ColumnQaisar Abbas

کربلا عظیم درس گاہ ۔۔ قیصر عباس صابر

قیصر عباس صابر

 

کربلا کی درس گاہ کو ہم یوں بھی سمجھ سکتے ہیں ۔ امام عالی مقام جناب حسین ؓکائنات کا وہ واحد کردار ہیں جن کا ثانی کسی مثال میں بھی تاریخ قبول نہیں کرتی۔ امام حسینؓ کا یزید کو للکار کر کہنا کہ میرے جیسا ، تیرے جیسے کی بیعت کیسے کر سکتا ہے ، فصاحت و بلاغت کا انوکھا اعجاز ہے جس میں یزید کا کردار ہی اس کے منہ پر شکست کاطمانچہ ثبت کرتا نظر آتا ہے۔

ہم امام حسین ؓ کی برابری میں کسی خود تراشیدہ بت کو کھڑا بھی کرلیں تو رسول برحقﷺ کے وہ پاک لب کہاں سے لائیں گے جن سے جناب حسینؓ نے زندگی کے ذائقے کشید کئے تھے ۔ ہم حضور اکرم ﷺکی وہ اذان کہاں سے لا سکتے ہیں جس نے پہلی آواز کے طور پر اس معصوم کو باطل کے سامنے ڈٹ جانے کا درس دیا تھا۔ جناب علی ابن ابی طالب کا خون اور مخدومۂ کونین حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہ کی گود بھی تو وہ پیش لفظ ہے جہاں سے کربلا جیسی درسگاہ کے پاک ابواب تحریرکئے گئے۔ ختم المرتبت رسول ہادی ﷺ کی دوش کے سوار وہی امام حسینؓ تھے جن کو سجدۂ رسالتﷺ کے دوران پشت بنی پر سوار دکھایا گیا۔ کربلا جیسی تربیت گاہ کے لیے وہی حسینؓ ضروری ہیں جن کے کپڑے جنت سے حضرت جبرائیلؓ لائے تھے۔

معرکۂ کرب و بلا کو جنگ بدر کے تناظر میں دیکھا جائے تو بھی درس کربلا کو سمجھنا آسان ہے ۔ جنگ بدر اور میدان کربلا میں دو مختلف عقائد مقابل تھے۔ بدر میں جو جس طرف تھا ، کربلا میں بھی وہی اسی طرف ہی تھا ۔جو لوگ جنگ بدر میں حضرت محمد ﷺ کے خلاف صف آرا تھے، کربلا میں انہی کی اولادیں نبی زادے کے خلاف برسر ظلم تھیں ۔اس لیے ریاستی جبر کے خلاف ڈٹ جانے والے اہلبیت اور ان کے ساتھی دراصل اسی شریعت کے محافظ ہیں جسے حضرت محمدﷺ نے متعارف کروایا۔

میدان کربلا میں جام شہادت نوش کرنے والے خاندان امام عالی مقام کے علاوہ حضرت حبیب ابن مظاہرؓ بھی تھے جن کی جناب رسالت مآب ﷺ کے ساتھ محبت کو کون نہیں جانتا۔ حضرت حبیب ابن مظاہرؓ جیسے جیّد اور بزرگ صحابی رسول کو امام حسینؓ نے خط لکھ کر کربلا، بلایا تھا۔ مدینہ سے روانگی کا منظر علی اکبر ناطق نے یوں بیان کیا ہے’’شام کا دھندلکا پھیل چکا تھا ، امام حسینؓ اپنے گھر کے صحن میں چھوٹے اور زرد پھولوں والی بیری کے درخت کے نیچے ایک سُرخ رنگ کی یمنی چٹائی پر دو زانو بیٹھے تھے۔ یہ چٹائی اُس کم اونچائی والے چبوترے پر بچھی تھی جو بیری کے تنے کے ارد گرد حصار کی شکل میں باندھا گیا تھا۔ بیری کے پتے مسلسل پانی کی سیرابی سے گھنے اور سیاہ ہو گئے تھے ۔ ادھر اُدھر چھوٹے مگر خشک بیر بکھرے ہوئے تھے جنھیں آج اکٹھے کرنے کا خیال کسی کو نہ آ یا ۔ بیری کی شاخوں پر ابابیل نما چھوٹی چڑیاں اِدھر سے اُدھر پھُدک رہی تھیں ، یہ چڑیاں امام حسینؓ کی اُس مصیبت سے مطلق بے خبر تھیں جو بالآخر حتمی فیصلے تک آ پہنچی تھی ۔ یہ اِس بات سے واقف نہیں تھیں کہ وہ آئندہ اِس بھرے گھر کو یوں نہ دیکھ سکیں گی۔ان چڑیوں کو اندازہ نہیں تھا کہ جو بیری کی شاخیں اپنے سائے اور پھل کے ساتھ اُن کی تواضح کر رہی ہے، وہ اب کچھ عرصے میں خشک ہو کر بے رنگ ہو جائے گی ۔

