخصیت ہیں جنکا قومی سیاست میں ایک مقام ہے اور حلقے میں انکی گرپ بھی کافی مضبوط ہے تو انکی اس پوزیشن سے انکے سیاسی مخالفین ان سکیور رہتے ہیں ، لہٰذا انکے تمام مخالفیں جن میں سے کچھ کی آپس میں آج بول کلام نہیں، انکے خلاف اکھٹے ہو گئے ہیں، ان میں حاجی علی اصغر منڈا،میاں جلیل شرقپوری،رانا عباس خان اور رائو جہانزیب سمیت کئی دیگر شخصیات ہیں ۔ بلاشبہ 1985 سے لیکر 2018 تک یہ نشست مسلم لیگ نون کے پاس رہی ہے لیکن شاید اس ضمنی الیکشن میں مقابلہ بہت کانٹے دار ہوتا نظر آرہا ہے کیونکہ ایک طرف ملک بھر میں عمران خان کی مقبولیت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے تو دوسری طرف مقامی سطح پر رانا تنویر کے تمام مخالفین غیر فطری اتحاد بنا کر ایک ایجنڈا پر متفق ہیں کہ کسی طرح بھی رانا تنویر کے امیدوار کو ہرا کر انکی سیاست کو ڈینٹ ڈالا جائے۔ بلا شبہ حاجی علی اصغر منڈا،رانا عباس خان ،رائو جہانزیب اپنا اپنا ذاتی ووٹ بینک رکھتے ہیں اور صاحبزادگان کا بھی پیری مریدی کا ووٹ بنک موجود ہے اور تحریک انصاف اس وقت مقبولیت میں بھی بہت آگے ہے تو تحریک
انصاف کے امیدوار کو 2013 اور 2018 کے انتخابات سے زیادہ ووٹ ملیں گے دوسری طرف رانا تنویر قومی سطح کے لیڈر ہوتے ہوئے بھی اپنے ووٹر سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں، شاید ہی ہوکہ وہ اپنے ووٹروں کی غمی یاخوشی میں شریک نہ ہوتے ہوں۔ حلقے کے عوام کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھنے کی وجہ سے وہ بہت مقبول ہیں، الیکشن کے آغاز میں انہیں اس وقت مشکل کا سامنا کرنا پڑا جب میاں ابوبکر شرقپوری نون لیگ کے امیدوار بنتے بنتے تحریک انصاف کے امیدوار بن گئے۔ میاں جلیل شرقپوری کے تحریک انصاف میں جانے کے بعد رانا تنویر نے دوسال سے میاں ابوبکر شرقپوری کو آئندہ کےلیے اپنا امیدوار بنا رکھا تھا اور سلسلے میں رانا تنویر اور میاں ابوبکر میں مکمل انڈرسٹینڈنگ ہوچکی تھی یہ ضمنی الیکشن والا ایشو اچانک آن پڑا تو رانا تنویر اور میاں ابوبکر میں اتفاق ہو چکا تھا کہ میاں جلیل شرقپوری نے اپنے خاندان میں سیاسی پھوٹ پڑتے دیکھ کر میاں ابوبکر کو قائل کر لیا کہ پی ٹی آٓئی سے الیکشن لڑیں یہ بہرحال رانا تنویر کے لیے ایک بڑے دھچکے سے کم نہ تھا، اس کے بعد رانا تنویر کو اپنا امیدوار فائنل کرنے میں کچھ دن لگے اور جیسے ہی انہوں نے حاجی افتخار بھنگو کو امیدوار نامزد کیا اسکے بعدصورتحال بدلتی گئی اور رانا تنویر نے شب و روز محنت کر کے الیکشن کو پوری طرح برابر لا کھڑا کیا ہے۔اب شرقپور شریف قصبہ کے ووٹروں پر ہے کہ اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالتے ہیں اس سلسلے اگرچہ رانا طاہر اقبال اور میاں عمران سابق چیئرمین کی زیر قیادت تمام کونسلرز دن رات نون لیگ کے امیدوار حاجی افتخار بھنگو کے لیے محنت کر رہے ہیں اور اس لیول کی با اثر ٹیم کسی اور امیدوار کے پاس نہیں۔
بلاشبہ تحریک لبیک ملک بھر کی طرح اس حلقہ میں بھی ایک سٹیک ہولڈر بن چکی ہے اسکو بھی عوام میں خاصی پزیرائی مل رہی ہے لیکن الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں یہ پارٹی ابھی نہیں آئی البتہ توقع ہے کہ تحریک لبیک کے امیدوار ڈاکٹر عبدالرئوف کو بھی اچھے خاصے ووٹ ملیں گے، اس کا نقصان تو بظاہر میاں ابوبکر کو ہوتا ہوا نظر آتا ہے کیونکہ بریلوی ووٹ بینک کا زیادہ حصہ پہلے یہ پیر گھرانہ ہی لیا کرتا تھا اب مسلک کی بنیاد پر ووٹ اگر ملے گا تو وہ تحریک لبیک کو ملے گا۔اس وقت نون لیگ اور تحریک انصاف میں مقابلہ نیک ٹو نیک جا رہا ہے اور آئندہ دو تین روز فیصلہ کن ثابت ہوں گے کہ کون آخری دنوں میں زیادہ سے زیادہ محنت کر کے ووٹروں کو اپنے حق میں کرتا ہے۔ اگرچہ ایسے ووٹرز جنہوں نے اپنے ووٹوں کو شرقپور میں گیس کے پریشر بڑھانے کے ساتھ مشروط کر رکھا تو انکا مطالبہ رانا تنویر پورا کر دیا ہے، اس سے نون لیگ کی پوزیشن مزید بہتر ہوئی ہے، الیکشن میں ہار جیت 1500 سے 2000 ووٹوں کے مارجن سے ہوتے ہوئی نظر آرہی ہے لہٰذا اس حلقے کا ایک ایک ووٹ بہت اہم ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button