CM RizwanColumn

بااثر کا قانون کے تابع ہونا ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

پچھلے دنوں سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشی تھی۔ پیشی سے واپسی پر ان سے صحافی نے سوال کر دیا کہ کیا ان کی بیوی نے مبینہ طور پر ملک ریاض سے ہیروں کا ہار لیا ہے؟ اس سادہ اور سیدھے سادھے سوال کا جواب یقینی طور پر سیدھا اور سادہ ہونا چاہیے تھاکیونکہ بحیثیت وزیراعظم پاکستان ان کی دیانتداری کا سوال تھا، مگر انہوں نے جواباً یہ کہہ کر معاملے کو مزید الجھا دیا ہے کہ ہیرے تو بہت سستے ہوتے ہیں کسی مہنگی چیز کی بات کرو، واضح رہے کہ ہیروں کے ہار سے متعلق پچھلے کئی دنوں سے ملک کے طول و عرض میں چہ میگوئیاں گردش کررہی ہیں کہ مبینہ طور پر ان کی بیگم صاحبہ نے اپنے شوہر کے اختیارات کو (نعوذباللہ) ایک ہار کے عوض فروخت کیا۔ اس حوالے سے ایک ٹیلی فون کال کی ریکارڈنگ بھی ثبوت کے طور پر وائرل کی گئی۔ واللہ اعلم۔ معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ عمران خان پچھلے تیس سالوں سے اپنی سیاسی جدوجہد اور نظریے کی بنیاد یہی بتا رہے ہیں کہ ملک کے ہر طاقتور کو قانون کے تابع ہونا چاہیے۔ مگر ان کے تازہ جواب نے ان کے اپنے اس خیال کے برعکس ہونے سے متعلق کئی سوالات کو جنم دے دیا ہے۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے اور عمران خان بھی ہمیشہ سے یہی کہتے رہے ہیں کہ کسی بھی ملک کی ترقی اور تنزلی کا راز اس کے قوانین کی پابندی میں مضمر ہوتا ہے۔ مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان ہمارا پیارا وطن ہے ، ہم مسلمان اورہمارا مذہب اسلام ہے، اسلام اللہ جل جلالہٗ کا بنایا ہوا نظامِ زندگی ہے جس کی پابندی ہم پر فرض ہے۔ لفظ ’’اسلام‘‘ میں سلامتی کا درس ہے اور پھر مذہبِ اسلام پر چلنے والا مسلمان کہلاتا ہے تو لفظِ ’’مسلمان‘‘ میں بھی سلامتی کا درس ہے اور جب دو مسلمان آپس میں ملاقات کرتے ہیں تو ’’السلام و علیکم‘‘ کہتے ہیں، چنانچہ روزِ روشن کی طرح ثابت ہوا کہ اسلام امن وسکون اور سلامتی کا مذہب ہے۔ مذہب کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر معاشرے، ہرقوم اور ہرملک کے کچھ قوانین اور ضوابط ہوتے ہیں، پُرامن اور پُر سکون زندگی گزارنے کے لیے ان کی پابندی از حد ضروری ہوتی ہے۔
یہ ایک مثبت پہلو ہے اور منفی پہلو یہ ہے کہ قانون توڑنے اور اُصول وضوابط کا احترام نہ کرنے سے معاشرے میں افراتفری پھیل جاتی ہے جس بنا پر نہ صرف افراد کا سکون تہ و بالا ہوجاتاہے بلکہ پورے معاشرے اور قوم کی زندگی متاثر ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبِ اسلام نے مسلمانوں کو قانون کا احترام اور پابندی کرنے کی تاکید کی ہے۔
نبی اکرم ﷺکے دور کی نہایت عمدہ مثال شراب کی حرمت کے سلسلے میں دیکھنے میں آئی۔ جب پہلی اسلامی ریاست میں جوں ہی شراب کی حرمت کا اعلان کرایا گیا، اسی وقت لوگوں نے شراب کے تمام برتن توڑ دیئے اور شراب مدینے کی گلیوں میں بہ نکلی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ اسلامی معاشرہ شراب کی لعنت سے پاک ہوگیا اور یہی اللہ
جل جلالہٗ اور رسول ﷺکی اطاعت کی اصل روح اور اسلام کا حقیقی مفہوم ہے۔یوں تو دنیا کا کم عقل سے کم عقل انسان بھی قانون کی ضرورت، اس کی پابندی اور اہمیت کا اعتراف کرے گا، لیکن کم لوگ ایسے ہیں جو عملاً قانون کے تقاضے پورے کرتے ہوں، عصرِ حاضر میں دو افراد کے باہمی معاملات سے لے کر بین الاقوامی تعلقات تک لوگ ضوابط اور قوانین کی پابندی سے گریزاں ہیں اور لاقانونیت کے اس رجحان نے دنیا کا امن وسکون غارت کر کے رکھ دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسان قانون کی افادیت کا قائل ہونے کے باوجود اس کی خلاف ورزی کیوں کرتا ہے؟ اس کی ایک وجہ اسلامی تعلیمات سے روگردانی، دوسری خود غرضی اور مفاد پرستی جبکہ تیسری بڑی وجہ یہ ہے کوئی ملزم خاص طور پر معاشرے کا بااثر اور پاپولر شخص اپنے آپ کو قانون سے بالا تر سمجھتا ہے۔ چوتھی وجہ ملزم کی حب الوطنی سے دوری اورپانچویں وجہ امن وسلامتی کی ناقدری ہے۔ چنانچہ اسلام ان سب وجوہ کا بخوبی تدارک کر کے مسلمانوں کو قانون کا پابند بناتا ہے۔ ایک طرف وہ اپنے ماننے والوں کو خدا پرستی اور ایثار وسخاوت اور اکرامِ مسلم کا درس دیتا ہے تو دوسری طرف ان میں آخرت کی جواب دہی کا احساس وشعور پیدا کرتا ہے اور انہیں احساس دلانا چاہتا ہے کہ اگر وہ اپنے اثر و رسوخ یا دھوکے فریب سے دنیا میں قانون کی خلاف ورزی کی سزا سے بچ بھی گئے تو آخرت میں اُنہیں خدا کی گرفت سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔
آخرت میں جواب دہی کا یہی احساس اسلامی معاشرے کے گناہ میں ملوث ہوجانے والے افراد کو از خود عدالت میں جانے پر مجبور کرتا ہے اور وہ اصرار کرتے ہیں کہ انہیں دنیا ہی میں سزا دے کر پاک کردیا جائے، تاکہ وہ آخرت کی سزا سے بچ جائیں۔ لوگوں کے دلوں میں قانون کے احترام کا سچا جذبہ پیدا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ خود حکمران طبقہ بھی قانون کی پاسبانی کرے اور اپنے اثر ورسوخ کو قانون کی زد سے بچنے کا ذریعہ نہ بنائے۔ آج دنیا کا شاید ہی کوئی دستور یا آئین ایسا ہو جس میں حکمران طبقے کو مخصوص مراعات مہیا نہ ہوں اور قانون میں آقا وغلام، شاہ اور گدا کا کوئی امتیاز نہ ہو۔ اسلامی تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کی زرہ گم ہوگئی جو کہ بعد ازاں ایک یہودی کے پاس سے ملی، خود خلیفہ وقت ہونے کے باوجود آپؓ اسے قاضی کی عدالت میں لے گئے، چنانچہ جب قاضی نے آپؓ سے گواہوں کا مطالبہ کیا تو خلیفہ وقت حضرت علی کرم اللہ وجہ نے اپنے بیٹے اور غلام کو پیش کیا۔ قاضی نے دونوں کی گواہی ان سے قریبی تعلق کی بنا پر قبول کرنے سے انکار کردیا تو آپؓ اپنے دعوے سے دستبردار ہوگئے۔ احترامِ قانون کے اس فقید المثال واقعے نے یہودی کو اتنا متاثر کیا کہ وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔
اسلامی معاشرے میں نماز کے اندر قانون کی پابندی کی دلکش تصویر موجود ہے، ایک صف میں کھڑے ہوکر ایک قبلے کی طرف رُخ کرکے، ایک امام کی اقتداء میں قیام، رکوع اور سجود، زید، عمر، بکر، محمود و ایاز سب مل کر قانون کی پابندی اور احترام کا سبق اور طریقہ سیکھتے اور سکھاتے ہیں اور دلوں میں احترامِ قانون کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ رمضان المبارک میں روزہ رکھنا احترامِ قانون کا حسین نقشہ ہے۔ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک پرہیز ظاہر کرتا ہے کہ مسلمان اپنے خالقِ حقیقی کا مطیع اور فرماں بردار ہے۔ حج بھی مقررہ قوانین کی پابندی کا ایک دلنشین نظارہ اور مظہر ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں امن وسکون ہے، اس کا راز یہی ہے کہ وہاں کے باشندے قانون کے پابند ہیں، جہاں کہیں بگاڑ وانتشار ہے، بدامنی اور پریشانی ہے، وہاں قانون شکنی کی حکمرانی ہے۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے بدنِ انسانی ہمارے سامنے ہے کہ جب جسم کے نظام میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے تو بیماری لاحق ہوجاتی ہے اور بدنِ انسانی کا چین وسکون غارت ہوجاتا ہے۔ فتحِ مکہ کے بعد صحابہ کرامؓ نے سرکارِ دوعالم ﷺکی ہدایت کے تحت ان گھروں اور باغوں پر بھی قبضہ نہ کیا جن کو وہ ہجرت کے وقت چھوڑ گئے تھے، جوکہ قانون کی پابندی کی زندہ مثال ہے۔اسلامی قوانین اور ضوابط کی مثال پیش کرنے اور تاریخ اسلام سے دلائل دینے کا مقصد یہ ہے کہ عمران خان اپنی تقاریر میں کلمہ طیبہ اور ایک اللہ کی بندگی اور اسلام کی حقانیت اور ابدیت کی مثالیں اکثر دیتے ہیں لیکن اب جبکہ ان کے اپنے قانون کے سامنے پیش ہونے یا اپنے معاملات کا جواب دینے کی باری آتی ہے تو ہمیشہ یہی دیکھا گیا ہے کہ وہ ان آئیڈیل اور عظیم اسلامی روایات سے اجتناب کرتے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ بقول ان کے معاشرے تب ہی ترقی کرتے ہیں جب ان معاشروں کے بااثر قانون کے تابع اور عدالتوں کے پابند ہوتے ہیں اور ان معاشروں کی عدلیہ کی نظر میں معروف یا غیر معروف سب برابر ہوتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button