حسینؓ اپنی گردن جھکائے چٹائی کے ٹوٹے ہوئے دھاگوں کو بغور دیکھ رہے تھے اور کسی ایسی سوچ میں تھے جس کی گہرائی تک جاتے ہوئے انسانوں کی عقلیں کھوجائیں گی۔ جناب حسینؓ جانتے تھے کہ اُن کے سینے میں چھپا ہوا راز ظاہر ہونے پر کائنات کے انسانوں میں فیصلہ کُن امتیاز قائم کر دے گا۔ لیکن اُسے اُن لوگوں کے دِلوں میں کیسے منتقل کیا جا سکتا ہے جن کی عقلوں کے گرد زمانہ سازی، نفاق ،بزدلی اور مصلحتوں کی خندقیں حائل ہیں۔ حسینؓ اپنی خموشی کو شاید خود سُننا چاہتے تھے ، چنانچہ بہت دیر تک اُن کا سر اپنے ہی سینے پر جھکا رہا ۔ یہاں تک کہ کاندھے پر پڑی سیاہ چادر پشت سے لڑکھتی ہوئی نیچے گر گئی ۔ جسے بی بی لیلیٰؓ نے ایک مرتبہ اٹھا کر دوبارہ آپ کے کاندھے پر رکھ دیا ۔
جناب حسینؓ کے ارد گرد بنی ابی طالب کے بچوں اور عورتوں کا جمگھٹا بندھا تھا جو ایسے فیصلے کے منتظر تھے جو شاید اُن کے شعور اور فکر کی ترجمانی نہ کرتا ہو مگر اطمینان کی دلیل بن جائے ، چونکہ صحن بہت کھلا تھا اس لیے محلہ بنی ہاشم کے تینوں دروازوں پر بنی ابی طالب کے جوان پہرہ دے رہے تھے ۔ حسینؓ نے حفاظتی اقدامات کا تمام بندوبست حضرت عباسؓ کے حوالے کردیا تھا۔ وہ اپنی مرضی کے مالک تھے ۔ جناب عباسؓ نے محلہ کی حفاظت کے لیے جو کچھ کیا اُس میں پہلا قدم یہ تھا کہ قبرِ رسول اللہؐ کا مسجدِ نبوی کی طرف کھلنے والا دروازہ مقفل کروا کے وہاں ابی طالب کےجوانوں کو بٹھا دیا اور بیت ِفاطمہ کی سمت والا دروازہ کھلا رکھا ۔ جب سے جناب حسینؓ بنی ہاشم کے جوانوں کے ساتھ ولید بن عتبہ کے دربار سے لوٹے تھے ، نماز کے لیے مسجد نبوی میں نہیں گئے ۔ اِسی بیتِ فاطمہ میں صلواۃ و عبادت کا اہتمام کرنے لگے ۔ ابی طالب کے تمام جوان بھی اِسی احاطہ میں اُن کی اقتدا میں نماز پڑھتے تھے ۔ یہی دروازہ دوسری طرف سے محلہ بنی ابی طالب میں کھلتا تھا ۔ جناب حسینؓ اِسی دروازے سے قبرِ رسول ﷺ پر مسلسل حاضری دینے لگے۔ نماز بھی قبر ہی کے احاطے میں ادا کرتےتھے۔ جناب عباسؓ نے تیسرا کام یہ کیا کہ محلہ کے مکانوں پر دو دو کی ٹولیوں میں تیر انداز کھڑے کر دیے، جو چاروں طرف نظریں رکھے ہوئے تھے تاکہ بنی ابی طالب کے محلے میں کوئی پیادہ یا سوار داخل نہ ہونے پائے ۔ امام حسینؓ کو دربار سے لوٹے ہوئے تیسرا دن تھا، مدینہ اور اُس کے مضافات سے مدینہ کے اشراف کو نصرت کے پیغامات پہنچا دیے گئے تھے ، مگر اُن میں سے کسی نے جناب حسینؓ کی نصرت تو ایک طرف اُن کے ساتھ گفتگو کرنا بھی گوارا نہ کی ۔ بنی عباس جو آلِ ابی طالب کے ہمیشہ حلیف رہے تھے ، اُنھیں بھی معاونت کے لیے بار بار بلایا گیا مگر وہ نہیں آئے ۔ عبد اللہ ابنِ عباس نے کہلا بھیجا کہ مَیں مشورہ کے لیے حاضر ہو سکتا ہوں مگر میری تلوارکو اُس کی نیام کھا چکی ہے ۔ اِس مکمل قطع رحمی کو دیکھتے ہوئے شاید جناب حسینؓ نے آخر مدینہ سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔

