ColumnImran Riaz

سسٹم کو حادثے کا خطرہ .. عمران ریاض

عمران ریاض

 

نوے کی دھائی میں جب میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو سیاسی طورپر ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار اور کوئی دوسرے کوبرداشت کرنے کو تیار نہ تھا دن رات ایک دوسرے کو گرانے کی سازشیں، عدم برداشت اور سیاسی عدم استحکام تھا اور یہ وہی دور تھاجب چین،کوریا،بھارت،بنگلہ دیش وغیرہ اپنی اپنی معیشتوں کو مضبوط اور مستحکم کرنے کیلئے طویل اور قلیل المدتی پالیسیوں پر عمل پیرا ہوکر اڑان بھر رہے تھے جبکہ ہمارے ہاں دونوں پارٹیوں کی دھینگا مشتی جاری تھی۔ نائن الیون سے پہلے کوئی بھی مغربی ملک پرویز مشرف حکومت کو منہ لگانے کو تیار نہ تھا لیکن نائن الیون کے بعد جب دنیا کو پاکستان کی ضرورت پڑی اور پاکستان نے بھی دہشت گردی کیخلاف مغربی دنیا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو پھر دنیا بھر سے پاکستان کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا، اگر چہ دنیا اس وقت پاکستان پر ڈالروں کی بارش کر رہی تھی لیکن ہماری معیشت پر شوکت عزیز جیسے بین الاقوامی ساہوکار آکر بیٹھ گئے جنہوں نے ملکی معیشت کو ایکسپورٹ بیس انڈسٹری لگا کر اس کی بنیادیں مضبوط کرنے کی بجائے ملک کو ٹریکل ڈائون کی پالیسی پر لگا دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وقتی طور لوگوں میں خوشحالی آئی لیکن ملک انڈسٹریل اسٹیٹ بننے کی بجائے سرمایہ داروںنے پاکستان کو لینڈا سٹیٹ بنا دیا یعنی سارا سرمایہ زمینوں کے لین دین میں چلا گیا اور زمین پاکستان میں اس قدر مہنگی ہوگئی کہ اصل خریدار کے بس سے باہر ہوگئی جبکہ ملکی معیشت یا اس کے جی ڈی پی میں اس کاروبار کا 2 فیصد بھی نہ تھا۔ مشرف دور اپنے خاتمے کے ساتھ لوڈ شیڈنگ کا اتنا
بڑا تحفہ دے گیا کہ آنے والی دونوں حکومتیں یعنی 2008 میں پیپلز پارٹی اور 2013 میں نون لیگ ان دونوں حکومتوں کی ساری انجری توانائی کے بحران پر قابو پانے میں صرف ہوگئی اور یہ کوئی بڑا منصوبہ نہ لگا سکے بہرحال ان دونوں حکومتوں کے ادوار میں سی پیک کے منصوبے پر کافی کام ہوا اور نواز شریف دور میں اس منصوبے پر عملی کام بھی تیزی سے شروع ہوگیالیکن جیسے ہی عمران خان کی انٹری 2014 میں اپوزیشن لیڈر کے طور ہوئتی اس کے ساتھ ہی پھر سیاسی عدم استحکام واپس لوٹ آیااور دھرنے، ریلیاں، عدالتوں میں مقدمات یہ سب کھیل شروع ہوگیا۔

نواز شریف کوہٹاکر عمران خان کو اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان کردیاگیا لیکن عمران خان اور ان کی ٹیم ناتجربہ کارتھے ،انہوں نے آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے یا نہ جانے کے معاملے پر جو تاخیر کی، اس سے پاکستان ڈیفالٹ ہونے کے قریب پہنچ گیا اور کرنٹ ڈیفسٹ اس قدر بڑھ گیا کہ وہ آج تک قابو نہیں آرہا۔ معیشت کی بحالی کیلئے عمران خان کو اقتدار سے علیحدہ کرکے شہباز شریف کی سربراہی میں اتحادی حکومت قائم ہوئی جس کو تسلیم کرنے سے نہ صرف عمران خان نے انکار کیا بلکہ اس کیخلاف لانگ مارچ ،ریلیاں پنجاب میں میں حکومتوں کی تبدیلی سمیت ایسے ایسے اقدام اٹھائے کہ موجودہ حکومت اپنی رٹ مکمل طور پر قائم ہی نہیں کر پائی اور بات ایک دوسرے کیخلاف غداری سے لیکر دہشت گردی کے مقدمات کے اندراج تک پہنچ چکی ہے۔ عمران خان صبر کا مظاہرہ کرنے کی بجائے سبھی پر براہ راست الزامات لگارہے ہیں اور اب ایک بارپھر سیاستدان آپس میں گتھم گتھا ہیںبلکہ ہر اہم ادارہ اپنی ساکھ بچانے کے چکروں میں ہے اور سول بیوکریسی اس صورتحال میں سینڈ وچ بنی ہوئی ہے بظاہر بحران اتنا بڑھ چکا ہے کہ اس کا کوئی حل نظر نہیں آرہامگرعام طور جب حالات ایسے ہوں تو سسٹم کسی حادثے سے دوچار ہو جاتا ہے، جب گھر میں ایک طرف کھانے کو روٹی نہ ہو اورگھر کے افراد دست و گریباں ہوں تو حادثہ ہو کے ہی رہتا ہے۔

وقت کرتا ہے برسوں پرورش
حادثہ یونہی ایک دم نہیں ہوتا

اس مرتبہ صورتحال ماضی سے یکسر مختلف ہے اور چونکہ اس بار لڑائی چومکھی ہے اور ہر فریق دوسرے کا گریبان چاک کرنا چاہتا ہے،ہر فریق اپنی مرضی کے نتائج کے حصول کے لیے ریاستی اداروں پر براہ راست دباؤ ڈال رہا ہے گرایسے میں کوئی بھی منصفی کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں۔یہ صورتحال ایسی ہی ہے جیسے ایک گھر میں رہنے والے ایک دوسرے کیخلاف دست و گریباں ہوں اور گھر میں ایسا بڑھا بوڑھا نہ ہو جس کی منصفی پر سب کو اعتماد ہو، ایسے گھروں کے مستقبل کے فیصلے بے رحم وقت پھر اپنی مرضی سے کرتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button