Columnfarrukh basir

کہیں دیر نہ ہوجائے .. فرخ بصیر

فرخ بصیر

 

پاکستان کے سیاسی و معاشی حالات میں بڑھتی ہوئی ابتری،عدم برداشت اور پولرائزیشن کسی اچھے کی نشاندھی نہیں کر رہی مگر ہم بحیثیت قوم آج بھی ایک دوسرے کے گناہ معاف کرنے اور گلے لگانے کی بجائے ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔مون سون نے جہاں پورے پاکستان کے آبی ذخائر کو بھر دیا ہے وہاں اس کی وجہ سے آنیوالے سیلاب کی تباہ کاریوں نے سندھ، بلوچستان ،جنوبی پنجاب اور کے پی کے میں ڈیرہ اسماعیل خان اور اسکے قریبی سرائیکی وسیب میں وہ تباہی کی ہے کہ اللہ کی پناہ ،ہزاروں بستیاں ،انسان اورجانور طوفانی پانی میں بہہ گئے ہیں۔مذکورہ علاقوں کے لاکھوں افراد اس قدرتی آفت کا شکار ہو کر گزشتہ کئی دنوں سے کھلے آسمان تلے پڑے ہیں جنہیں فوری طور پر خشک خوراک،خیموں،ادویات اور پینے کے صاف پانی کی ضرورت ہے،کچھ کو حکومتی امداد مل پائی ہے تو کچھ منتظر ہیں۔

دریائوں ،نہروں اور سڑکوں کے کنارے بے آسرا پڑے خاندان ہماری انفرادی و اجتماعی امداد اور حسن سلوک کے منتظر ہیں مگر سوشل و الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا دیکھیں تو ہمیں ملک میں وفاقی اور پنجاب حکومت کے درمیان ایک دوسرے کے وزراء اور ارکان اسمبلی کیخلاف مقدمے بازی،گرفتاریوں اورایک سیاسی جماعت اور اسکی لیڈر شپ،کارکنوں اور اسکے ہمدرد صحافیوں کیخلاف انتقامی کارروائیوں اور اس کے جواب بالجواب کے علاؤہ کچھ اور دکھائی یا سنائی نہیں دیتا۔سیاسی مخالفت میں ہم آج اتنی دور تک جا چکے ہیں کہ ہمیں اپنے الفاظ پر قابو ہے نہ ایکشن پر،جو منہ میں آتا ہے یا جو رٹا رٹایا بیانیہ ہمیں دیدیا جاتا ہے، اندھا دھند اسے نہ صرف سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا دیا جا تا ہے بلکہ اس کی ترویج کا ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔
ہم بحیثیت قوم نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا میں اپنے کرموں کے باعث مذاق بن چکے ہیں۔ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں کیونکہ اس سے زیادہ ہم وہ کر رہے ہیں جو وہ صدیوں تک نہ کرپاتا۔بات سیلاب زدگان اور انکی تکالیف کی ہو رہی تھی تو ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر اس قدرتی آفت کیساتھ بالکل ان وسائل اور قومی فرض کی طرح نبٹنا ہو گا جس طرح ہم ماضی میں کرونا اور ڈینگی کیساتھ نہایت کامیابی سے نبٹتے چلے آئے ہیں، ضرورت صرف احساس ذمہ داری کی ہے اور مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اس سے نبٹنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں،پاک فوج،پولیس اور وفاقی و صوبائی ادارے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام نہایت جانفشانی سے امدادی سرگرمیوں میں جتے ہوئے ہیں تاہم حکومت اکیلی اس چیلنج سے نبٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ ہماری سیاسی جماعتیں اگر میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت کے لیے ایک دوسرے کیساتھ بیٹھ سکتی ہیں تو لاکھوں متاثرین سیلاب کے لیے کیوں نہیں ۔اس سلسلے میں وزیر خارجہ بلاول بھٹوزرداری نے یہ کہہ کر پہل کر دی ہے کہ سب کو مل کر ایک ہو کر اس قومی آفت کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ سیلاب زدرگان ہمارے سیاست دانوں کی، صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی سب سے پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔بلاول بھٹو زرداری کے اس جذبے کو سراہا جانا چاہیے جس کے تحت انہوں نے اپنے چار ملکی یورپی دورے کو فوری طور پر ملتوی کر کے ملک میں سیلاب زدگان کی مدد اور انکے درمیان پہنچ کر پوری سیاستدان برادری کو جو قابل تقلید پیغام دیا ہے اسے دیگر سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں کی طرف سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم میں مدد کرنے کی حس دیگر اقوام سے کہیں زیادہ ہے ،ضرورت صرف اس کا راستہ نکالنے کی ہے۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل عوام،تاجروں اور صنعت کاروں پر روز نئے سے نئے ٹیکس لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تاہم وہ سیلاب زدگان کی قومی سطح پر امداد کرنیوالی انڈسٹری کے لیے ٹیکسوں میں چھوٹ کر اعلان کر دیں تو اس سے نہ صرف حکومت کا مالی بوجھ کم ہو گا بلکہ سیلاب زدگی کا شکار لاکھوں افراد کو بھی بہت بڑا اور فوری ریلیف فراہم کیا جاسکے گا۔اسی طرح ملک کے بڑے بڑے شہروں میں قائم میگاسٹورز اور مال میں بھی سیلاب زدگان کی امداد کے لیے کیمپس کا اہتمام کیا جائےسیاسی،دینی اورسماجی تنظیمیں آگے بڑھیں اور اس قومی فریضے کی ادائیگی میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کریں۔

ہمارے وفاقی وصوبائی وزراء،ارکان قومی و صوبائی اسمبلی آفت کی اس گھڑی میں قوم کے لیے مثال بنیں اور کم از کم اپنی ایک ایک ماہ کی تنخواہ اور مراعات سیلاب زدگان کے فنڈ میں جمع کرا کے اپنی دنیا و آخرت سنواریں ۔ شاید یہ قدرتی آفت ہماری قومی یکجہتی اور سیاسی و معاشی استحکام کا راستہ بن جائے۔ آئیے آگے بڑھیں ،نیک نیتی اور خلوص قلب سے ۔اس سے پہلے کہ ’’کہیں بہت دیر نہ ہو جائے‘‘۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button