بہت سکوت کے بعد جناب حسینؓ نے اپنا سر اٹھایا اور اپنے بھتیجے علی بن بکر بن علیؓ کی طرف دیکھا ، جو آپؓ کے دائیں طرف صحن میں نصب جَو پیسنے والی چکی کے پتھر پر بیٹھے تھے ۔ علی بن بکرؓ کی آنکھیں جیسے ہی جناب حسینؓ سے دو چار ہوئیں ، فوراً اٹھ کر آپؓ کے سامنے آ گئے اور جناب حسینؓ نے علی بن بکرؓ کی طرف دیکھا اور بولے ، بیٹے اپنے بابا کو بلائو ۔ اُنھیں کہو جلد پہنچے ، جناب حسینؓ کا حکم پاتے ہی وہ دروازے سے نکل گئے اور تھوڑی دیر بعد اپنے والد بکر بن علیؓ کے ساتھ حاضر ہوگئے تب حسینؓ نے اپنے بھائی بکر بن علیؓ کو قریب طلب کیا ۔ وہ پاس آئے حتیٰ کے چٹائی کے پاس ننگے فرش پر سامنے دو زانو بیٹھ گئے ۔ بکر بن علیؓ نے اپنی تلوار وہیں فرش پر رکھ دی ۔جناب حسینؓ نے اپنا دایاں ہاتھ اٹھایا اور بکرؓ کے کاندھے پر رکھ کر اُنہیں مزید اپنے قریب کیا ، اور بولے ، میرے بھائی ، تمھیں کوئی شک نہیں رہنا چاہیے کہ ہم مدینہ چھوڑ رہے ہیں ۔

مدینہ مسلسل اُس سائے کی لپیٹ میں آ رہا ہے جو شریف لوگوں پر ذلت کی چادریں اُڑھا دیتا ہے۔ اس سے پہلے کہ اِس سائے کی لمبی قامت ہمارے صحنوں تک پہنچے ہم مدینے کی حدود سے نکل جائیں۔ میرے پاس اپنے نانا کی قبر کی عزت کی حفاظت کا اِس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ فی الحال مَیں اُس سے اپنی جدائی پیدا کر لوں تاکہ رذیل لوگ میری آڑ لے کر حرمتِ رسول ﷺکے درپے نہ ہوں ۔ ہم جلد مکہ کی طرف نکلنے والے ہیں ۔ تم جانتے ہو ہمارے تین بھائی ینبوع میں موجود ہیں ۔ تم اِسی وقت ینبوع روانہ ہو جائو ، وہاں ہمارا بھائی یحییٰ ہمارے کاموں کا نگران ہے ، اُسے کہنا اپنے معاملات کو سمیٹ کر اور جو کچھ ہمارے حصے کا سرمایہ موجود ہے وہ لے کر جلد ہمیں مکہ میں ملے اور اہلِ ینبع میں سے اگر کوئی ہماری نصرت کے لیے ساتھ ہونا چاہے تو اُسے عزت اور وقار کے ساتھ لے کر نکل پڑے۔ جلدی کیجیے ۔جناب حسینؓ کا حکم پا کر بکر بن علیؓ نے اپنا سر جھکا لیا ، آگے بڑھ کر حضرت حسینؓ کے ہاتھوں کو بوسہ دیا ۔ اُسی لمحے امام حسینؓ نے بکرؓ کے ماتھے پر بوسہ دیا اور اُن کا کاندھا تھپتھپا کر اپنے سے جدا کر دیا ۔ بکر بن علیؓ نے اپنی تلوار اُٹھائی اور تیزی کے ساتھ قبرِ رسول ﷺ میں داخل ہو گیا تاکہ مدینہ سے نکلنے کے لیے وہاں سے آخری اجازت طلب کر لے اور قبرِ رسولِ ﷺکو چھو کر برکت سمیٹ لے‘‘
کربلا میں حق اور باطل کے درمیان اپنے لہو سے لکیر کھینچنے والے جناب حسینؓ کی وہ گردن کاٹ دی گئی جسے رسول اللہ ﷺ چوما کرتے تھے اور پھر اپنے ہی پیغمبر کے خانوادے کو ذبح کرنے کے بعد قاتلوں نے خون محمدﷺ میں لت پت ریت پر نماز عصر ادا کر کے خود کو دھوکا دیا گیا ۔قتل کرنیوالے ہمیشہ کے لیے لعنت کے حقدار ہوگئے اور مقتول امام حسینؓنے اپنے نانا ﷺکی شریعت کو بچا لیا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button